وہ مجھے راہ دکھا گیا

مسعود سعدی

میں پچھلے بیس برس سے ریاض میں محکمہ ٹریفک پولیس سے وابستہ ہوں۔ آج کل بطور انسپکٹر کام کررہا ہوں۔ ملازمت کے سلسلے میں اکثر میرا ٹریفک حادثات سے سابقہ رہتا ہے۔ ان میں سے دو واقعات میری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جو مجھے اللہ تعالیٰ اور اپنے دین کے قریب لے گئے۔
عام طور پر زخمی حالت دیکھ کر تو میں جان جاتا ہوں کہ اس کے بچنے کا امکان کس حد تک ہے۔ ایک دن میں اپنے ساتھی کے ساتھ حسبِ معمول گشت پر تھا کہ ہمارا ایک خوفناک حادثے سے پالا پڑگیا۔
ایک کارمخالف سمت سے آنے والی کاروں میں جا گھسی اور دوسری کار سے جا ٹکرائی۔ پہلی کار میں دو نوجوان سوار تھے جو بری طرح زخمی ہوگئے۔ دوسری کار میں سوار شخص ہمارے پہنچنے تک دم توڑ چکا تھا۔ ہم نے دونوں نوجوانوں کو انتہائی احتیاط سے نکالا اور کار کے قریب زمین پر لٹا دیا۔ پھر ہم ان کے قریب بیٹھ گئے۔
ہمیں جلد محسوس ہوگیا کہ دونوں کا بچنا ناممکن ہے۔ کیونکہ وہ شدید زخمی تھے۔ یہ دیکھ کر میرا ساتھی انھیں لا الٰہ الا اللہ پڑھنے میں مدد دینے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ خود کلمہ پڑھتا اور پھر کہتا پڑھو ’’لاالہ الا اللہ‘‘ دراصل وہ چاہتا تھا کہ ان کے منہ سے ادا ہونے والے یہ آخری الفاظ بن جائیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کسی کے منہ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ادا ہوا وہ جنت میں جائے گا۔ مگر بیٹھے بیٹھے ہم نے ایک عجیب و غریب اور تکلیف دہ صورت حال دیکھی۔ وہ یہ کہ جب بھی نوجوانوں کو کہا جاتا کہ لا الہ الا اللہ پڑھو، تو وہ گانے کے بول دہرانے لگتے جو شاید وہ اپنی کار میں سن رہے تھے۔ ان کے لبوں سے ایک بار بھی کلمہ لا الہ الا اللہ ادا نہ ہوسکا۔ کچھ دیر بعد انھوںنے دم توڑ دیا۔
شاید آپ نے پہلے بھی ایسا واقعہ سنا ہو کیونکہ یہ مثال پہلی ہے نہ آخری۔ وقت نزع جب انسان کی زبان بند ہوجائے تو اس کا دل بولنے لگتا ہے۔ مجھے یقین واثق ہے کہ مرنے والے نوجوانوں نے لا الہ الا اللہ کے تقاضوں کے مطابق زندگی نہیں گزاری، اسی لیے کلمہ طبیہ بھی ان کی موت کی شہادت نہ دے سکا۔
جب ان کے دلوں نے بولنا چاہا تو ہونٹوںسے وہی گانے نکلے جنھیں وہ پسند کرتے تھے اور سنتے رہے تھے۔ اس واقعے سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے میں مدد ملی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں یہ واقعہ بھول گیا۔ حتیٰ کہ چھ ماہ بعد ایک اور حادثہ پیش آیا جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔
وہ نوجوان ریاض کے مضافات میں کار چلا رہا تھا۔ ایک سرنگ میں سے گزرتے ہوئے اچانک کار کا ٹائر پھٹ گیا اور اسے مجبوراً رکنا پڑا۔ وہ کار سے نکلا تاکہ ڈکی میں سے اضافی ٹائر نکال کر پہیہ تبدیل کرسکے۔ اسی دوران عقب سے ایک تیز رفتار کار سنسناتی ہوئی آئی اور اس کی کار سے ٹکرا گئی۔
وہ نوجوان دو کاروں کے درمیان آکر کچلا گیا۔ میں اپنے ساتھی کے ساتھ جلد جائے حادثہ پر پہنچ گیا اور ہم نے دونوں جانب سے سرنگ کی ناکہ بندی کردی۔ بعد ازاں ہم نے نوجوان کو اٹھایا۔ اٹھاتے ہوئے ہم نے اسے کچھ کہتے سنا۔ ہم اس کوشش میں مصروف تھے کہ اسے جلد از جلد ہسپتال پہنچایا جائےلہٰذا اس کی گنگناہٹ پر توجہ نہیں دے سکے۔
تاہم جب ہم نے اسے اپنی کار میں ڈالا، تو جان گئے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ زخمی لڑکا انتہائی خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ میں نے ایسی خوبصورت اور سریلی آواز میں پہلے کبھی تلاوت نہیں سنی تھی۔ نوجوان کی خوفناک حالت بتارہی تھی کہ اس کے آخری سانس ہیں اور چند لمحوں بعد وہ مالک حقیقی سے ملنے والا ہے۔
نوجوان وہ زندگی اپنے رب کو لوٹا رہا تھا جو اس نے اس کے سپرد کی تھی۔ قرآن پاک جو اس نے حفظ کررکھا تھا، اب آخری لمحات میں اس کا ساتھی تھا۔ لہٰذا وہ ذوق و شوق سے آیات تلاوت کرنے لگا۔ میں نے چاہا کہ اسے کلمہ لاالٰہ الا اللہ اور کلمہ شہادت پڑھنے میں مدد دوں جیسے دوسرے قریب المرگ افراد کو دیتا تھا لیکن اس نوجوان کی تلاوت جاری رہی تو ٹھہر گیا۔
تھوڑی دیر بعد ماحول پر خاموشی چھاگئی۔ میں لڑکے کو دیکھنے کے لیے مڑا، تو دیکھا کہ اس نے اپنا ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا ہوا ہے۔ وہ پھر بلند آواز سے کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ، پڑھنے لگا۔ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ رب اس کے دل میں بسا ہوا تھا اور اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق نوجوان نے اپنی زندگی گزاری تھی۔ وہ اللہ جل شانہٗ کے احکامات پر عمل اور سنت رسول اکرم کی پیروی کرتا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد نوجوان نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ نیچے کرلیا۔ آواز بند ہوگئی اور چند لمحوں بعد اس کی گردن ڈھلک گئی۔ میں یہ دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا، تاہم اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔
میرا ساتھی گاڑی چلا رہا تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ نوجوان فوت ہوگیا ہے، تو وہ بآواز بلند سسکیاں بھرنے لگا۔ جب اسے روتے دیکھا، تو پھر مجھ سے بھی ضبط نہ ہوسکا اور میں کھل کر رونے لگا۔کار کی فضا سوگوار ہوگئی۔
ہم نے نوجوان کو ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کردی۔ جب ہسپتال کے عملے نے ہماری آنکھوں میں آنسو دیکھے، تو وجہ پوچھی۔ ہم نے انھیں حادثے کی روداد سنادی۔
بعد ازاں میں نے لڑکے کے گھر فون کیا۔ نمبر ہمیں اس کے بٹوے سے ملا تھا۔اس کے بھائی نے فون اٹھایا۔ ہم نے اسے حادثے کی اطلاع دی۔ تو چند لمحے خاموشی رہی اور پھر وہ رونے لگا۔ چند منٹ بعد سنبھلا تو ہمیں بتانے لگا۔
اس نے بتایا کہ وہ مضافات ریاض میں واقع ایک قصبے کی طرف جارہا تھا جہاں کبھی اس کے آباء و اجداد رہتے تھے۔ وہ ہر ہفتے ان کی قبروں پر جاتا تھا اور قصبےمیں رہنے والے یتیم اور بے شہارا بچوں سے بھی ضرور ملتا۔ وہ گلیوں میں کھیلتے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا۔ پورا قصبہ اسے جانتا تھا کیونکہ وہ بچوں اور طلبہ و طالبات کے لیے اسلامی کتب اور کیسٹیں لے جاتا تھا۔
قصبے میں کئی نادار افراد رہتے تھے۔ ان کے لیے وہ کار میں چاول اور دالیں لاد کر لے جاتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ امراء کی دولت میں سے غریبوں کو بھی حصہ ملنا چاہیے۔ اس کے کچھ دوست اسے کہتے کہ تم غریبوں کے لیے اتنا لمبا سفر کیوں کرتے ہو، انہیں دفع کرو۔ اس پر وہ کہتا، میرے لیے یہ سفر ایک نعمت ہے کیونکہ راستے بھر میں کیسٹوں میں بھرا ہوا قرآن پاک اور نعتیں سنتا رہتا ہوں۔ یوں دورانِ سفر بھی میرے قلب و ذہن سے رب تعالیٰ کے احکام مٹ نہیں پاتے۔
قارئین! آپ بھی ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر غور کیجیے اور خود سے سوال کیجیے : ’’کیا میں لا الٰہ الا اللہ کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار رہا ہوں؟ اگر نہیں تو پھر آپ کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ آپ کی موت یہ کلمہ پاک پڑھتے ہوئے مبارک انداز میں ہوگی؟‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146