وِیمن شُڈ بی سین۔۔۔۔

ڈاکٹر منجو شُکلا/ترجمہ: زاہدہ خاتون

فرانسیسی مصنفہ سیمین دَ بووار نے اپنی معروف ترین کتاب ’دی سیکینڈ سیکس‘ میں یو ںہی یہ بات نہیں لکھ دی تھی کہ ’’عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنائی جاتی ہے۔‘‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ عورت خواہ کسی بھی ملک یا مذہب سے تعلق رکھتی ہو، انجام کے معاملے میں تقریباً ایک جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔بات اگر ہندستان کی معروف ریاست اترپردیش کی کر رہے ہیں تو یہاں کا حال بھی اس کے لیے پرامن اور سکون بخش نہیں ہے۔کیوں کہ جس طرح عورتوں کو کوکھ سے لے کر قبر تک سماجی و ثقافتی تانے بانے میں رہنا ’سکھایا‘ جاتا ہے، وہاں اس ’سیکھنے‘ کے عمل کے دوران وہ ایک گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان سے محض ایک ’استری دیہہ‘ میںکب تبدیل ہوجاتی ہے ، اسے خود نہیں معلوم ہو پاتا ہے۔ایک ایسی عورت جس کی زبان سے لے کر فیصلے تک پر کسی اور کی مہر لگی ہوتی ہے ، وہ ’اچھی عورت‘ کا تمغہ حاصل کرنے کے لیے تمام عمر

زندگی کی ڈور پر کرتب کرتی ہے ۔ شاید عورتوں کے اسی طرز عمل کے پیش نظر یونانی ڈراما نگار سوفیکلیز نے کہا ہوگا: “Women should be seen, not heard”یعنی عورتیں صرف دکھائی دیں ، سنی نہ جائیں۔
ایک عورت بدایوں ضلع میں ملی تھی۔اس عورت کے آنچل سے ڈھکے ہوئے چہرے پر جب نگاہ گئی تو میںحیرت زدہ رہ گئی۔ کیوں کہ اس کی آنکھوں کی جگہ پر گڈھے تھے۔پوچھنے پر اس کے بھائی نے بتایا کہ اس کا شوہر شراب پی کر اس کی آنکھوں پر گھونسے مارتا تھا۔ نتیجۃً اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی اور چہرے پر یہ گڈھے آگئے۔۳۵/برس کی عمر میں اس کے منہ میں پندرہ بیس دانت ہی تھے۔وجہ، اس کا شوہر سینڈل پہن کر اس کے منہ پر لات مارتا تھا، جس سے اس کے دانت ٹوٹ گئے۔اتنے مظالم سہنے اورشوہر کی بدتمیزی اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود یہ عورت میرے زیادہ تر سوالوں کے جواب میں خاموش ہی رہی۔
میں گھنٹوں اس کے بارے میں سوچتی رہی، کیوں کہ مجھے احساس ہے کہ آنکھوں کے سامنے چھائے ہوئے اندھیرے میںوہ زندگی کی روشنی کی جستجو کا جذبہ لائے تو کہاں سے لائے؟زندگی اتنی حساس نہیں ہے کہ وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی دے سکے۔ماضی اس کا غیر تعلیم سے قطعاً عاری ہے ، جس کی وجہ سے وہ حق اور اختیار کی ایک عبارت بھی لکھنے سے قاصر ہے۔زندگی بھائی کے رحم وکرم پر ہے، جہاں اس کے لیے عزت نفس کی تلاش ناممکن ہی ہے۔ان حالات میں کوئی کیسے اور کہاں سے آواز اٹھائے؟ انجام کاریہ محاورہ کہ ’عورت دیکھی جاسکتی ہے، سنی نہیں جاسکتی۔ حقیقت میں عملی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ہر جائز ناجائز، مناسب نامناسب، محبت ونفرت اور تشدد و ملائمت کو عورت اپنا مقدر یوں ہی نہیں مانتی ۔ ’قومی خاندانی جائزہ (۳)‘(راشٹریہ پریوار سرویکشن) جس کا قیام حال ہی میں عمل میں آیا ہے، اس میں ۲۸ ریاستوں کی سوالاکھ عورتوں اور پچہتر ہزار (۷۵۰۰۰)مردوں سے گفتگو کی گئی تھی۔اس جائزے سے بھی یہ حقیقت سامنے آئی کہ ۵۴ فی صد عورتیں اور ۵۱ فی صد مرد گھریلوتشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔یہ اعداد وشمار مذکورہ بالا جائزے ہی سے سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ ہم نے جو سروے کیا اس میں بھی یہ بات کئی بار آئی کہ عورتیں اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو درست سمجھتی ہیں۔کھانا ٹھیک سے نہ بنانے، شوہر کی بات نہ ماننے، عورت کا کردار مشکوک ہونے، زیادہ بولنے، غلطی کرنے اور شادی کے بعد مائیکے والوں سے زیادہ تعلقات رکھنے جیسی معمولی وجوہات پر خود ان کے اوپر جو مظالم ہوتے ہیں ، انھوں نے اسے جائز ٹھہرایا ہے۔یہ حقیقت ایک مہذب سماج کے لیے انتہائی مہلک ہے کہ ایک مظلوم شخص اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر شکایت یا اس کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے نہ صرف یہ کہ اس کے سامنے ہتھیار ڈال دے بلکہ اسے جائز قرار دے۔صدیوں سے رسوم ورواج کے نام پر فرسودہ نظام کی گھٹی پلا کر، استحصال کی چوٹ پہنچا کر، دبُّو(ظلم کے آگے دب کر رہنے والی) کہہ کر ہم نے اپنی بچیوں اور عورتوں کو اس قدر بے جان اور کُند کردیا ہے کہ وہ انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ تو دور، اکیسویں صدی میںسرگرم ملک کے شہری ہونے کے باوجود ، خود پر ہونے والی مظالم کو جائز ودرست ٹھہرانے لگی ہیں۔یہ صورت حال محض علم کی روشنی سے محروم اور مظلوم دیہاتی عورتوں کی ہی نہیں ہے بلکہ ان شہری عورتوں کی بھی ہے جو تعلیم یافتہ اور خود کفیل ہیںکیوں کہ اس ’نام نہاد سماجی ڈھانچے میں عورت کے باعزت رہنے کی شرط سب کچھ سہہ کر خاموش رہنا ہی ہے۔
آج بھی اس سماج میں گھریلو تشدد اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کو پیٹھ پیچھے گالی دینے اور ان کا مذاق اڑانے کے بجائے ان کی حمایت کرنے اور انھیں سراہنے والے لوگ کتنے ہیں۔بہر حال عورت آج بھی شک کے دائرے میں ہے۔
گھریلو تشدد (مخالف) قانون بن جانے کے بعد ۲۰۰۷ میں مہیلا کلیان ندیشالیہ اترپردیش سے جاری شدہ معلومات کے مطابق اترپردیش کے ۷۰ ؍اضلاع میں سے محض جھانسی، جالون، لکھنؤ، رائے بریلی، ہردوئی، انائو، سیتاپور، لکھیم پور، مہاراج گنج، فتح پور، اٹاوہ اور فیض آباد کو چھوڑ کر کسی بھی ضلع سے شکایتوں کا موصول نہ ہونا’نظم‘ کی ’بدنظمی‘ کا بہت بڑا ثبوت ہے۔جن سات اضلاع میں سروے کا کام ہوا ، ان اضلاع کے نظام اور قانون کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ میدان جنگ کی جانب کوچ کرنے والے شہسواروں بنام ضلع پروبیشن آفیسروں کو قانون کے نام پر کاٹھ کی بندوق تھما دی گئی ہے جو دیکھنے میں تو بندوق ہی نظر آتی ہے لیکن ضرورت پڑنے پر اس سے گولی کبھی نہیں نکلتی۔جہاں ہفتے میں صرف ایک پہر ’گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے مقرر‘ کیا جاتا ہو، وہاں ’شکایتیں نہ موصول ہونے کی شکایت کرنا‘ کتنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔
جہاں ضلع پروبیشن آفیسر نے اس ایکٹ کو اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے دو برس بعد بھی محض سرسری طور پر ہی پڑھا ہو، وہاں موصولہ شکایتوں کی تعداد صفرہونا حیران کن بات نہیں ہونی چاہیے۔جس ریاست کے تمام مرد گھر میں نظم وقانون کو برقرار رکھنے کے لیے عورت کو پیٹنا ضروری سمجھتے ہوں ، وہاں گھروں کے اندر سے کبھی سسکی تو کبھی چیخ کی آواز اس سماج کی تصویر پیش کرتی ہے جہاں صرف فرسودہ رسم ورواج کی سوچ بستی ہے۔ایک دو نہیں بلکہ بیشتر عورتوں پر ہونے والایہ سلوک ایک مہذب سماج میں پوری طرح ناجائز ہونا چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب اسے ایک انسان کی حیثیت سے دیکھا جائے گا، اس کی گھریلو، معاشرتی اور قومی اہمیت کو سمجھا جائے گا۔(ضمیمہ ‘آدھی دنیا‘ راشٹریہ سہارا، دہلی۔ ۲۹/جون ۲۰۱۱ء)
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں