انسانی زندگی میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی وقت ہے جو افراد اور قوموں کی ترقی کی بنیاد ہے۔ قومیں اسی سے ترقی کرتی ہیں اور انسان اس کی اہمیت کو سمجھ کر ہی کامرانی کی منزلیں طے کرتا ہے۔
وقت ختم ہوجاتا ہے اور کسی کے انتظار میں نہیں رہتا۔ اس کا ایک بار کا کھوجانا ہمیشہ کا فقدان ہے۔ اگر مال ضائع ہوجائے تو اسے دوبارہ جمع کیا جاسکتا ہے، سامان کھوجائے تو کارخانے اسے دوبارہ تیار کرسکتے ہیں لیکن وقت کا معاملہ مختلف ہے وہ چلا جاتا ہے تو واپس نہیں ہوتا نہ انتظار میں رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فجر، ضحی، عصر لیل و نہار وغیرہ کی قسم کھاتا ہے تاکہ مسلمان کی زندگی میں اور اسلامی معاشرہ میں وقت کی اہمیت معلوم ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکر گزار ہونا چاہے۔‘‘ (الفرقان)
زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ (آل عمران)
خالقِ کائنات نے رات کو بنایا کہ وہ دن کے بعد آئے اور دن کو بنایا کہ وہ رات کے بعد آئے تاکہ جس کا کوئی کام ان دونوں میں سے کسی ایک میں کرنے سے رہ گیا ہو تو وہ اس کی تلافی دوسرے میں کرنے کی کوشش کرے۔ رات اور دن کی یہ گردش ہی زمانہ ہے۔ اور عقلمند وہ مسلمان ہیں جو اپنے لیے اپنے معاشرہ کے لیے اور پوری انسانیت کے مفاد کے لیے وقت کو استعمال کرتے ہیں۔ تہذیب یافتہ انسان جو اپنے آپ کی اور اپنے وقت کی قدر کرتا ہے وہ نہ صرف کارہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے بلکہ محیر العقول کارنامے بھی انجام دے سکتا ہے۔
قرآن کی طرح سنت نے بھی وقت کی قدر بتائی ہے۔ اور اس کی اہمیت پر زور دیا ہے اور قیامت کے دن خدا کے حضور انسان کو وقت کے متعلق جوابدہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ حساب کے دن جو بنیادی سوالات انسان سے پوچھے جائیں گے ، ان میں سے دو کا تعلق وقت سے ہے۔
ابنِ مسعودؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا تاآنکہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔ عمر کہاں گزاری؟ جوانی کس کام میں کھپائی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا؟
انسان سے اس کی عمر کے بارے میں عمومی طور پر اور جوانی کے بارے میں خصوصی طور سے سوال کیا جائے گا اگرچہ جوانی بھی عمر کا ایک حصہ ہے لیکن اس کی نمایاں حیثیت ہے۔ اس لیے کہ یہ حوصلہ اور کچھ کر گزرنے کی عمر ہوتی ہے۔ اللہ کے صالح بندے اللہ کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق وقت کا استعمال کرتے ہیں تاکہ آخرت کے دن جواب دہی سے بچ سکیں۔ چنانچہ جب ہم اپنے اسلاف کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں ان کے کارناموں کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ وقت کے معاملے میں سب سے زیادہ حریص تھے۔ اس لیے کہ وہ وقت کی قدروقیمت سے بخوبی واقف تھے۔
حسن بصریؒ فرماتے ہیں ’’میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کے نزدیک وقت کی قدروقیمت اس سے زیادہ تھی جتنی تمہارے نزدیک درہم و دینار کی ہے۔‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں: ’’شب و روز تمہارے لیے کام کرتے ہیں تم ان میں کام کرو۔‘‘
امام حسن البنا کے نزدیک وقت ہی حیات ہے اور انسان کی زندگی وقت کے سوا کچھ نہیں جسے وہ پیدائش سے لے کر موت تک صرف کرتا رہتا ہے۔ حسن بصریؒ کہتے ہیں: ’’اے ابنِ آدم! تو چند ایام کا مجموعہ ہے ایک دن گزرتا ہے تو گویا تیرا ایک حصہ ختم ہوجاتا ہے۔‘‘
ایک طرف ہم اسلاف کو دیکھتے ہیں کہ وہ وقت کے تعلق سے انتہائی حریص تھے اس لیے کہ انہیں اس کی حقیقی قدروقیمت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اور دوسری طرف ہم آج کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنا قیمتی وقت کس طرح لاپرواہی سے ضائع کررہے ہیں۔ حالاںکہ حق تو یہ ہے کہ اوقات کو ضائع کرنے کی حماقت مال کو ضائع کرنے کی حماقت سے زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے کہ مال برباد ہوجائے تو اس کا بدل ممکن ہے لیکن وقت کا کوئی بدل نہیں۔ اسلاف نے کہا ہے وقت کو برباد کرنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ بزرگوں کا قول ہے وقت تلوار کی مانند ہے تم اسے نہ کاٹو گے تو وہ تمہیں کاٹ دی گی۔