لالہ ہربنس لعل پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کی بہو سویتا مٹی کے تیل میں نہائی اور بال بکھرائے دھاڑیں ماررہی تھی اور ان کا اکلوتا بیٹا سنیل غصہ سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ان کی بیوی رما اپنے بالوں کو نوچ نوچ کر چیخ رہی تھی۔ سنیل کی قمیص جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی۔ گریبان تار تار تھا۔ چہرے پر جا بجا ناخنوں کی خراشیں ابھر آئی تھیں جن سے متواتر خون رس رہا تھا۔
چند لمحوں تک تو وہ بے یقینی کی حالت میں یہ سب دیکھتے رہے لیکن جیسے ہی ان کے حواس بجا ہوئے انھوں نے سنیل کے قدموں میں پڑی ماچس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’اس کلموہی نے میرے بیٹے کا منھ نوچ لیا۔ اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔‘‘ ان کی بیوی رَما ابل پڑی۔
’’نہیں پتا جی! یہ دونوں ماں بیٹا مجھے جلاکر مار ڈالنا چاہتے تھے۔‘‘ سویتا روتے روتے بولی۔
’’ہاں حرامزادی میں تمہیں جلا کر ہی ماروں گا۔‘‘ سنیل نے دانت پیستے ہوئے کہا اور جھک کر ماچس اٹھانے لگا۔ لالہ ہربنس لعل تیزی سے آگے بڑھے اور سنیل کے ہاتھوں سے ماچس چھین لی۔
’’کمین، ذلیل ایسی گھٹیا حرکت کرنے کی تیری ہمت کیسے ہوئی۔ تیرے دماغ میں آیا کیسے یہ سب؟‘‘
’’اجی آپ بھی عجیب ہو۔ اپنے ہی بیٹے کو گالیاں دے رہے ہو۔‘‘ ماں نے بیٹے کی طرفداری کرتے ہوئے کہا۔
’’گالیاں نہ دوں تو اور کیا کروں، تم دونوں کی تو عقل ماری گئی ہے، اس طرح بہو کو جلا کر جیل جانے کاسامان کررہے ہو تم لوگ۔ تم تو مروگے ہی، مجھے بھی پھنسواؤگے۔ تمہیں نہ میری عزت کا خیال ہے اور نہ میرے مرتبے کا۔‘‘
لالہ ہربنس لعل شہر کے مشہور سیاسی لیڈر اور سوشل ورکر تھے۔ آج صبح ہی ان کی پارٹی نے انہیں ضلعی سطح پر پارٹی کا صدر نامزد کیا تھا۔ سرکاری حلقوں میں وہ کافی بااثر لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ محلہ کے سبھی لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کوئی بھی کام ان کی شرکت کے بغیر انجام نہیں پاتا تھا۔ محلے کی ایک پتلی اور لمبی سی گلی کے آخر والا مکان ان کی ملکیت تھی۔ ان کے مکان کے ارد گرد کئی کئی منزلہ مکان اس انداز سے سر اٹھائے کھڑے تھے کہ ان کا مکان ایک بند صندوق بن کر رہ گیا تھا۔ ان کا اکلوتا بیٹا سنیل ایک گیس ایجنسی کا مالک تھا۔ ابھی چند ماہ پیشتر لالہ جی کی کوششوں سے ٹن شیٹز کا ایک لائسنس بھی ان کے نام الاٹ ہوگیا تھا۔
’’پتا جی! یہ کل سے میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ میں اپنے باپ سے دو لاکھ روپیہ لاکر دوں۔ میں نے ان کے کہنے پر پچھلے دنوں فریج، رنگین ٹی وی لاکردیا۔ بھیا نے اپنا وی سی آر اور اسکوٹر تک دے دیا۔ آپ ہی بتائیے پتاجی! آخر مانگنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ میرے گھر والوں کی نظروں میں ہم سب کو ذلیل کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ سویتا نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’پتا جی آپ ہی تو کہتے ہو کہ وقت کو کیش کرو۔ ذرا سوچئے! آپ کی کوششوں سے مجھے ٹن شیٹز کا لائسنس ملا ہے۔ ان شیٹز کو ہم کب تک بلیک میل کرتے رہیں گے۔ شہر میں کریم سیف والے ہیں۔ ہما سیف والے ہیں۔ ان میں سے اگر کسی نے اوپر شکایت کردی تو؟ اور پھر یہ لوگ کتنے آگے جارہے ہیں۔ کیا ہم کوئی سیف کمپنی قائم نہیں کرسکتے؟ پوروہ شیخ لال کے پارک والی زمین آپ کارپوریشن سے پٹّہ پر میرے نام الاٹ کرادیجیے گا۔ یہ دو لاکھ روپیہ اگر لے آئے تو میں ایک سیف کمپنی بآسانی کھڑی کرسکتا ہوں۔‘‘ سنیل نے جیسے اپنی صفائی میں سب کچھ کہہ ڈالا۔ لالہ ہربنس لال اپنے بیٹے کی عقل پر حیران ہورہے تھے۔
’’ابے نالائق اول تو بہو پر اس طرح دباؤ دے کر روپیہ منگانا گری ہوئی ذہنیت کی دلیل ہے۔ دوسرے اگر تم اسے جلاکر ماروگے تو کیا تمہیں دولاکھ روپیہ مل جائے گا؟‘‘ لالہ جی نے سنیل پر طنز کیا۔
’’ہاں ہاں مل کیوں نہیں جائے گا۔ میں اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرلوں گی اور نقد پانچ لاکھ لوں گی۔ تمہارے کروڑ پتی دوست امرناتھ صراف کی بیٹی میری نظر میںہے۔‘‘ ان کی بیوی نے اپنی دانست میں خوش خبری سنائی۔
’’ارے ذلیلو! کمینو!! ڈوب مرو کہیں جاکر۔ تمہارے دماغوں میں لالچ اس درجہ سماگیا ہے کہ تم انسان سے جانور بن گئے ہو۔ اری نالائق اس پھول سی بہو میں کیا کمی ہے جو تو اس کپوت کی دوسری شادی کرنا چاہتی ہے اور یہ حرامزادہ کہتا ہے کہ پتا جی آپ ہی تو کہتے ہو وقت کو کیش کرو۔ ابے بیوقوف یہ نعرہ میں نے ملکی سیاست کے لیے دیا ہے اپنے گھر کے لیے نہیں اور یہ وقت تمہاری نظر میں کیش کرنے کا ہے۔ ارے جنوری ۱۹۸۵ء میں لوک سبھا کے چناؤ ڈیو ہیں، مجھے ٹکٹ ملنے کی امید ہے اور تم دونوں ماں بیٹا اپنی ’’گرہ لکشمی‘‘ کو جلا کر وقت کو کیش کررہے ہو۔ جلاکر مارنا آسان سمجھ رکھا ہے تم نے۔ یہ قتل کا معاملہ تھوڑا ہی ہے کہ دفعہ ۳۰۲ لگی اور آپ نے پیسہ بھر کے چشم دید گواہ تک توڑ لیے اور بچ گئے۔ کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو بچانے والا بھی کوئی نہیں ملے گا۔ اس کے لیے وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی نے خصوصی قانون بنوایا ہے جسے ڈاوری ایکٹ کہتے ہیں۔ اس میں ثبوت بھی ملزموں کو ہی دینے ہوتے ہیں، وہ سزا سے نہیں بچ سکتے۔ اس کیس میں ساس اور سسر پہلے پھنستے ہیں۔‘‘
’’لیکن پتا جی…!‘‘ سنیل نے کچھ کہنا چاہا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔ دیکھتا نہیں وہ تیرا دوست منی رام، اس کے ماں باپ، بڑا بھائی اور بھابی ابھی تک جیل میں ہیں۔ بیوی کو جلاکر تیرا دوست سمجھ رہا تھا کہ کوئی بڑا کارنامہ کردیا اس نے۔ آج تین مہینے سے بھی زیادہ ہوگئے پڑے جیل میں سڑ رہے ہیں۔ ہائی کورٹ تک سے ضمانت نہیں ہوسکی ان کی۔‘‘
’’کیوں جی! پھر یہ تمہاری لیڈری کس کام کی؟‘‘ بیوی نے ہونٹ بچکاتے ہوئے آنکھیں نچائیں۔
’’لیڈری ویڈری سب رکھی رہ جاتی ہے اس معاملہ میں۔ پولیس اور اخبارات تک پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ تم دونوں ماں بیٹا سن لو۔ میرے ہوتے ہوئے میری بہو پر نہ کوئی ہاتھ اٹھائے گا اور نہ ہی کوئی ناجائز مانگ کرکے اسے پریشان کرے گا۔‘‘
لالہ ہربنس لعل نے آگے بڑھ کر اپنی بہو سویتا کوگلے سے لگالیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر نرم لہجہ میں اسے کپڑے بدلنے کے لیے کہنے لگے۔
۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۴ء
لالہ ہربنس لعل پارٹی دفتر میں داخل ہوئے۔ صبح کے ساڑھے نو بجے تھے۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھنے والے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بول اٹھی۔ انھوں نے ریسیور اٹھایا۔ فون دہلی آفس کا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا:
’’پارٹی کے سبھی لوگوں کو یہ اطلاع دے دی جائے کہ وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی کو ان کی رہائش گاہ پر ہی ان کے سکھ محافظوں نے گولی ماردی ہے۔ حالت بہت خراب ہے۔ ان کی بہو سونیا اور پی اے آر کے دھون انہیں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لے گئے ہیں۔‘‘ یہ خبر لالہ جی پر ایک بم کی طرح گری۔ کچھ دیر تک تو وہ گم سم سے بیٹھے رہے۔ لیکن چند لمحوں کے بعد انھوں نے یہ خبر اپنے سکریٹری کو دی۔ بارہ بجے آکاش وانی کا ایک خصوصی بلیٹن نشر ہوا۔ جس میں وزیر اعظم کو گولی مار دینے والی خبر کی تصدیق کی گئی۔ یہ خبر پوری دنیا نے نہایت غم و اندوہ کے ساتھ سنی۔ پورے دن ریڈیو وزیر اعظم کی حالت نازک بتاتا رہا۔ وزیر اعظم کے بیٹے راجیو گاندھی کلکتہ میں تھے۔ صدر گیانی ذیل سنگھ متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے۔ یہ دونوں حضرات اپنے دورے ختم کرکے دارالحکومت روانہ ہوچکے تھے۔
شام چھ بجے والی خبروں میں آکاش وانی نے اعلان کیا کہ وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی کا انتقال ہوچکا ہے۔ صدرِ جمہوریہ اور شری راجیو گاندھی دارالحکومت پہنچ چکے ہیں۔ تیرہ دن کے لیے سرکاری سوگ کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ ملک میں سبھی سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر قومی جھنڈا سرنگوں کردیا گیا ہے۔ پورے ملک میں سکھوں کے خلاف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
لالہ ہربنس لعل نے تیزی کے ساتھ اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچ کر انھوں نے آہستگی سے گیلری میں اسکوٹر کھڑا کیا اور صدر دروازے کی کنڈی لگادی۔ دبے پاؤں اندر داخل ہوئے۔ نہایت خاموشی کے ساتھ اپنی بیوی رَما اور بیٹے سنیل کو بلایا اور خود مٹی کے تیل کی کین اٹھاکر کچن کی طرف بڑھ گئے۔ دروازے کی جانب پیٹھ کیے سویتا کنستر سے چاول نکال رہی تھی۔ لالہ ہربنس لعل کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ انھوں نے تیز نظروں سے اپنی بیوی اور بیٹے کی طرف دیکھا۔ ان دونوں کی آنکھوں میں کھیلتی ہوئی چمک لالہ جی کو اپنے تعاون کا یقین دلا رہی تھی۔ انھوں نے ہونٹ بھینچ لیے۔ لالہ جی کے جبڑوں کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ انھوں نے تیزی سے کین کا ڈھکن کھولا اور مٹی کا تیل سویتا کے اوپر انڈیل دیا۔ سویتا بوکھلا کر پلٹی۔
’’پتا جی… !‘‘ وہ خوفزدہ ہوکر چلائی۔ اس نے لالہ جی کو پکڑنا چاہا مگر سنیل نے اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ وہ گر پڑی اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی، سنیل نے دیا سلائی جلاکر اس پر پھینک دی، تینوں تیز رفتاری سے کچن سے نکل گئے اور دروازہ باہر سے بند کردیا۔
اگلے روز اخبارات میں جہاں دہلی، کلکتہ، مدراس، بنگلور اور اندور میں فسادات پھوٹنے کی خبریں چھپی تھیں جن میں سکھوں کے زندہ جلادینے، مکانوں اور دکانوں کی لوٹ کے واقعات درج تھے، وہاں ایک خبر یہ بھی تھی۔
’’شہر کے مشہور سیاسی و سماجی لیڈر لالہ ہربنس لعل کے بیٹے شری سنیل کی بیوی نے وزیر اعظم شریمتی اندرا گاندھی کے قتل کی خبر سے دکھی ہوکر خود سوزی کرلی۔ لالہ ہربنس لعل کے مطابق وزیر اعظم کے گولی لگنے کی خبر سن کر ان کی بہو سویتا بے ہوش ہوگئی لیکن جب ہوش میں آئی تو اس کا دماغی توازن بگڑچکا تھا۔ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔ شام چھ بجے ریڈیو نے وزیر اعظم کی موت کی خبر نشر کی تو اس کے رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہوگئی۔ ساڑھے چھ بجے اس نے کچن میں گھس کر اور اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگالی۔ میری بیٹی، میری بہو اپنی پیاری وزیر اعظم کے غم کو سہہ نہ سکی اور اس نے اپنی جان دے دی۔‘‘