بنجمن فرینکلن کی دکان میں ایک گاہک داخل ہوا اور کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ سیلزمین اس کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ گاہک کافی دیر تک ادھر ادھر گھوم کر وقت ضائع کرنے کے بعد ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگا پھر جب وہ کافی کچھ پڑھ چکا تو کتاب کی ورق گردانی بند کردی اور سیلزمین کی طرف کتاب بڑھاتے ہوئے سوال کیا: ’’جناب اس کتاب کی قیمت کیا ہے؟‘‘ سیلزمین نے جواب دیا: ’’ایک ڈالر جناب!‘‘
بے فکرے گاہک نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: ’’ایک ڈالر تو بہت ہے کچھ کم کرو؟‘‘ سیلزمین نے اکتا کر کہا۔
’’جناب! یہ قیمت میں نے نہیں رکھی، ناشر نے رکھی ہے۔‘‘ گاہک نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے کہا: ’’مسٹر فرینکلن کہاں ہیں؟
سیلزمین نے اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہاں دفتر میں موجود ہیں۔‘‘
’’میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس وقت وہ بے حد مصروف ہیں۔‘‘ آخر گاہک کے اصرار پر سیلز مین نے کہا: ’’اچھا! آپ یہاں تشریف رکھیں۔ میں انھیں مطلع کرتا ہوں۔ اگر انھوں نے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی تو میں آپ کو ملوادوں گا۔‘‘
سیلزمین اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب واپس آیا تو مسٹر فرینکلن بھی اس کے ساتھ تھے۔ سیلزمین نے گاہک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جناب والا! یہ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
فرینکلن نے سرسے پاؤں تک ان صاحب کو دیکھا اور کہا:’’جناب معاف کیجیے گا۔ میں آپ کو پہچان نہیں سکا۔‘‘
گاہک نے نہایت تپاک سے ہاتھ ملایا اور کہا: ’’بیشک آپ مجھے کس طرح پہچان سکتے ہیں۔ جب کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے پہلی بار مل رہے ہیں۔‘‘
فرینکلن نے پوچھا: ’’مجھ سے کوئی کام؟‘‘
گاہک نے اپنی پسندیدہ کتاب فرینکلن کے آگے رکھ دی اور کہا: ’’جناب والا!آپ کا سیلزمین اس کتاب کی قیمت ایک ڈالر بتاتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ قیمت زیادہ ہے۔ کیا آپ اس کی قیمت میں کچھ کمی کرسکتے ہیں؟‘‘
فرینکلن نے کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر جواب دیا۔
اب اس کتاب کی قیمت سوا ڈالر ہوگئی ہے۔ سوا ڈالر ادا کرکے کتاب لے جائیے۔
گاہک ششدر رہ گیا، بولا:
’’واہ جناب! یہ تو ایک خوب رہی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آپ کا سیلزمین اس کتاب کی قیمت ایک ڈالر بتارہا تھا اب آپ سوا ڈالر فرما رہے ہیں۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
فرینکلن نے جواب دیا: ’’اگر آپ مجھے طلب نہ فرماتے اور مجھے اپنا ضروری کام چھوڑ کر یہاں نہ آنا پڑتا تو میرا سیلزمین اس کتاب کو ایک ڈالر میں ہی فروخت کردیتا۔ ‘‘
گاہک ہنسنے لگا : ’’خوب! خوب!! یہ خوب رہی۔ اچھا تو اب آپ بتائیے کہ اس کتاب کی آپ مجھ سے کم سے کم کیا قیمت لینا پسند فرمائیں گے۔‘‘
فرینکلن نے نہایت سنجیدگی اور متانت سے جواب دیا:
’’صرف ڈیڑھ ڈالر!‘‘ گاہک مارے حیرانی کے اچھل پڑا، بولا:
’’یہ کیا؟ یہ کیا؟ یعنی ایک سے سوا اور سوا سے ڈیڑھ ڈالر۔ یہ آپ کیا فرمارہے ہیں۔ آخر اس کتاب کی خاصیت کیا ہے جو آپ اس کے دام بڑھاتے جارہے ہیں؟‘‘
فرینکلن نے جواب دیا: ’’اس کتاب کی قیمت میں میں اپنے وقت کی قیمت بھی شامل کرتا جارہا ہوں، ذرا دیر بعد اس کتاب کی قیمت دو ڈالر ہونے والی ہے۔‘‘ گاہک نے فوراً جیب سے ڈیڑھ ڈالر نکال کر فرینکلن کے حوالے کیے اور کتاب لے جاکر جاتے ہوئے بولا:
’’مسٹر فرینکلن! آپ نے اس وقت مجھے جو سبق دیا ہے اسے میں زندگی بھر یاد رکھوں گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!‘‘
——