س: آپ کا سفر کس سلسلہ میں رہا؟ اور کہاں کہا جانا ہوا؟
ج: سسرالی قریبی رشتہ داروں سے ملاقات میرے پیش نظر تھی کیونکہ تقریباً ۱۲، ۱۳ سالوں سے ان سے رابطہ نہیں ہوپایا تھا۔ ویسے تو سفر کا آغاز دہلی سے ہوا۔ شہر کراچی میں تقریباً ۴۰ دنوں تک اور لاہور میں ایک دن کا قیام رہا۔شہر کراچی میں دفتر جماعت اسلامی، شہر کراچی کی ناظمہ نیز زون کی ناظمہ سے گفتگو ہوئی۔ اسی شہر میں فیڈرل بیورو ایریا ارکان کے تنظیمی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ شہر لاہور میں ہی منصورہ علاقہ میں جماعت اسلامی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
س: مسلمانوں کا طرزِ زندگی جو آپ نے پاکستان میں دیکھا؟
ج: پاکستان الحمد اللہ ایک مسلم ملک ہے جہاں عوام اور حکومت کا مذہب اسلام ہے۔ مگر افسوس کہ مجموعی طور پر ان کا طرز زندگی اسلام اور اس کے احکامات کے مطابق نہیں ہے۔ معاشی طور پر عوام تین طبقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اعلیٰ، درمیانی اور نچلا طبقہ۔ نچلے طبقہ میں غربت کی وجہ سے تعلیمی پسماندگی ہے اور مسلم ہوتے ہوئے بھی انہیں وہ درجہ نہیں ملا جو ملنا چاہیے۔ ان کو سماج میں کمتر درجہ دیا جاتا ہے۔ درمیانی طبقہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی فکر، سوچ، طرز عمل کے لحاظ سے مغربی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور اسی تہذیب کا پرستار ہے۔ اعلیٰ طبقہ میں معاشرتی طور پر لوگ دین اسلام سے تو واقف ہیں۔ اذکار و ارکان ادا کرتے ہیں مگر زندگی میں شریعت سے دوری اور اطاعت رسولؐ کی کمی ہے۔
س: کیا گزشتہ دہائی میں اس رجحان میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے؟
ج: الحمدللہ جماعت اسلامی کے دروس قرآن اور اشاعتی لٹریچر کی بنا پر تھوڑے بہت لوگوں میں اسلام کے مطابق طرزِ زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مثلاً حجاب، شادی بیاہ میں سادگی، معاشی طور پر بنا سودی کاروبار کی طرف کچھ رجحان شروع ہوا ہے۔
س: پاکستان میں مسلم خواتین کی صورتحال کیسی محسوس ہوئی؟
ج: سیاسی اعتبار سے عام خواتین میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے سیاست کا گہرا شعور نہیں ہے۔ صرف تحریک اسلامی سے جڑی ہوئی خواتین ہی سیاست میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے لیے جدوجہد بھی کررہی ہیں۔ سیاست پر ان کی نظر بھی گہری ہے۔ دینی لحاظ سے فرائض پر کاربند ہیں (عام خواتین) مگر شریعت کی مکمل پابند نہیں ہیں اس کے علاوہ مذہبی خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین صوم و صلوٰۃ، حجاب، اچھے معاملات، سادہ زندگی اور اسلامی اخلاقیات کی سخت پابند ہیں۔ ماڈرن (جدید) خیالات کی لڑکیاں اور خواتین مغربی تہذیب کی دلدادہ اور ہندوستانی سینما اور ٹی وی کی شوقین ہیں۔ معاشرتی و سماجی اعتبار سے غریبوں کی زندگی سیدھی سادی ہے مگر درمیانی طبقہ میں تعلیم یافتہ لڑکیاں اب نوکری پیشہ بنتی جارہی ہیں جس کا اثر کچھ حد تک ان کی ازدواجی اور گھریلو زندگی پر پڑ رہا ہے۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین میں فیشن پرستی عام ہوتی جارہی ہیں۔
س: پاکستان میں جن تحریکی بہنوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کا تذکرہ کیجیے۔
ج: (۱)شہر کراچی کی حلقۂ خواتین کی ناظمہ: بہن رابعہ عالم (۲)کراچی جنوبی زون کی ناظمہ صبیحہ صلاح الدین اور صبیحہ مسعود (۳) کلفٹن کینٹ کی کاؤنسلر بہن عمیرہ خالد (۴) روزنامہ جسارت میں خواتین میگزین کی ذمہ دار، غزالہ عزیز۔ شہر لاہور میں سامعیہ راحیل قاضی جو قاضی حسین احمد صاحب کی بیٹی ہیں سے ملاقات ہوئی۔ سامعیہ راحیل قومی اسمبلی کی رکن، جماعت اسلامی پاکستان کی خواتین کمیشن کی صدر اور جماعت اسلامی کے سیاسی سیل کی نائب صدر ہیں۔ یہ ایک فعال اور باصلاحیت خاتون ہیں۔ ان کے علاوہ لاہور ہی میں ساجدہ انجم زبیری شعبہ خارجی امور کی ذمہ دار، عافیہ سرور خواتین کمیشن کی رکن اور لکچرر ثروت جمیلہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ تمام بہنیں الحمداللہ رکن جماعت پاکستان ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ متفق بہنوں سے بھی ملاقاتیں رہیں جن میں محترمہ فرحت اکرام صاحبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے کئی تفاسیر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور کچھ عرصہ تک قرآن فہمی کی کلاسیس بھی چلائی تھیں۔
س: پاکستان تحریک اسلامی میں خواتین کا رول کیسا لگا؟
ج: تقسیم ملک بعد ہندوستان کے بالمقابل پاکستان میں حلقۂ خواتین کی ابتدا کافی پہلے ہوچکی تھی۔ ملک کے سیاسی حالات جیسے جیسے بدلتے گئے حلقۂ خواتین نے ڈٹ کر کام کیا۔ الحمداللہ پورے ملک میں حلقۂ خواتین کا نیٹ ورک قائم ہے اور آج کچھ ارکان بہنیں قومی اسمبلی اور ریاستی اسمبلیوں کی ممبر بھی ہیں۔
پاکستان میں ارکان و کارکنان بہنیں حکومت میں شریعتی قانون نافذ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں اور اس کے لیے اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ خواتین میں اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ انھوں نے اپنے طور پر ایک میڈیا سیل، اور پولیٹکل سیل اور خدمت خلق (ملک بھر میں) جیسے شعبے بنائے ہیں جو کافی فعال ہیں۔ پاکستان جماعت اسلامی کا شعبۂ خواتین ایک مستقل خود کفیل اور فعال ادارہ ہے جس کی سرگرمیاں ہمہ جہتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر قرآن کی دعوت لے کر سرگرم عمل ہے۔ اس دعوت کو پھیلانے کے لیے شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں اس کی ارکان و کارکنان موجود ہیں۔ وہ اپنے حلقہ جات میں درس قرآن کی محفلیں سجاتی ہیں۔ قرآن کلاسیز اور مطالعہ کلاسیز کے ذریعہ قرآن سیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
ہر فرقے سے تعلق رکھنے والی بہنوں کو ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّ لَا تَفَرَّقُوْا‘‘ کے فرمان الٰہی کے مطابق وہ ایک تنظیم میں سمیٹ لینے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ خواتین اسلامی انقلاب کی سمت بڑھ سکیں۔
حلقہ خواتین نے ملک گیر سطح پر شعبہ الخدمات قائم کیا ہے جو محروم خواتین کے لیے بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی کی فراہمی میں مصروف ہے۔ اس کا ایک ادارہ گوشہ عافیت ہے جو لاچار خواتین کی باعزت پناہ گاہ ہے اور یہاں غریب بے سہارا لوگوں کی تعلیم اور فنی تربیت کے ذریعہ انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنایا جاتا ہے۔
الخدمت ٹرسٹ دیگر اداروں کی طرح صرف مادی ضروریات ہی پوری نہیں کرتا بلکہ ان کی روحانی اور فکری تربیت کا بھی انتظام کرتا ہے۔وومن ایڈ ٹرسٹ نام کا ادارہ جیلوں میں دعوتی، تعلیمی اور تربیتی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ملک میں پائی جانے والی جہالت اور ناخواندگی کو ختم کرنے کے لیے تعلیم بالغات کے سینٹرس بڑی تعداد میں کام کررہے ہیں۔ نیز دیگر تعلیمی ادارے، درسگاہیں اور خواتین کے تربیتی سینٹرس اور پیشہ وارانہ تربیت کے مراکز قائم ہیں۔ جیلوں میں بچوں اور خواتین کی تعلیم کا انتظام حلقہ خواتین کررہا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں صحت سے متعلق بیداری، معلومات کی فراہمی، طبی کیمپ اور رہنمائی کا کام بھی حلقہ خواتین اپنے طور پر انجام دیتا ہے۔ معاشی امور میں خواتین کی رہنمائی کے لیے آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کی طرف رہنمائی اور اسکل ڈیولپمنٹ ٹریننگ جیسے کام انجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں ان کا کردار بہت فعال ہے، لکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد ہے اور اس کے لیے وہ تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ کئی میگزنس ایسے ہیں جو خواتین خود نکال رہی ہیں اور وہ کافی مقبول ہیں۔
س: ہندوستان میں حلقۂ خواتین کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہوئے کن امور پر پاکستان کی حلقۂ خواتین سے مستفید ہوسکتے ہیں؟
ج: الحمد اللہ جماعت اسلامی ہند، تقسیم ملک کے بعد سے ہی مختلف دشواریوں کے باوجود سرگرم ہے مگر خواتین میں تحریک اسلامی کی ابتداکچھ ہی سالوں سے ہوئی ہے۔ الحمداللہ کچھ صوبوں میں فی الحال حلقۂ خواتین کا نیٹ ورک قائم ہے۔ حال ہی میں مرکزی کمیٹی برائے خواتین جماعت اسلامی ہند قائم ہوئی ہے جس کے تحت ۱۰ ریاستوں کی طرف سے نمائندگی کی گئی۔ انشاء اللہ جس صوبے میں حلقۂ خواتین منظم ہیں ان کی مدد سے دیگر ریاستوں میں حلقۂ خواتین کو منظم کرایا جائے گا۔ اپنے ملک میں جہاں حلقۂ خواتین (جماعت اسلامی) قائم ہیں وہ درج ذیل سرگرمیوں سے اپنا کام بڑھا سکتے ہیں:
(۱) شعبہ خدمت خلق قائم کرکے محروم افراد کی امداد کرنا۔ (۲) تعلیمی سرگرمیوں کے تحت تعلیم بالغات کے مراکز قائم کرنا۔ جماعت اسلامی کے نصاب کے تحت ہم ایک سالہ دینی کورس کے ذریعہ ہندوستان کی مسلم خواتین کا دینی، اخلاقی و تحریکی مزاج بناکر اقامت دین کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔ (۳) صحت عامہ کے تعلق سے میڈیکل کیمپ لگانا، لیڈی ڈاکٹرس کا منظم نیٹ ورک بنا سکتی ہیں۔ (۴) میڈیا سیل قائم کرکے (حلقہ خواتین) بھر پور اشاعت کرسکتی ہیں۔ (۵) ملکی سطح پر ایک این جی او قائم کرکے خواتین (مسلم و غیر مسلم)پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ ساتھ میں ورکنگ لیڈیز کے مسائل کو بھی حل کرنے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔
ہم ہندوستانی تحریکی بہنوں کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہمارے پیش نظرصحابیات کی زندگی کا رول ماڈل ہو اور ہم موجودہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کے حالات سے بہتر طور پر واقف ہوں اور دینی وعصری تعلیم کی طرف پیش قدمی کرکے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے یکسو ہوجائیں۔
س: نئی نسل اور پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام؟
ج: ابتداء سے ہی حکومت کی تعلیمی پالیسی اور طریقہ کار میں پختگی نہ ہونے کی بنا پر وہاں مرکزی تعلیمی نظام قائم نہ ہوپایا۔ جس کی وجہ سے چار صوبائی علاقوں میں (سندھ) پنجاب، بلوچستان اور نیشنل فیڈرل میں تال میل نہیں ہوسکا ساتھ ہی فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ جانے کی وجہ سے تعلیمی نصاب پر بھی اس کا اثر ہوا۔ حال میں تعلیمی نصاب میں امریکہ کی مداخلت نہایت افسوس ناک بات ہے۔ امریکی طرز کے پرائیوٹ اسکولوں کی بھرمار ہونے کی وجہ سے نئی نسل مغربیت کی طرف راغب ہورہی ہے وہ ماڈرن مسلم بنتے جارہے ہیں اور اسلام میں بھی ’’جدیدیت‘‘ لانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
ّّس: نئے پاکستانی معاشرہ کے سامنے کیا اہم چیلنجز ہیں؟
ج: (۱) پاکستان کا موجودہ معاشرہ حل طلب مسائل اور الجھنوں کا شکار ہے اس کا حل یہ ہے کہ عوام میں دینی اور عصری تعلیم اجاگر ہو تاکہ پوری آبادی احکامِ الٰہی پر کاربند ہو۔ طاغوتی (بیرونی ممالک) دباؤ سے نکل کر یہ امت مسلمہ پھر سے شرف و منزلت پاسکے اور ان کی زوال پذیری کا باب ختم ہوکر رفعتوں کی داستان کی ابتدا ہوسکے۔ (۲)اس تغیر کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی عوام یہ سمجھیں کہ دنیا کی زمام کار کو فسق و فجور کے ہاتھوں سے نکال کر صالحین تک منتقل کردیا جائے اور اہل افراد کا ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ ہو بلکہ ان اوصاف سے بھی آراستہ ہو جو کارگاہ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ (۳) پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس عقیدے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایشیائی ممالک میں ایک آئیڈیل اسلامک ملک بن سکتا ہے اور پڑوسی ملکوں کو بھی وہ بہترین دوست بناکر ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
٭ ناظمہ خواتین جماعت اسلامی مہاراشٹر