سنسناتا ہوا پتھر یہ کہاں سے آیا؟
جانبِ شہرِ خرد، چھوڑ کے ویرانۂ غم
کوئی دیوانۂ بے باک، کیا آنکلا ہے
آہ! اب کیا ہو؟ کہو ہمدم و دم ساز خرد
اک چھناکا ہوا، ٹکراؤ کی آواز آئی
اور پھر ریزئہ بلور صفت
رہ گیا بن کے اب اک ڈھیر کی صورت افسوس
جگمگاتا ہوا تہذیب کا یہ شیش محل
تھے ضیا بار جہاں اپنی امیدوں کے کنول
——