ٹومس ایلوا ایڈیسن کو بچپن ہی سے تجربے کرنے کا شوق تھا۔ وہ ہر چیز کی تہہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ جب وہ چھ سال کا تھا تو اس نے غلہ بھرنے کے کھتے میں آگ لگادی، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ کھتّہ جل کر راکھ ہوگیا۔ خود ایڈیسن کی جان مشکل سے بچی۔ باپ نے تمام گاؤں والوں کے سامنے اس کی پٹائی کی تاکہ وہ آئندہ ایسے تجربات سے باز رہے۔
ایک اور موقع پر ایڈیسن نے ایک عجیب حرکت کی۔ وہ راج ہنس کے گھونسلے میں پہنچا اور اس کے انڈوں پر چڑھ بیٹھا، محض یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ بھی انہیں چڑیا کی طرح سے سیتا ہے یا نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انڈے پھوٹ گئے اور اس کی پتلون خراب ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر پٹائی ہوئی۔
ایڈیسن کا پورا بچپن اسی طرح تجربے کرتے گزرا۔ وہ سات سال کا ہوا تو اس کے والدین ریاست مشی گن کے ایک مقام ’’پورٹ ہرون‘‘ میں آباد ہوگئے۔ یہاں ایڈیسن کو تجربات کا نیا موقع میسر آیا۔ وہ ایک مینار پر چڑھ کر ایک پرانی دور بین سے دور کی چیزیں دیکھا کرتا۔ اس نے گھر کے تہہ خانے میں اپنی ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ بھی قائم کرلی اور تمام شیشیوں پر ایک لیبل لگادیا۔ ’’زہر، چھوؤ مت!‘‘ تاکہ کوئی انہیں چھیڑے نہیں۔
ایک دن اس نے اپنے ساتھ ایک بچے کو ایک ایسا کیمیاوی پاؤڈر بہت سی مقدار میں کھلادیا جسے پانی میں ڈالنے سے جوش پیدا ہوجاتا ہے۔
’’تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟‘‘ اس کے باپ نے پوچھا۔ ایڈیسن نے جواب دیا: ’’صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ اس پاؤڈر کی گیس سے ہوا میں اڑسکتا ہے یا نہیں۔‘‘
اس کے باپ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ پڑوسی ہنستے تھے، بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا لیکن اس کی ماں کو یہ یقین تھا کہ اس کا بیٹا بڑا ہوکر نام پیدا کرے گا۔ وہ اس کی ہمت بڑھاتی تھی۔ اس کی نویں سالگرہ کے موقع پر ماں نے اسے ایک کتاب کا تحفہ دیا جس میںبہت سے تجربات چھپے ہوئے تھے۔ ایڈیسن نے زندگی بھر اس تحفے کی قدر کی۔ اس نے اور بھی کئی کتابیں پڑھیں اور جب دس سال کی عمر کو پہنچا تو اسے کئی سائنسی کتابوں سے واقفیت ہوچکی تھی۔
ایڈیسن کو کتابیں پڑھنے سے زیادہ عملی تجربات کا شوق تھا۔ جب بارہ سال کا ہوا تو ایک ٹرین پر اخبار بیچنے کا کام کرنے لگا۔ لیکن فرصت کے وقت تجربات بھی کرتا رہتا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک ڈبے میں ایک چھوٹی سی کیمیاوی تجربہ گاہ قائم کرلی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے گاڑی ہی میں ایک چھوٹا سا چھاپہ خانہ بھی لگالیا اور خود اخبار چھاپنے لگا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ فاسفورس کی ایک ڈلی ٹرین کے فرش پر گر پڑی اور ڈبے میں آگ لگ گئی۔ آگ تو گارڈ نے بروقت بجھا دی لیکن اگلے اسٹیشن پر اس نے ایڈیسن کا تمام ساز وسامان اتارکر زمین پر پھینک دیا اور اس کی اچھی خاصی مرمت بھی کی۔ یہ حادثہ اس کی زندگی میں بڑا مبارک ثابت ہوا۔
ایڈیسن کو اس بات کا کوئی صدمہ نہیں ہوا کیونکہ اسی دوران میں اسے ٹیلی گرافی سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس نے اٹھارہ گھنٹے روزانہ محنت کی اور ٹیلی گراف آپریٹر بن گیا۔ اس نے اہلِ وطن کی خدمت کی اور وہ اس کی قابلیت کے قائل ہوگئے۔ ایڈیسن جو کچھ کماتا تھا اسے کتابوں اور اپنے تجربوں کے ساز و سامان پر خرچ کر ڈالتا تھا۔ ایک موسم سرما تو ایسا آیا کہ اس کے پاس بڑا کوٹ بھی نہ تھا اور وہ سردی میںمرتے مرتے بچا۔
ایڈیسن نے بہت سے شہروں کی خاک چھانی، طرح طرح کی ملازمتیں اختیار کیں، لیکن اس کے آقا اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ انہیں ایسی ترکیبیں سمجھاتا تھا جو ان کی سمجھ سے باہر تھیں۔ مقدر اسے کھینچ کر بوسٹن لے آیا۔ یہ ۱۸۶۸ء کی بات ہے۔ اس نے ٹیلی گراف آپریٹر بننا چاہا لیکن محکمے کے سپرنٹنڈنٹ نے اس کا حلیہ دیکھا تو گھبراگیا۔ پتلون اونچی اور پھٹی ہوئی، جوتے گھسے ہوئے، ہیٹ میں سوراخ، قمیص پیوندوں کا مجموعہ اور وہ بھی کئی ہفتے سے دھلی تک نہ تھی، اور بال ایسے جیسے انھوں نے کبھی کنگھے کی شکل بھی نہ دیکھی ہو۔
ایڈیسن کا امتحان لیا گیا۔ اس کا خط بڑا اچھا تھا اور اسے تار برقی کی بڑی مشق تھی۔ وہ تمام ساتھیوں میں اول آیا اور اسے تیز ترین آپریٹر تسلیم کیا گیا۔اُس زمانے میں تار برقی میں دوہری لائن استعمال نہیں کی جاتی تھی۔ پیغامات صرف ایک طرف بھیجے جاتے تھے اور کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ انھیں ایک ہی وقت میں مخالف سمتوں میں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔
ایڈیسن اس ناممکن بات کو ممکن بنانے پر تلاہوا تھا اور وہ اس میںکامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے آپریٹر کی جگہ سے استعفیٰـ دے دیا کیونکہ وہ اپنا وقت نئی ایجادات پر صرف کرنا چاہتا تھا۔ جیب میں کوڑی نہ تھی لیکن حوصلہ بلند تھا۔ اسے ایک بہتر مستقبل کا انتظار تھا اور وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھنا چاہتا تھا۔
ایڈیسن کو محنت کی راحت ملی اور جلد ملی۔ ایک تاجر نے اس کی ایجادات چالیس ہزا رڈالرمیں خرید لیں۔ یہ رقم اس کے وہم و گمان سے بھی زیادہ تھی۔ جب اسے چیک ملا تو وہ بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سمجھ میں نہیں آتاتھا کہ اتنی بڑی رقم کا وہ کرے گا کیا۔ لیکن یہ بڑی رقم جلد ہی خرچ ہوگئی۔ اس نے ایک دکان کھول لی، بہت سے ملازم رکھ لیے۔ انہیں بڑی اچھی تنخواہیں پیش کیں۔
اب اسے اپنے تجربات کے لیے ایک نیا میدان مل گیا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں تار برقی سے دو، چار، آٹھ پیغامات بھیجنا چاہتا تھا۔ ایک ایسی مشین ایجاد کرنا چاہتا تھا جو آدمیوں کی طرح بات کرسکے۔ ایک ایسا لیمپ بنانا چاہتا تھا جو الٰہ دین کے لیمپ کو شرمائے اور تاریک دنیا میں اجالا کردے۔
وہ دن رات انہی خیالات میں غرق رہتا۔ اس نے بھی مشکل سے تھوڑا ساوقت شادی کے لیے نکالا۔پھر دو بچے بھی ہوگئے، جنھیں وہ تار برقی کے انداز میں ’’ڈاٹ‘‘ اور ’’ڈیش‘‘ کہا کرتا تھا۔ اسے اپنے بیوی بچوں سے بڑی محبت تھی۔ جب کبھی فرصت ملتی اپنے بچوں کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتا۔
ایڈیسن کو زندگی بھر ایک تکلیف رہی۔ اس کے کان میں بڑا سخت درد ہوتا تھا۔ کام بہت زیادہ تھا، تفریح کے لیے فرصت نہیں ملتی تھی لیکن اس میں بلا کا تحمل تھا۔ اس کے علاوہ قدرت نے اسے اتنی اچھی یادداشت عطا کی تھی کہ اسے لکھنے کی ضرورت کم پڑتی۔ وہ ایک نظر میں پوری مشین کے پرزے بھانپ لیتا تھا اور انہیں یاد رکھتا تھا۔
ایڈیسن چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے سوتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا : ’’زندگی ایسی چیز نہیں کہ اسے سونے میں ضائع کردیا جائے۔ کتنے ہی تجربات ایسے ہیں جنھیں وقت کی ضرورت ہے۔‘‘
وہ سترہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتا تھا، تب کہیں وہ ایجادات ممکن ہوئیں، جنھوں نے اس کے نام کو زندئہ جاوید کردیا۔ جب وہ سڑسٹھ (۶۷) سال کا تھا تو اس نے یہ الفاظ کہے تھے: ’’مجھے آج تک فرصت نہیں مل سکی، شاید اسّی سال کی عمر میں مجھے کچھ وقت ملے جسے میں اپنا کہہ سکوں۔‘‘
قدرت نے اس کے بڑے سخت امتحانات لیے۔ ۱۹۱۵ء میں ویسٹ اورنج میں اس کی لیبارٹری جل کر راکھ ہوگئی جس کی چھ عمارتیں تھیں۔ اسے پچاس لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ لیکن اس نے صرف اتنا کہا: ’’کوئی بات نہیں، میں کل سے پھر اپنی زندگی شروع کروں گا۔ زندگی کبھی بھی ازسرِ نو شروع کی جاسکتی ہے، اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔‘‘ بہت کم لوگ اتنا بڑا دل رکھتے ہیں اور ایسے لوگ واقعی قابلِ تقلید ہوتے ہیں۔
جب ایڈیسن بجلی کا بلب ایجاد کرنے کی کوشش کررہا تھا تو خود اس کے گھر میں اندھیرا ہوگیا۔ اس کی بیوی دل کی بیماری میں یکایک انتقال کرگئی۔ ایڈیسن کو بڑا صدمہ ہوا، لیکن اسے بھی اس نے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا، اوراپنے کام میں کوئی فرق نہ پڑنے دیا۔ اٹھارہ ماہ بعد اس نے دوسری شادی کرلی۔ اس کی یہ بیوی بھی بہت ہمدرد اور ہم خیال ثابت ہوئی۔
یکم جنوری ۱۸۷۹ء کی شام ایڈیسن کے بنائے ہوئے بلب نے رات کو دن میں تبدیل کردیا۔ فرانس، انگلستان اور روس میں بہت سے دوسرے سائنسداں بھی اسی کوشش میں مصروف تھے لیکن انہیں وہ استقلال نہیں ملا جو ایڈیسن کا حصہ تھا۔ اس نے الیگزینڈر گراہم بیل کے ایجاد کردہ ٹیلی فون کو ترقی دے کر منہ اور کان کے آلوں کو علیحدہ کیا اور انہیں بہتر بنایا۔ ورنہ پہلے صرف ایک ہی آلہ تھا۔
ایڈیسن نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک کام کیا۔ اس کی عمر ۸۴ سال کی ہوئی لیکن اس نے شاید ہی کوئی دن ضائع کیا ہو۔ ہماری روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اسی قابل ہستی کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ فوٹوگراف اور برقی روشنی کے علاوہ اس نے بولتی تصویریں ایجاد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ اس کے علاوہ کتنی ہی چھوٹی چھوٹی ایجادات ایسی ہیں جنہیں استعمال کرتے وقت ہمارے ذہن میں خیال بھی نہیں آتا کہ یہ ایڈیسن کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ ایڈیسن نے اپنی زندگی میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی لیکن وہ اپنے ماضی سے کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ اس کی نگاہ ہمیشہ ایک بہتر مستقبل پر جمی رہی۔ وہ اپنے کل کو آج سے بہتر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔ امریکہ نے انیسویں صدی میں اس جیسا کوئی دوسرا موجد پیدا نہیں کیا۔ اس نے سائنس کے تقریباً ہر میدان میں طبع آزمائی کی۔ جب موت نے اسے دنیوی بندشوں سے آزاد کیا تو وہ مصنوعی ربڑ تیار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔