ہمارے درمیان کم باتوں میں اختلاف ہے ۔ زیادہ تر باتیں متفق علیہ ہیں۔ مثلا ایک دن میں پانچ نمازیں ، نمازوں کے اوقات ،رکعت کی تعداد، ایک رکعت میں ایک رکوع ،دوسجدے، ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کا فرض ہونا متفق علیہ ہے۔
رمضان کے روزے، سحری، افطار،حج ،زکوٰۃ، پاکیزہ چیزوں کا حلال ہونا ، نکاح، طلاق وغیرہ وغیرہ ۔پھر حرام اور ناجائز بھی واضح اور متفق علیہ ہیں۔
نظر اٹھا کر دیکھو تم میں سے کون ذی ہوش کلمہ گو کہتا ہے کہ خدا دو ہیں،محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر نہیں ہیں، قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے (نعوذ باللہ من ذلک) ،کوئی نہیں کوئی بھی نہیں ۔ ہر وہ شخص جو کلمہ پڑھتا ہے وہ اللہ، رسول اور قرآن کو مانتا ہے ۔
کیا کوئی ذی ہوش کلمہ گو شراب کو حلال کہتا ہے ،جو ا کھیلنے والے نام نہاد مسلمان بھی اس کو جائز سمجھ کر نہیں کھیلتے ،کیا ماں باپ کی بے عزتی کو مسلمان صحیح سمجھتے ہیں اور اس کے غلط ہونے میں اختلاف کرتے ہیں ۔نہیں کوئی بھی نہیں۔ پھر کیوں، آخر کیوں ؟ “من دیگری تو دیگرم “کیوں ہم اختلاف میں الجھ رہے ہیں۔
یہ شیطان لعین ہے جو ہم سب کو بہکا رہاہے۔ خود انا کا شکار، دھتکارہ ہوا ہمیں بھی انانیت پسند بنانا چاہتا ہے بلکہ بنا چکا ہے ۔تبھی تو ہم کہتے ہیں۔۔۔ بس ” میں “صحیح ،میرا مسلک، میرا مذہب، میرا گروپ، میری جماعت، میرا مشن میں میں میں … مسلمان ناہوئے شیطان ہوگئے ۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے خدا سچا اور صحیح, خدا کا رسول سچا اور صحیح،اسی کا راستہ سیدھا، سچا اور صحیح، اسی کا کلمہ درست، اسی کی ہدایت قابل عمل، اللہ تعالیٰ نے فرائض ،سنن اور نوافل کے ساتھ لاکھوں باتیں، چیزیں اور قول وعمل مباح کر رکھے ہیں۔
وہ چال اپنی چل رہاہے اور ہم آنکھیں بند کئے اس کے دامن میں پھنس رہے ہیں ۔
کیا آپ کو معلوم نہیں یعوق، یغُوث، وَد،ثواع وغیرہ کون تھے ؟ہاں بت تو تھے مگر کس کے بت تھے؟بزرگوں کے، ولی اللہ لوگوں کے، درویش قسم کے عابدوں ،زاہدوں کے ۔شیطان ہی نے پٹی پڑھائی تھی کہ دھیان لگانے کے لئے بزرگوںکے بت بنائو اور نیک لوگوں کی یادگار کے طور پر یہ مورتیاں اس نے ہی بنوائی تھی ۔ بدبخت نے کیسا پختہ تر کردیا تھا قوم نوحؑ کو شرک و بت پرستی میں۔ساڑھے نو سو سال اللہ کے برگزیدہ نبی اللہ کی طرف بلاتے رہے، دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ کرتے رہے، مگر شیطان کے چیلوں کے کان پر جوں تک نا رینگی۔ آخر ہوئے ناغرقِ آب۔ نجات کس نے پائی جس نے شیطان کی نہیں سنی، جس نے قوم برادری کی نہیں سنی، جنہوں نے سنی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک کی سنی ۔
ذرا اور آگے بڑھئے قوم لوط کو اُس لعین نے کسیے گناہ بے لذّت اور غیر فطری عمل کو لذّت دار اور مزے دار بنا کر دکھایا۔ آخر پتھروں کی بارش اور آسمانی چنگھاڑ سے سب کے سب کھیت رہے ۔ اور ابلیس نے خوش ہو کر بغلیں بجائیں ۔
یقین مانو، اس مردود نے قوموں کو نافرمانیوں اور بدکرداریوں پر اکسا یا۔ اُسی نے یوسف ؑ کے بھائیوں میں حسد کا بیج بویا، اُسی مردودرجیم نے یہودیوں (اسرائیلوں) اور اسمائیلوں (مسلمانوں )میں تعصب، تکبر ،بغض وعناد کا ،نفرت کا کانٹا پیوست کیا اور آج امت محمدیہ ؐ میں تفرقہ دہی ڈال رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس نے اس کا ہاتھ پکڑا اُس نے اِسکو جہنم کے دروازے تک لے جاکربلکہ اس میں دھکاّ دیکر ہی چھوڑا۔ خدانہ کرے ایسا ہو کہ قیامت کے روز یہ بدبخت کثیر مسلمانوں کو جہنم میں داخل کرادے اور پھر تالیاں بجائے اور کہے ۔”ولا تلومنی لومو اانفُسکم” ۔مجھے ملامت مت کر بلکہ خود کو ملامت کر۔ میں نے تو تمہیں صرف سمجھا دیا تھا، میر ا تم پرکوئی اختیار اور بس نا چلتا تھا۔ عمل تو تم نے خود کیا ۔ بھائی نے بھائی کی گردن خود کاٹی،سُنّیوں نے وہابیوں کو خود کافر کہا میں نے تو صرف مشورہ دیا تھا۔ اہل حدیث نے حنفیوں دیوبند یوں کو خود غلط کہا۔مجھے کیا الزام دیتے ہو، میرے وعدے تو جھوٹے تھے۔ میں نے سود میں نفع کا جھوٹا جال بچھادیا تھا، پھنسے تو تم خود تھے ۔ہاں بے حیائی کو آرٹ کہا میں نے ۔مگر بے حیا تو تم خود بن گئے تھے خدا اور اس کے رسول ؐ کی نا فرمانی کرکے۔ قرآن شریف میں ہے انسان سے شیطان کہتا ہے کفر کر جب بندہ کفر کرتا ہے تو کہتا ہے میں تیرے اس عمل سے بری الذمہ ہوں ۔
وحدتِ الٰہی، وحدتِ آدم، وحدتِ دین ہونے کے باوجود کیا بات ہم کو کفر، شرک اور نفاق میں مبتلا کرتی ہے؟ ہاں۔۔۔ خوب سمجھا۔۔ دنیا کی محبت ۔
تو یاد رکھو! دنیا کو بھی یہی مزین کر کے دکھاتا ہے ۔ اسکی چند مثالیں ۔۔۔عورت جب بے حجاب گھر سے تنہا نکلتی ہے تو شیطان اس کو غیر مردوں کی نگاہ میں خوب سجا سوار کے اور شہوت آگہیں بناکر دیکھاتا ہے۔
رشوت اور سود یا دوسرے کسی بھی ناجائز کمائی کے موقع پر مال کو تو انتہائی معتبر، خوش نما، اہم اور مفید بنا کر دکھاتا ہے۔ اس کے برعکس تمہاری مالی حالت انتہائی خستہ ،ضرور تیں بہت زیادہ ،پریشانیاں حد سے زیادہ اور ان گنت تکالیف، دکھ اور غم والم کے پہاڑ دکھادیتا ہے جورشوت کا پیسہ لیکر ہی دور ہوسکتی ہیں ۔
وہ ایسی ایسی چالیں چلتا ہے کہ توبہ بھلی مگر اس کے مکروفریب میں صرف وہ آتے ہیں جو مخلص نہیں ہوتے ،سچے نہیں ہوتے، قرآن نہیں پڑھتے ،اس پر عمل نہیں کرتے، اللہ کا نہیں مانتے، رسول ؐ کا نہیں سنتے کیونکہ صُم بُکْم عُمْی فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْن۔ وہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں۔ وہ نہیں پلٹیں گے ۔ (وہ ایمان نہیں لائیں گے، عمل صالح نہیں کریںگے)۔
یاد کرو وہ وقت جب شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا،’’ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ۔ اگر تو مجھے مہلت دیدے تو اس کی ذُریت کو بہکا کر رکھ دوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ،جا تجھے مہلت ہے۔ تو اس نے کہا، میں بنی آدم کو ضرور پھسلاؤنگا اور اس کی مال و اولاد میں ضرور حصّہ لگاؤنگا۔ اسے وعدوں میں جھلاؤنگا۔ تو اللہ پاک نے فرمایا:
اِنَّ عِبَادیْ لیس لَکَ عَلَیْھِمْْ سُلْطَان۔بلاشبہ میرے بندوں پر تیر اکوئی زور نہیں چلے گا۔
آئیے ہم سب ایک ہوجائیں، ایک دوسرے کو معاف کردیں ،شیطان کی سازش سمجھ کر الرٹ ہوجائیں ورنہ تیار رہیں بڑی ہولناکی اور ناقابل تلافی نقصان کے لئے ۔اللہُ مستعان ۔ lll