وہی قادرِ مطلق ہے

جمع و ترتیب:شاہدہ یعقوب

یہ ۱۹۹۳ء کی بات ہے جب میں منٹ کالونی میں قیام پذیر تھی، ہماری کالونی میں سب ہی لوگ نہایت شریف اور ملنسار تھے، ہمارے گھر سے قریب رانی نامی بچی رہتی تھی۔ اس کے والدین کی شرافت، رواداری اور حسنِ خلق کے سب ہی مداح تھے اور یہی سب خوبیاں رانی میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں، وہ مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح پیاری لگتی، وہ ہمارے سامنے گڑیوں سے کھیلتی بڑی ہوئی اور پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے اس کی شادی ہوگئی اور وہ ایک معزز گھرانے کی بہو بن گئی۔ اپنے سسرال میں وہ خوش وخرم تھی، شوہر دل کا بہت اچھا انسان تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے یکے بعد دیگرے دو بچوں سے نوازا تھا، بڑا بیٹا تھا، دوسری دو سال چھوٹی بیٹی۔ دونوں بچے انتہائی خوبصورت سرخ وسفید اور صحت مند تھے۔
لیکن … پھر خدا جانے رانی کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی۔ اس کا بڑا بیٹا جو آٹھ برس کا ہوگیا تھا، دو دن بیمار رہ کر اچانک چل بسا۔ اتنا تیز بخار ہوا کہ اترا ہی نہیں۔ اتنا بڑا صدمہ… ایسا حادثہ… جس نے سنا اس کا سینہ شق ہوگیا۔ اتنا سرخ و سفید صحت مند بیٹا… یوں ہنستے کھیلتے ہاتھوں سے نکل گیا، غم سے ہمارے دل اتنے بوجھل تھے کہ کتنے روز کالونی میں اداسی کی فضا چھائی رہی۔ جب ہمارا یہ حال تھا تو اس کی ماں کی کیفیت کا اندازہ لگائیں۔ جس کی آنکھوں کانور اور دل کا سرور اس کے سامنے منوں مٹی کے نیچے جاسویا تھا۔
میں نے ہی اس کے پھول سے بچے کی ننھی سی لاش کو غسل دیا… لیکن… ابھی پہلا زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ رانی کی بیٹی جو پانچ برس کی ہوگی، اپنے بھائی کی طرح چند روز شدید بیمار رہ کر بخار کی شدت میں دو دن بے ہوش رہنے کے بعد چل بسی… میں جب آپ کو یہ حالات بتارہی ہوں تو میں آپ کو اپنے اس دکھ کی کیفیت سے شاید آگاہ نہیں کرسکتی، جو غم ایک پہاڑ کی طرح ہم پر گرپڑا تھا… پچھاڑیں کھاتی ماں… جسے صبر کی تلقین کرتے کرتے ہمارے آنسو چیخوں میں بار بار ڈھل جاتے تھے، ہمارے دن رات جیسے دکھ میں بدل گئے تھے، نہ حلق سے نوالہ اترتا نہ کوئی خوشی خوشی لگتی… رانی جو ہماری آنکھوں کے سامنے پلی بڑھی تھی اور جو مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی، اس کا دکھ، اس کا غم ایسا تھا کہ ہم سوائے رونے کے کچھ نہیں کرسکتے تھے، رانی اجڑ کر رہ گئی تھی… اس کی آنکھوں میں خوف اور دکھ کی ایسی کیفیت جم گئی تھی کہ اس پر نظر پڑتے ہی ہمارے دل غم سے پھٹنے لگتے تھے، ذرا سوچیے رانی خود کس اندوہناک عذاب سے گزر رہی تھی، وہ گھر جہاں بچے چہکتے پھرتے تھے، وہ گھر سنسان ہوگیا تھا، بچوں کی تصویریں، کپڑے، کتابیں، جوتے، موزے کمرے میں بکھرے پڑے تھے، جن کو دیکھ دیکھ کر وہ شدتِ غم سے روتی، بلکتی… انہیں ان کے پیارے ناموں سے پکارتی …اور پھر شدتِ گریہ سے نڈھال ہوجاتی۔ انہی دنوں چھوٹی دیورانی کے گھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خوشی دکھائی اور وہ گھر جہاں سناٹوں کا راج ہوچکا تھا، بچے کی چہکار گونجنے لگی، ممتا کی ماری رانی نے اپنی دیورانی کے بچے کو پہلے روز سے اپنی محبت کی آغوش میں سمیٹ لیا، وہ بچہ ماں کے پاس دودھ پینے جاتا۔ باقی اس کے سارے کام نہلانا، دھلانا، کپڑے سینا، رات کو گود میں اٹھا کر ٹہلانا … سب رانی نے سمیٹ لیے، اس کی ممتا کو تسکین مل گئی… رانی کا چہرہ جو مسکرانا بھول چکا تھا اب بچے کی کسی شرارت پہ دھیمے سے مسکرا اٹھتا، اس نے اس بچے میں شاید اپنے بچے کا متبادل تلاش کرلیا تھا، وہ گھر داری اور بچے کی چھوٹی چھوٹی مصروفیتوں میں گم رہتی جیسے وہ سارے پچھلے زخموں کو بھول جانا چاہتی ہو۔
لیکن غم کی پرچھائیاںابھی اس کے تعاقب میں تھیں، وہ ہنستا کھیلتا بچہ جو ابھی تقریباً آٹھ نو ماہ کا ہی ہوا تھا، اچانک بیمار ہوا، اور اس کی بھی وہی کیفیت ہوئی کہ اچانک تیز بخار ہونا شروع ہوا اور ڈاکٹروں کے پاس جانے سے پہلے ہی وہ بے ہوش ہوگیا، اس کی آنکھیں اوپر چڑھ گئیں اور وہ اکھڑے اکھڑے سانس لینے لگا اور وہ ننھا سا فرشتہ دیکھتے دیکھتے موت کے شکنجے میں آچکا تھا، گھر والے چیخیں مار مار کر رونے لگے تھے۔ آہ و بکا کرنے لگے تھے… ماں ٹکریں مار مار کر سر لہو لہان کرچکی تھی… مجھے کسی نے اچانک اطلاع دی کہ غوری صاحب کاتیسرا پوتا بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہے، جس کیفیت سے پہلے پوتے اور پوتی کی وفات ہوچکی ہے۔ میں اسی وقت ان کے گھر پہنچی۔ اس وقت ماں کے بین آسمان کا عرش ہلا رہے تھے۔ گھر میں قریبی عزیز خواتین چار پائی کے گرد بیٹھی سینہ کوبی میں مصروف تھیں۔ ساتھ ساتھ ان کی زبانیں لگاتار رانی کو کوس رہی تھیں کہ یہ سب کچھ اسی کی نحوست کی وجہ سے ہوا، وہ بیماری جو اس کے بچوں کو لے گئی وہی اب اس بچے کو لے جائے گی… وہ عورتیں لگا تار اس بیماری اور اس کے اپنے بچوں کی وفات کا ذمہ دار رانی کو ٹھہرا رہی تھیں (نعوذ باللہ) اور جو منہ میں آرہا تھا، کہے جارہی تھیں۔
میں نے رانی کو دیکھا … جو زرد پتے کی طرح کانپ رہی تھی… اس کی آنکھیں دہشت اور وحشت سے اس ننھے فرشتے پر جمی تھیں، جو سفید بستر پر بے سدھ پڑا تھا، رانی خود ایسے بیٹھی تھی جیسے ایک زندہ لاش ہو… عورتوں کی زبانیں طعنہ زن تھیں، وہ اونچی اونچی آواز میں روتے ہوئے رانی کو کوس رہی تھیں، بددعائیں دے رہی تھیں، آج انہیں کسی گرفت کسی خوف کے اندیشے کا کھٹکا نہیں تھا، ’’کلموہی ، چڑیل، ڈائن، منحوس، سبز قدم‘‘ وہ بار بار ان الفاظ کی برچھیوں سے رانی کا کلیجہ چھلنی کیے دے رہی تھیں، رانی کا چہرہ پیلا پڑچکا تھااور وہ غم کی شدت اور اپنی بے بسی کے احساس سے اتنی مضطرب ، اتنی دکھی اور اتنی پریشان تھی کہ یہاں شاید اس کے غم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں۔
آج وہ عورتیں اس بات سے بھی بے نیاز تھیں کہ رانی کے غمزدہ دل پر ان الفاظ کے انگارے کیسے زخم لگا رہے ہیں۔ میں نے اچانک ماحول کی شدید کیفیت اور غم کے بوجھل اور کسی متوقع غم کی شدت سے اپنے اندر ایک دکھ کی ایسی کیفیت محسوس کی جو میں بیان نہیں کرسکتی، میں نے اچانک بڑھ کر بچہ بستر سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا۔ ایک ہاتھ بے ہوش بچے کے سر کے نیچے اور دوسرا آسمان کی طرف اٹھایا، مجھے علم نہیں ، میں نے کون کون سی سورتیں پڑھیں… میں نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کی… میں نے اس پالن ہار، اس پیدا کرنے والے حی و قیوم سے بچے کی زندگی کی بھیک کس طرح مانگی، بس مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے کہ میں نے دل کے پورے جذبے اور شدتِ خلوص سے اللہ رب العالمین کو پکارا تھا، اسے اس کی رحمت کے واسطے دیے تھے، مجھے اچانک یاد آتا ہے کہ میں کہہ رہی تھی … اے اللہ! تو رحمن ہے… تو رحیم ہے، تیری رحمانیت میں کسی کو کوئی شک نہیں… تو پہلے بھی اسی گھر کے دو پھولوں کو واپس لے چکا ہے، تیرے فیصلوں کے سامنے سب نے سرجھکا دیا تھا، یہ اولاد تیری امانت ہے۔ تو جو چاہے تو اس بچے کو بھی واپس لے سکتا ہے، تیرے سامنے کسی کی مجال نہیں، لیکن اے رحمن، اے بے حدفضل کرنے والے، اے فریادوں کو سننے والے! آج ہم تجھ سے اس بچے کی زندگی کی بھیک مانگتے ہیں، ایک ماں کی گود اب نہ اجاڑنا، تو خود بھی ستر ماؤں سے زیادہ شفیق ہے۔ تجھے تیری ممتا کا واسطہ۔ اے پکار پر لپک کر آنے والے ہم سب گناہ گار ہیں، خطا کار ہیں، سزاوار ہیں، لیکن تو بہت درگزر کرنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے۔ اس بچے کو زندگی عطا فرمادے، ورنہ یہ دکھیا ماں کے ساتھ ساتھ ایک اور بے گناہ ماں کو بھی اجاڑ دیں گے، اسے جیتے جی ماردیں گے۔
مجھے نہیں معلوم… میںکیسے اور کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو پکارتی رہی، بچہ میری گود میں تھا اور میرے آنسو مسلسل اس کے چہرے کو بھگورہے تھے… تبھی اچانک بے ہوش، بے سدھ بچے نے آنکھیں کھول دیں اور سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا، خوشی سے ماںنے چیخ کر اسے سینے سے لگالیا… دادی…نانی … خالائیںاور رشتے کی باقی خواتین خوشی سے نہال ہو ہوکر باری باری بچے کو چومنے لگیں جو میری گود میں سر اٹھائے آرام سے بیٹھا تھا اور بالکل ٹھیک ہوچکا تھا۔
اور … وہ بچہ ماشاء اللہ اب بالکل صحت مند اور چاق و چوبند ہے، کچھ عورتوں نے اس واقعے کے بعد سمجھا کہ شاید میں کوئی پیرنی ہوں یا کوئی بزرگ خاتون ہوں کہ اللہ عزوجل میری دعائیں قبول کرتا ہے، چند روز بعد کچھ عورتیں میرے گھر آئیں تو میں نے انہیں سمجھایا کہ میں کوئی پھونک وونک مار کا کام کرنے والی عورت نہیں۔ میں تو ایک عام سیدھی سادھی نہایت ہی عاجز اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس روز میری شدتِ جذبہ سے مانگی ہوئی دعا کو قبول فرماکر میری عزت رکھ لی ہے تو یہ میرا کوئی کمال نہیں… یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔
بعد میں مجھ سے دعا کرنے کے لیے جس نے کہا … میں نے اسے یہی مشورہ دیا کہ آؤ قرآن پڑھو… سمجھ کر پڑھو… اللہ تعالیٰ تو تمہاری دعائیں بھی سنے گا… اور ضرور سنے گا، اور یہ اس کا وعدہ ہے، پھر رانی نے ایسا ہی کیا، اس نے قرآن سے ناطہ جوڑ لیا اور اللہ کی رحمت کے طفیل، اس ذات گرامی کے صدقے جاؤں کہ اس نے رانی کو اور اولاد عطا فرمائی اور چھوٹی بہو کے ہاں بھی اور اولاد ہوئیں، اب وہ گھر رونق سے جگمگاتا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین! اور مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دربار سے خالی ہاتھ کسی کو نہیں لوٹاتا، ہاں! دعا کے قبول ہونے میں دیر ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم سب کی آس پوری کرنے والی تو صرف وہی ہستی ہے۔
اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ نہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے صرف اسی کا ہے کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے، جو کچھ بندوں کے سامنے ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی واقف ہے، اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت اورادراک میں نہیں آسکتی۔ الا یہ کہ وہ کسی چیز کا علم خود ہی ان کو دینا چاہیے۔ ان کی نگہبانی اس کے لیے کچھ تھکا دینے والا کام نہیں ہے، بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146