ٹوٹا ہوا مٹکا

مسعود مفتی

ٹپ …ٹپ۔ شمالی سندھ کی جھلستی ہوئی صبح میں پسینے کے دو قطرے ماتھے سے چل کر ناک سے گرے اور ٹھیکری کے اوپر جمی ہوئی مٹی کی تہ میں جذب ہوگئے۔

محمد فتح موئن جودڑو میں دوسرے مزدوروں کے ساتھ کام کررہا تھا… کھدائی کا کام۔ کبھی کدال سے، کبھی کھرپوں سے، کبھی ہاتھوں سے اور کبھی انگلیوں کی پوروں سے۔ یہ بڑا صبر آزما اور اکتادینے والا کام تھا مگر اسے اپنی مزدوری سے غرض تھی۔ جب تھوڑا کام کرکے مزدوری زیادہ ملے تو اور کیا چاہیے؟

محمد فتح کے ساتھ پندرہ مزدور چند روز سے ایک ٹیلے کی کھدائی کررہے تھے، جس میں سے چند اینٹوں کا ٹوٹا پھوٹا فرش، ایک دو موتی اور کچھ زیورات ملے تھے۔مزید انکشافات کی تلاش میں وہ بڑی احتیاط سے پچھلے چار دن سے کام کررہے تھے اور کل شام تک ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے کی تمام ٹھیکریاں ڈھونڈ چکے تھے جو اس کے سامنے پڑی تھیں اور وہ سرجھکائے ان پر سے دھیرے دھیرے مٹی صاف کررہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کی پتری تھی جس سے وہ مٹی اتار رہا تھا۔ جس ٹکڑے پر بیل بوٹے نظر آتے وہ کھرچرچے بغیر دوسرے آدمی کو دے دیتا جو اسے برش سے ہولے ہولے صاف کرتا۔ ساتھ ہی وہ پرانے سندھی لوک گیت کا ایک مصرع گنگنارہا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’جیب میں پیسہ ہو تو لاڑ کانہ گھومو۔‘‘

وہ کئی ہفتوں سے یہاں کام کررہا تھا اور جانتا تھا کہ کھدائی کے ذریعے پانچ ہزار سال پرانے شہر کا ایک حصہ برآمد ہورہا ہے، چنانچہ آج مٹی کھرچتے ہوئے اس نے سوچا کہ ان پانچ ہزار سالوں میں یہاں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ان ٹھیکریوں پر جمی ہوئی مٹی بالکل ویسی ہی ہے جیسی آج کل کی۔ یہ ٹھیکریاں بھی ایسی ہی ہیں جیسی ہمارے برتن ٹوٹنے سے بنتی ہیں۔ اس زمانے کے کھلونوں میں جو بیل گاڑیاں اورکشتیاں برآمد ہوئی ہیں وہ بھی بالکل آج کل جیسی ہی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ویسا ہی ہے تو خدا معلوم یہ لوگ کیوں اتنی محنت سے چیزیں کھودتے ہیں، جبکہ ہو بہو ویسی ہی چیزیں آج بھی ڈوکری اور لاڑکانہ کے گلی کوچوں میں نظر آتی ہیں۔ پتری زمین پر رکھ کر محمد فتح نے ماتھے پر انگلی پھیری اور پسینے کے قطرے اکٹھے ہوکر دھار کی شکل میں انگلی کے سرے سے اس کے دامن پر گرنے لگے۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک میل دور دریائے سندھ کی چوڑی سطح چاندی کی طرح چمک رہی تھی اور اس چمک سے گرمی کا احساس اور بھی گہرا ہورہا تھا۔ اس نے دوسرے مزدوروں پر نگاہ ڈالی۔ دوچار کام میں مصروف تھے اور کچھ گھاس کے چھپر کے نیچے سستا رہے تھے۔ دراصل وہ سب انتظار میں تھے۔ کراچی سے چند افسران خاص طور پر وہ چیزیں دیکھنے آرہے تھے جو کھدائی میں برآمد ہوئی تھیں۔ ان کے لیے خاص ہوائی جہاز کا انتظام کیا گیا تھا اور میوزیم کے تمام افسران انہیں لینے کے لیے موئن جودڑو کے ہوائی اڈے پر گئے تھے۔ جانے سے پہلے کسٹوڈین نے مزدوروں کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ لوگ خاص طور پر اس مٹکے کے ٹکڑے دیکھیں گے، اس لیے یہ کام ان کے آنے سے پہلے مکمل ہونا چاہیے۔ وہ گیا تو بابا آچر جو سب سے بوڑھا مزدور تھا، ہنسنے لگا: ’’یہ صاحب لوگ بھی خوب ہیں۔ ایک پرانے مٹکے کے لیے ہوائی جہاز سے آئیں گے، اتنا روپیہ برباد کریں گے۔‘‘

جھکے جھکے محمد فتح کی گردن تھک گئی تھی، اس نے سراٹھا کر انگڑائی لی۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، موئن جودڑو کے اونچے ٹیلے سے دور دور تک کھیتوں میں پھیلا پانی نظر آرہا تھا جس کے نیچے دھان کی فصل ایسے پرورش پارہی تھی جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں ہو۔ فضا میں سڑے ہوئے پانی کی بساند رچی ہوئی تھی اورحبس سینے پر پتھر کے بوجھ کی طرح ان دیکھا دباؤ ڈال رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگئے۔

وہ چار افسر تھے… سر پر موٹے موٹے ٹوپ پہنے اور کالی عینکیں آنکھوں پر چپکائے ہوئے۔ انھوں نے ایک ایک چیز کئی کئی بار دیکھی اور مٹکے کے عاشق ہوگئے۔ کبھی ان میں سے کوئی ایک ٹھیکرا اٹھا کر دیکھتا۔ پھر دوسرے کو ایسے دیتا گویا نازک آبگینہ ہو۔ وہ بھی آنکھیں جما کر اسے دیکھتا، معنی خیز انداز میں زور زور سے انگریزی بولتا، باقی سب بھی سر ہلاتے اور پھر وہ اگلے کو دے دیتا۔ انھوں نے مٹکے کے کئی ٹکڑے محدب شیشے کی مدد سے بار بار دیکھے، پھر وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور مٹکے کے ٹھیکروں کے کنارے مسالہ لگا لگا کر آپس میں جوڑنے لگے۔ محمد فتح نے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں تو انھوں نے ایسے ہٹادیا جیسے وہ کوئی پاک جگہ ناپاک کرنے جارہا ہو۔ مجبوراً وہ ایک طرف ہوکر تماشا دیکھنے لگا۔ ایک گھنٹے کی عرق ریزی کے بعد مٹکے کا منہ اور تھوڑا سا اوپر والا حصہ جڑ گیا۔ ان افسروں میں جو سب سے بوڑھا تھا، وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگا اور دوسرے کے کندھے پر ہاتھ مار کر بولا: ’’ہم نے یہ مٹکا نہیں جوڑا بلکہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب جوڑی ہے۔ یہ مٹکا ان دنوں کسی بھرے گھر کی رونق ہوگا۔‘‘

محمد فتح پہلے تو ان سب کو بے وقوف سمجھ رہا تھا مگر اس افسر کی بات اس کے دل کو بہت لگی کیونکہ ٹھیکرے جڑنے کے بعد مٹکے کی جو شکل بنی تھی وہ ہو بہو اسی مٹکے جیسی تھی جو اس کے اپنے گھر میں تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر کی ساری رونق اس مٹکے کے دم سے ہے۔ محمد فتح کا باپ موئن جودڑو سے تھوڑی دور رہتا تھا اور ایک بڑے زمیندار کا ہاری تھا۔ اس کی تمام جائداد دو بیل اور ایک ہل تھا۔ بالکل ویسا ہی ہل اور بیل جیسے موہن جودڑو کے میوزیم میں کھلونے بن کر پڑے تھے۔ ان کا مکان ایک تاریک سا کوٹھا تھا جس میں اس کے ماں باپ اور دو چھوٹے بھائی رہتے تھے۔ محمد فتح کی اپنی عمر کوئی پندرہ برس کے لگ بھگ تھی اور وہ محض گھر کی آمدنی میں اضافے کے لیے کھدائی کے کام پر مزدوری کرتا تھا۔ یہ مٹکا ان کے تاریک گھر کے تاریک ترین گوشے میں پڑاتھا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کے قد سے اونچا تھا۔ اس کا چوڑا منہ ایک پرانی چنگیر سے ڈھکا ہوتا تھا۔ مٹکے میں کبھی چاول ہوتے تھے اور کبھی گندم۔ نئی فصل کے دنوں میں مٹکا لبالب بھرا ہوتا اور جوں جوں دن گزرتے جاتے، اس میں اناج کی چوٹی نیچے سرکتی جاتی۔ اس کے گھر کی ساری رونق مٹکے کے دم سے تھی۔ رات کے وقت ماں باپ کی چارپائیاں بالکل مٹکے کے ساتھ ہوتی تھیں تاکہ چور وہاں نہ پہنچ سکے۔ چھوٹا بھائی پیدا ہوا تو ایک پیڑھی پر پڑا رہتا تھا جو مٹکے کے پاس دھری ہوتی تھی اور سارا دن غوں غوں کرتا رہتا تھا اور دوسرے بچے مٹکے کے ارد گرد گھوم کر اور اوپر چڑھ کر بھائی کو ہنسانے کی کوشش کرتے۔ گھر کے بچے ضد کرتے یا لڑتے تو ماں مٹکے میں سے مٹھی بھر اناج نکال کر انھیں دیتی کہ جاکر بھٹی سے بھنوالیں۔ کبھی ہمسایوں میں سے کوئی ادھار مانگنے آتا تو ماں مٹکے میں سے ایک آدھ کٹورا اناج کا نکال کر دیتی یا اسی میں سے پیسوں کی پوٹلی نکالتی اور کھول کر پیسے دے دیتی۔ اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی یاجب بھی رونق ہوتی تھی، ماں مٹکے کے اناج میں دبی ہوئی پوٹلی میں سے روپے نکالتی۔ باپ شہر جانے لگتا تو ماں اسی مٹکے میں سے پیسے نکال کر اسے دیتی۔ محمد فتح کو یہ بھی یاد تھا کہ جن دنوں اسے اور بھائی کو فاقے سے سونا پڑا تھا تو ماں آہیں بھر بھر کے خالی مٹکے میں کئی بار جھانکتی تھی کہ شاید کوئی اناج کا دانہ نظر آجائے۔ ان کے گھر کے جتنے اتار چڑھاؤ تھے ان کا مظہر یہ مٹکا تھا۔ خوشحالی کا بھی،تنگ دستی کا بھی اور فاقوں کا بھی ۔ گھر کے کئی حادثے بھی اس مٹکے سے وابستہ تھے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں وہ اپنے باپ کے ساتھ گھر لوٹا تو اس کی ماں مٹکے پر تقریباً اوندھی پڑی تھی۔ اس کی سانس زور زور سے چل رہی تھی، وہ پسینے میں شرابور تھی اور سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ ان دونوں نے اسے اٹھایا، چارپائی پر لٹایا اور وجہ پوچھی مگر وہ زار و قطار روتی گئی۔ ایک آدھ مہمل سا جملہ بولی بھی مگر فتح کے پلے نہ پڑا لیکن اس کا باپ سمجھ گیا اور اس نے فتح کو باہر بھیج دیا۔ باہر تو وہ چلاگیا مگر دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا رہا۔ ساری بات تو پلے نہ پڑی، صرف اتنا اندازہ ہوا کہ اس کی ماں کو زمیندار نے گھر بلایا تھا، بند کمرے میں کچھ منوانے کی کوشش کی تھی مگر وہ انکار کرتی رہی اور آخر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا کر بھاگ آئی۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ باپ کے بلانے پر ماں کو گڑ کا شربت پلانے لگا تو اس کے بازوؤں اور چہرے پر کئی خراشیں نظر آئیں۔ پھر اس کا باپ ساری شام کسی گہری سوچ میں ڈوبا دروازے کے باہر بیٹھا رہا۔ اس نے پوچھا بھی مگر وہ زمیندار کو دوچار گالیاں دینے کے سوا کچھ نہ بتاتا تھا۔

زمیندار جو بڑا جاگیر دار بھی تھا اور بڑا سیاست دان بھی، اس سے تھانیدار بھی ڈرتا تھا اور پٹواری بھی۔ محمد فتح سوچتا رہا کہ یہ قصہ کیا ہے اور وہ کیا کرے؟ مگر اس کے ذہن میں ساری چیز گڈ مڈ تھی اور جب دماغ بہت پریشان ہوا تو وہ اندر گیا، مٹکے میں سے مٹھی بھر اناج لیا اور بھنوانے کے لیے بھٹی پر چلا گیا۔

٭٭٭

مٹکا جڑ گیا تھا۔ افسر دوسری چیزیں دیکھنے ریسٹ ہاؤس چلے گئے تھے اور محمد فتح دن کا کام ختم کرکے گھر روانہ ہوا۔ سارے راستے وہ ان لوگوں کے متعلق سوچتا رہا جو وہاں اتنی محویت اور شوق سے مٹکا جوڑتے رہے تھے۔ تین چار میل کا راستہ طے کرکے وہ گھر پہنچا تو مغرب ہونے کو تھی اور شام کی خنکی شروع ہوگئی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا آخری موڑ مڑا جہاں سے دو سو گز کے فاصلے پر اس کا مکان تھا۔ وہ ایک دم ٹھٹک کر رک گیا۔ وہاں تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔

گھر کا سارا سامان کوٹھے سے باہر بکھرا پڑا تھا۔ بستر اور برتن وغیرہ چارپائی پر ڈھیر تھے۔ گھر کو تالا پڑا تھا۔ چند ہمسائے تھوڑے فاصلے پر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، ایسے جیسے یہ لوگ اچھوت تھے۔ وہ بھاگ کر آگے گیا تو اسے ٹھوکر لگی۔ سنبھل کر دیکھا تو گھر کے اندر والا مٹکا ٹوٹا پڑا تھا۔ اس کے ٹھیکرے بکھرے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک سے اسے ٹھوکر لگی تھی۔

تب اس کے باپ نے بڑے ہی مدھم اور بجھے ہوئے انداز میں ساری کہانی سنائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ زمیندار نے اسے بے دخل کردیا ہے۔ اس کے علم کے بغیر کوئی جھوٹا مقدمہ چلتا رہا جس میں یکطرفہ ڈگری ہوئی اور تحصیلدار کے آدمی آج آکر بے دخل کرگئے ہیں۔

اس کا گلا سوکھ گیا۔ خشک سا گولا معدے سے لپک کر حلق میں آپھنسا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ بے بسی میں فقط اتنا منہ سے نکلا ’’مگر … مگر وہ یہ مٹکا کیوں توڑ گئے؟‘‘

’’مٹکا کہاں بیٹا…‘‘ اس کا باپ بولا ’’ہمارا تو گھر ہی ٹوٹ گیا۔‘‘

بے بسی کے عالم میں محمد فتح زمین پر بیٹھ گیا اور بے چاردگی سے ٹھیکرے دیکھنے لگا۔ پھر بڑی نرمی سے اس نے ٹھیکرے اکٹھے کئے اور یاس کے عالم میں ان کے کنارے آپس میں ملانے لگا۔ بالکل اسی انداز میں جس طرح صاحب لوگ صبح موئن جودڑو میں مٹکا جوڑ رہے تھے۔

پھر اس کے ذہن میں ایک موہوم سا سوال ابھرا کہ کیا پانچ ہزار سال پہلے وہ مٹکا بھی ایسے ہی ٹوٹا تھا؟… ممکن ہے… باقی چیزیں جو ویسی ہی ہیں … اور ٹوٹے ہوئے ٹھیکرے جوڑنے کی بے سود کوشش کرتا رہا۔ اس نے آنکھ اٹھائی تو ماں کو اپنی طرف دیکھتے پایا۔ چھوٹا بچہ اس کے کندھے سے چپکا تھا اور آنکھوں میں آنسو ابل رہے تھے۔ ’’ماں، میں ابھی صاحب کے پاس یہ ٹھیکرے لے جاتا ہوں۔ ان کے پاس مسالہ ہے، انھوں نے صبح ہی پانچ ہزار سال پرانا مٹکا جوڑا ہے…‘‘

’’چل ہٹ بے وقوف۔‘‘ اس کا باپ قریب آکر چلایا ’’وہ یہ مٹکا نہیںجوڑیں گے۔‘‘

پھر اس نے پیار سے بیٹے کے بال تھپکے اور نرمی سے بولا : ’’ میں نے اپنے دادا کا وقت دیکھا ہے۔ وہ ہمیں اپنے دادا کے وقت کی باتیں سناتا تھا۔ یہ ہمیشہ سے ایساہی ہے۔‘‘

محمد فتح حیران ہوکر باپ کو دیکھتا رہا، پھر بولا: ’’کمال ہیں یہ صاحب لوگ بھی۔ پرانے مٹکے جوڑنے پر تو اتنا خرچ کرتے ہیں اور نئے مٹکے ٹوٹنے پر کوئی بندوبست نہیں کرتے۔‘‘

’’ہاں بیٹا! ہمارا زمانہ ہی ایسا ہے … شاید پانچ ہزار سال بعد کوئی ہمارے مٹکے جوڑنے والا بھی پیدا ہوجائے۔‘‘ اس کے باپ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری اور زیر لب بولا:

’’پانچ … ہزار… سال!‘‘

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں