سارا ہال رنگ برنگ قمقموں سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ انوکھی سج دھج سے ہر مہمان آرہا تھا۔ رنگ برنگے آنچل، کھنکتے قہقہے، میک اپ سے سجے چہرے اور قیمتی زیوارت سے آراستہ ہر فرد خوب سے خوب تر کی جستجو میں سرگرداں تھا۔ آج شہر کے نہایت امیر و کبیر اور معزز شخص کی بیٹی کی شادی تھی۔ آجکل کے دور میں معزز و باعزت وہی جانا جاتا ہے جو دولت مند ہو۔ کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ یہ کسی یتیم کا چھینا ہوا مال ہے یا غریب لوگوں کی ناجائز قبضہ کرکے چھینی ہوئی جائیداد سے یا سمگلنگ سے کمایا ہوا پیسہ ہے یا رشوت، سفارش اور ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی اور سرکاری خزانوں سے لوٹی ہوئی دولت ہے۔ ان کو کسی غریب کی بددعا نہیں لگتی۔ ان کے حرام کے کمائے ہوئے پیسے سے انہیں نقصان نہیں پہنچتا۔ ان کی دولت ان کی جائیدار اور ان کی عزت میں زمانے کے اتار چڑھاؤ کے باوجود کوئی فرق نہیں آتا۔
شادی کی رونقیں عروج پر تھیں اور میں ہال کے ایک کونے میں بیٹھی مووی والوں سے چھپنے کی کوشش کررہی تھی اس حجاب نے بھی میری کتنی عزت رکھ لی ورنہ یہ قیمتی زیورات یہ مہنگے ترین جوڑے اور ساڑھیاں اور یہ مہنگے ترین بیوٹی پارلر سے سجے چہرے اور سنورے ہوئے بال میری حیثیت کا اور وجود کا مذاق اڑا رہے ہوتے۔ مسز فیصل نے مجھے اٹھانے کی کوشش بھی کی اور ان کی آواز سے خاندان کے دوسرے لوگ بھی میری طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ کچھ مہمان حیرت سے میرے برقعے اور نقاب میں چھپے ہوئے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
’’اوہو تو محترمہ یہاں چھپی بیٹھی ہیں نہ جانے کن سوچوں میں گم، بھئی آؤ تم بھی تھوڑی دیر ان رنگینیوں سے لطف اندوز ہولو۔‘‘ میری کزن نے کہا۔ ’’ارے اس یادگار دن پر اگر مووی میں تصویر آگئی تو کونسی قیامت آجائے گی اتنی بھی وقیانوسی اچھی نہیں۔‘‘
’’بڑی خالہ نے ٹہوکا دیا ’’نہ جانے یہ میرے گھر میں ملاّنی کہاں سے پیدا ہوگئی نہ گانے بجانے کا شوق، نہ ہار سنگھار سے لگاؤ، نہ محفلوں میں شغل کرنے سے دلچسپی۔‘‘
امی جان نے فیصلہ سنایا ’’ذرا موودی والے کو تو بلاؤ آج اس کی ایسی موودی بنے گی کہ یہ بھی یاد کرے گی۔‘‘ ہیں باجی چھوٹی بہن نے حکم دیا اور آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’میں نہیں بنواؤں گی مووی مجھے نہیں اچھا لگتا یہ کام، نہ مجھے بناؤ سنگھار آتا ہے، نہ مجھے ناچنا گانا آتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر مووی میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ میں نے غصے میں کہا تو سب حسب عادت خاموش ہوگئے۔ بتاؤ مجھے یہ جو ہماری ماؤں خالاؤں نانا نانی اور دادی دادا کی شادیاں مووی کے بغیر ہوئیں کیا وہ شادیاں نہیں تھیں۔ یادگاریں موودی میں نہیں دلوں میں ہونی چاہئیں محبت کی، اطاعت کی، پاکیزگی کی، پیروی کی، ایثار و قربانی کی، عجز و انکسار کی، کہاں ہے یہ سب؟ کہیں بھی نظر آتا ہے تم لوگوں کو؟ پھر بھی مسلمان کہتے ہو اپنے آپ کو۔ ایک نکاح اور مولوی یہ دو چیزیں ہی رہ گئیں ہیں ہماری شادیوں میں اسلام کی نشانیاں ورنہ باقی سب کچھ تو ہم وہی کرتے ہیں جو ہندو کرتا ہے، جو عیسائی کرتے ہیں، جو یہودی کرتے ہیں۔‘‘ کوئی بھی جواب نہیں دے پا رہا تھا میری بات کا۔ سب دم بخود نظریں جھکائے کھڑے تھے اور پھر اعلان ہوا کہ کھانا لگ چکا ہے۔ میں نے جلدی سے کھانا کھایا اور گھر کو لوٹ آئی، سب لوگوں کی ناراضگی مول لے کر سب کے دل کو آزردہ کرکے۔ کیا بندوں کو خوش کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہی کچھ کیا جائے خواہ وہ گناہ ہی کیوں نہ ہوں۔
پھر کافی دن بیت گئے اس واقعے کو۔ خاندان میں میرا جانا بھی بہت کم ہی ہوتا۔ غمی و خوشی میں اگر جانا بھی ہوا تو سلام و دعا اور خیر خیریت سے آگے بات نہیں بڑھتی تھی۔
کوئی دو سال کے بعد یہ خبر دھماکہ بن کر میرے کان سے گزر گئی کہ میری پیاری دوست اور قریبی رشتہ دار زیبی کو طلاق ہوگئی جبکہ اس کی ایک بچی بھی تھی۔ خاندان بھر میں باتیں ہورہی تھیں۔ بادل ناخواستہ ہم لوگوں کو بھی جانا پڑگیا۔ وہی روایتی رونا دھونا، وہی روایتی باتیں، گلے شکوے، طعنے، بدعائیں، صلواتیں اور پھر بیٹی کی مظلومیت کی داستانیں، مظالم کے قصے اور شوہر کی بے وفائی کے افسانے اور پھر انجام سب باتوں کا یہی ہوتا ہے۔ سرگوشیوں میں ہی سہی یہی بات زبان زد عام ہوتی ہے کہ آخر پسند کی شادی تھی یہی ہونا تھا۔ زیورات اور کپڑوں اور دوسرے سامان کے ساتھ زیبی اپنے ماں باپ کے گھر واپس آگئی تھی۔ ایک عدد بچی کے ساتھ زیبی بھی آنسو بہا رہی تھی۔ میں نے اور دوسری خواتین نے تسلی دی، دلاسہ دیا تو یوں گویا ہوئیں ان ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی اور آخر کار طلاق دے دی۔ یہ تو میری امی کا حوصلہ ہے کہ وہ ڈٹ گئیں کہ گن گنا کر سامان واپس لے آئیں۔ لیکن باجی پھر بھی بات بگڑ گئی۔ وہ کس وجہ سے میں نے حیران ہو کر پوچھا (حالانکہ بات بنی کب تھی۔ بگڑی ہوئی تو پہلے ہی سے تھی۔)
باجی انھوں نے سارا سامان اور زیور وغیرہ دے دیا لیکن میری شادی کی وڈیو دینے سے انکار کردیا۔ ایسے ظالم اور دھوکے باز ہیں باجی صاف انکار کردیا کہ ہم تو شادی کی وڈیوں نہیں دیں گے۔ اس وڈیوں میں ہماری بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کی فلم ہے اور ہم تمہیں دے دیں تو تم نہ جانے کس کس کو دکھاتی رہو۔ نوجوان لڑکیوں کی فلم اور دیکھنے والے تو اتنے ظالم ہوتے ہیں فلم کا جوحصہ چاہیں بنوا کر اپنے پاس رکھ لیں یا پوری فلم ہی کی کئی کاپیاں تیار کروا کر رکھوالیں۔ ہماری کیا عزت رہ جائے گی؟ نہ بابا نہ، ہم تو اس بات پر مرنے مارنے کو تیار ہیں، ہماری جان کیوں نہ چلی جائے، پر ہم فلم نہیں دیں گے۔ زیبی نے رو رو کر داستان گزشتہ سنائی۔ ہائے میری بیٹی کی فلم جو بھی دیکھتا، کہتا کتنی خوبصورت دلہن ہے کتنی معصوم ہے۔ انھوں نے یہ صلہ دیا، میری معصوم بچی کا گھر اجاڑ دیا۔‘‘ زیبی کی ماں نے کہا۔
’’آخر میاں بیوی میں کس بات پرجھگڑا ہوگیا تھا یہ تو پسند کی شادی تھی اوردونوں کے پیار کی مثالیں دی جاتی تھیں۔‘‘ میں نے زیبی کی امی سے پوچھا۔
ارے بیٹی! کیا پوچھتی ہو، اسی وڈیو میں ایک لڑکی تھی شاہد کے ابو کے دوست کی بیٹی۔ اس کو اس نے ویڈیو میں دیکھا اور ایسا لٹو ہوا کہ ایک سال کے اندر اندر اس سے دوستی بھی کرلی اور اب سے کوئی چھ ماہ پہلے سے اسی سے خفیہ شادی بھی کررکھی تھی۔ وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے دولت بے شمار ہے۔ انھوں نے شاہد کو گھر داماد بنالیا، اور بیٹی وہ تو ایسا بدلا کہ اس نے تو پھر خبر بھی نہ لی زیبی اور اس کی بچی کی۔ اور جب زیبی کو پتہ چلا اور اس نے احتجاج کیا تو فوراً اسے طلاق دے دی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور اس کے ماں باپ بھی اس کے حمایتی ہوگئے۔ آخر انہیں بھی تو دولت سے بے پناہ محبت تھی اور ان کا بیٹا تو دولت میں کھیل رہا تھا۔‘‘ اور میں یہ کہانی سن کر خاموشی سے اٹھ کر گھر کو لوٹ آئی۔ اور سوچنے لگی کہ شادی میں ویڈیو گرافی ترقی پسندی کی علامت ہے۔ اور یہ ہیں اس ’’ترقی کی برکتیں‘‘ جو آپ نے دیکھیں۔