وہ کون تھا میرا

اقبال متین

ایک مسافر اپنا وطن چھوڑ کر چل پڑا۔
میں نے خود سے سوال کیا۔
’’یہ شخص اپنا وطن کیوں چھوڑ رہا ہے۔‘‘
میں یہی سوال اس مسافر سے بھی کرسکتا تھا۔
شاید وہ مجھ سے پوچھ بیٹھتا۔
’’میں اپنے وطن میں بھی کیا مسافر نہیں ہوں؟‘‘
اور کیا عجب وہ کچھ نہ پوچھتا… اور اگر پوچھ بیٹھتا… تو اس کے بعدکیا ہوتا؟ … میں اسے کیا جواب دیتا؟
میں نے ایسا کوئی سوال اس سے نہیں کیا۔
اس نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور مجھ سے جدا ہوگیا۔
جب وہ چلنے لگا تو دو آدمی اس کے ساتھ ہوگئے۔
میں نے سوچا کہ اس سے جھوٹ موٹ کہوں کہ نہ جاؤ۔
لیکن اتنے کھلے جھوٹ کی میری سفّاکی بھی متحمل نہ ہوسکی۔
میرا ضمیر مرچکا تھا اور میں اپنے ضمیر کی موت پر مطمئن تھا۔
جی چاہا اس سے اتنا تو پوچھ ہی لوں… مسافر عمر کی اس منزل میں تم آخر کس شے کی تلاش میں نکل پڑے ہو۔
لیکن میں اس مسافر کو جنم جنم سے جانتا ہوں۔
مجھے معلوم ہے وہ میرے اس سوال کا جواب بھی کیا دے گا۔
وہ مجھ سے کہتا۔ محبت کی تلاش میں… اور کیا عجب وہ کچھ بھی نہ کہتا۔
بس مسکرادیتا۔
مسکرانا اس مسافر کی زبان تھی … بے اعتنائی سے کوئی پیش آئے تو وہ مسکرادیتا تھا۔ اس کے اپنے ہی اس سے بیزاری کا مظاہرہ کرتے تو وہ مسکرادیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اپنے تھے کون؟ … سب ہی تھے… اور کوئی بھی نہ تھا۔ جب تک سب اس کے دست نگر تھے سب اس کے تھے اور اس نے سب کو سر آنکھوں پر بیٹھا رکھا تھا… جب مسافر کو سب کی ضرورت ہوئی تو سب نے ایک دوسرے کو بغور دیکھا۔ ان سے ایک دوسرے کے چہرے پہچانے نہیں جارہے تھے۔ آخر میں سب نے ایک دوسرے کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔ اس ڈ رسے کہ ایک دوسرے کے جرم سے آشنا نہ ہوجائیں۔ اور ایسے میں اس مسافر نے ایک زخمی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرلی۔
میں اس کا رازداں تھا۔ اس کی مسکراہٹ کی زبان جانتا تھا لیکن اس زبان میں بات کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ وہ سارے الفاظ جو ادا نہیں ہوتے، زبان بن جاتے ہیں… میں نے لفظوں کا سہارا لے کر انھیں جھٹلادیا ہے۔ میرے لیے یہ موقع کتنا سہل بھی تھا، کتنا جان لیوا بھی۔ سب کچھ سمجھ لو لیکن یوں ظاہر کرو جیسے کچھ نہیں سمجھ رہے ہو۔ کون تم سے پوچھے گا کہ آنکھوں کی نمی کیا ہوتی ہے۔
کون تم سے پوچھے گا کہ اتنی زخمی مسکراہٹ کو کس طرح تم نے نہیں پہچانا۔ مسکراہٹ جو آنسو بن جانے کو اپنی اہانت سمجھتی تھی اور میں نے اس مسکراہٹ کو بھیگا ہوا تبسم سمجھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔
یہاں تک کہ وہ مسافر مجھ سے جدا ہوگیا۔
اور جب وہ جاچکا تو میرے دل نے مجھ سے کہا: ’’اب یوں گھٹ گھٹ کر رونے سے فائدہ؟‘‘
لیکن میری عقل میرے دل کی ہنسی اڑا رہی تھی۔ اور میں کچھ ہی دیر میں اپنی عقل کے ساتھ ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہوکر بڑا مطمئن سا تھا۔ کسی جھوٹ سے عقل سمجھوتہ کرلے تو آدمی کامیاب یا ناکام جی تو سکتا ہے، لیکن جب کوئی حل کسی جھوٹ سے سمجھوتہ کرتا ہے تو زندگی کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ لیکن میں ان فلسفیانہ خرافات میں خود کو الجھانا نہیں چاہتا تھا۔ مسافر جاچکا تھا۔ میں خوف زدہ نہیں تھامطمئن تو تھا۔
اف وہ مسافر کیسا آدمی تھا۔ وہ تو دو ماہ بعد ہی لوٹ آیا۔ میں جب گھر سے چلاتھا تو وہ نہیں تھا۔ میں جب رات گئے گھر لوٹا تو وہ منتظر تھا۔ اپنی نظریں گیٹ پر جمائے۔ اپنی آنکھیں میرے راستے میں بچھائے، وہ اس طرح میرا انتظار کررہا تھا جیسے میں بھی اس کا منتظر رہا ہوں۔ وہی دو آدمی اس کے ساتھ تھے۔
جی چاہا، اس سے پوچھوں کتنی محبتیں بٹور لائے ہو۔
لیکن میں اپنے ہر سوال کا جواب جانتا تھا۔
وہ مجھ سے کہہ سکتا تھا۔ میں نے کچھ بھی نہیں بٹورا۔ لیکن محبتیں مجھ پر نچھاور کی گئیں۔ میں تو محبتیں اس زمین پر بٹورنا چاہتا ہوں۔ جس زمین کو میں اس طرح چھوڑ گیا تھا جیسے اس زمین سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے… اور دیکھو میں لوٹ آیا ہوں … اس کے باوجود کہ مجھے محبتیں ملیں۔ پھر بھی میں لوٹ آیا ہوں۔ اس لیے کہ میرا اس زمین سے کچھ رشتہ ہے۔ میں ڈرر ہا تھا۔ اور اگر وہ مجھ سے یہ کہہ دے تو… کہیں تمہارے لیے لوٹ آیا ہوں … میرا تم سے بھی کچھ رشتہ ہے۔ لیکن اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اس لیے کہ ایسی کوئی بات وہ زندگی بھر نہیں کرسکتا تھا، اور ایسی کوئی بات لفظ بن کر اس کی زبان تک آسکتی تو وہ اپنی مسکراہٹ کی چادر اوڑھ لیتا۔ اپنی مسکراہٹ کی زبان کا سہارا لیتا، جسے میں سمجھ سکتا تھا اور جسے میں نے سمجھ کر بھی اسے وداع کہا تھا، جب وہ جارہا تھا۔ میں اپنی سوچ میں گم صم اسے تکتا رہا۔ نہ میں نے بات کی نہ اس نے اور ہم دونوںدیر تک خاموش رہے۔
اور اس مسافر کے دونوں ساتھی زندہ روحوں کی طرح ہمیں تکتے رہے۔ اور میں ڈھونڈتا رہا کہ اس کی مسکراہٹ کی وہ زبان کہاں ہے جسے میں سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن اب اس کے پاس ایسی کوئی زبان بھی نہ تھی۔
میں بھاگ کر اپنے آپ میں کہیں چھپ گیا۔
اس نے کوشش بھی نہیں کی کہ مجھے اپنے آپے سے نکالے اور خود کو مقابل کرلے۔
ہم دونوں خاموش تھے، بس ایک دوسرے کو دیکھے جارہے تھے۔ یوں دیکھ رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوں۔ یوں دیکھ رہے تھے جیسے ہم ایک دوسرے کے کچھ ہوں بھی تو ایک دوسرے کو دیکھتے دیکھتے تھک گئے ہوں۔
یوں دیکھ رہے تھے جیسے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہم کچھ نہیں دیکھ رہے ہیں۔
اور اس وقت اس مسافر نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیردی… اور اس مسکراہٹ میں میں اس کی اور اپنی زندگی تلاش کرنے لگا۔ لیکن زندگی جانے کہاں چھپی بیٹھی تھی اور اس کے بعد میں نے فیصلہ لیا۔ کیوں نہ اس تشخص کو قتل کردوں جو مجھے نہ چین سے جینے دیتا ہے نہ چین سے مرنے دیتا ہے اور جو خود چین سے نہ جی سکتا ہے اور نہ ہی مرسکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مجھے چھوڑ کر کچھ بھی نہیں کرسکتا… نہ اس کو ڈھنگ سے مرنا آتا ہے اور نہ ڈھنگ سے زندہ رہنا۔
جب میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اسے قتل کردوں گا تو میں نے بڑی محبت سے اسے اپنے پاس ٹھہرالیا۔ راحتوں کے نام پر زمانے بھر کی بے قراری دی۔ ایک بار جب اس نے کہا کہ یہ پڑھو اور اپنی ہی تحریر آگے بڑھادی تو میں نے اس تحریر کو کبھی قریب کرکے دیکھا کبھی دور کرکے لیکن مجھ سے کچھ پڑھا نہ گیا… اس نے مجھ سے کہا عینک حاضر ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر میرے آگے اپنی عینک بڑی محبت سے پیش کی۔
لکھا تھا… ’’مجھے وہاں دفناؤ جہاں تم دفن ہونا چاہتے ہو۔‘‘
میں نے کبھی مسافر سے کہا تھا۔
وہ جگہ اس کی ہوگی، جو پہلے جائے گا۔
لیکن ایسی کوئی بات میں نے مسافر سے اس بار نہیں کی۔ اور اس لیے نہیں کی کہ شاید میں جانتا تھا کہ کون خوشی سے پہلے جائے گا کیونکہ مسافر کی عینک میری آنکھوں پر چڑھی ہوئی تھی اورمیں اس کے دل کو اس کی آنکھو ںسے پڑھ رہا تھا۔
میں نے بات کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے صرف اتنا کہا:
’’وقت فیصلہ خود کرلے گا۔‘‘
بس ایک مسکراہٹ ایک پوری شخصیت بن کر میرے مقابل کھڑی ہوگئی اور مسکراہٹ نے کہا: ’’تمھیں اپنا سب کچھ تج کرپالا پوسا تھا اور اب تمہارے انتظار میں ہوں کہ تم کیا کرتے ہو۔‘‘
اور یہ بات ان مسافروں نے بھی سن لی جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے ساتھ جو دو مسافر تھے۔ ان میں ایک میری ماں تھی اور ایک میری اپاہج بہن۔
اور جب اس کی مسکراہٹ کی زبان کو میرے سوا دوسروں نے بھی سمجھ لیا تو میں نے اس مجرم کو اپنے اندر کھوجنا شروع کیا جو مسافر کے قتل کے درپے تھا۔ لیکن وہ مجھے کہیں نہیں ملا اور وہ اس بار پھر کہیں چھپ گیا تھا۔
میں تو یہ چاہتا تھاکہ یہ زبان میرے سوا کوئی اور نہ سمجھ سکے۔
لیکن اب یہ زبان دھیرے دھیرے عام ہورہی تھی جو مجھے شاید گوارا نہ تھا۔
میں اپنی سوچ میں گم ہوگیا اور سوچ کی یہ عمر میری اپنی عمر سے کہیں طویل تھی۔ اور جب اپنی سوچ سے ابھر کر میں چونکا تو میں نے دیکھا … کتنے ہی قاتلوں میں سے میں بھی ایک ہوں۔
میں نے ہی اپنے بے پناہ چاہنے والے باپ کو قتل کیا ہے۔ اس اعترافِ جرم کے بعد بھی کونسی عدالت ہے جو مجھے سزا دے۔ اتنی سچی عدالت کوئی ہے بھی؟ اور اگر ہے بھی تو میں کہوں گا کہ ان حالات کو بھی شریکِ جرم ٹھہراؤ جنھوں نے میرے باپ کے قتل میں میری اعانت کی۔ ان حالات کے سر دو آدمیوں کا خون ہے… میرا بھی میرے باپ کا بھی۔…
میں اپنے باپ کو جنھیں میں بابا جان کہہ کر پکارتا تھا۔ اپنے بڑے بیٹے کے برابر دفنا آیا ہوں۔ لیکن ان سفاک حالات نے مجھے قتل کرکے دفنانے کی بھی تو زحمت نہیں کی اور مجھے ہر موڑ پر زندگی سے آنکھ چراکر نکل جانے کے لیے چھوڑ دیا۔
لیکن وہ مسافر بھی عجیب تھا۔ جاتے جاتے وہ مجھے تین پتھر سونپ گیا۔ چولہے کے وہ پتھر جو میرے آنگن میں پڑے ہیں۔ اس کی مسافرت کی آخری نشانی۔
سوچتا ہوں
ایک پتھر میری ماں کی قبر کے لیے ہے
ایک پتھر میری اپاہج بہن کی قبر کے لیے
اور ایک پتھر میری اپنی قبر کے لیے
لیکن نہیں معلوم کہ زمانہ ہمیں یہ پتھر بھی دے گا کہ نہیں…
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146