ٹھنڈی چھاؤں

ڈاکٹر صابر علی ہاشمی

لو پھر مصیبت نازل ہو رہی ہے، کیا ہماری زندگی میں کبھی سکون نہیں آسکتا ؟‘‘’’آخر ایسی بھی کیا محبت کہ زندگی عذاب بنادی جائے….!‘‘ عدیل کو ایک گھنٹے میں ایسے نہ جانے کتنے جملے سننا پڑے۔
وہ رات کو بیوی کے ساتھ ٹیلی ویژن پر ایک سنسنی خیزفلم دیکھ رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ماریہ مجبوراً اٹھی۔ دومنٹ بعد واپس آئی تو جوش جذبات سے چہرہ سرخ پڑا ہوا تھا۔
’’کون تھا؟‘‘ عدیل نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’عدنان کا فون تھا۔‘‘ ماریہ نے غصے سے بتایا۔
’’خیریت؟‘‘ عدیل نے چونک کر پوچھا۔
’’بڑھیا پھر آرہی ہے..‘‘
اس جملے نے فلم کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔
’’لیکن ابھی تو…‘‘ عدیل کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔
’’ایک مہینے ہی میں محبت نے پھر سرا بھار لیا … ابھی تو رخصت کیا تھا۔‘‘ ماریہ کا غصہ کم نہ ہورہا تھا۔
’’اچھا، آہستہ بولو بچے سو رہے ہیں۔‘‘ عدیل نے سمجھایا۔
’’ آخر ہمیں سکون سے کیوں نہیں رہنے دیا جاتا… دوسرے بیٹے بھی ہیں… اتنا بڑا خاندان ہے… گاؤں میں بھی سب بھائی بہن موجود ہیں … لیکن تنگ کرنا ہے تو صرف ہمیں… زندگی کا عذاب ہے بس!‘‘ لگتا تھا کہ آج ماریہ دل کی بھڑاس نکال کر رہے گی۔
’’کب آرہی ہیں؟‘‘ عدیل نے پوچھا۔
’’اتوار کو۔‘‘
’’غصہ نہ کرو، آؤ ادھر بیٹھو، سوچتے ہیں کچھ …‘‘ عدیل نے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
وہ قریب آئی تو اس کا ہاتھ پکڑ کراپنے پاس بٹھالیا اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر یوں سہلانے لگا گویا اسے پرسکون کر رہا ہو۔

عدیل کے والد دس سال قبل انتقال کر چکے تھے۔ انہوں نے اچھی خاصی دولت چھوڑی تھی، پھر سب بچوں کے فرض سے سبکدوش بھی ہو چکے تھے۔ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں مختلف شہروں میں آباد تھے۔
دہلی میں صرف عدیل مقیم تھا۔ سب سے چھوٹا اور سب کا لاڈلا۔ وہ ایم .بی.اے. کر کے ایک غیر ملکی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔ چونکہ دہلی جیسے بڑے شہر میںتنہا رہنا آسان کام نہیں، اس لیے اماں بی اسی کے پاس رہنےلگیں۔ وہ تو ویسے بھی ماں باپ کا لاڈلا تھا ماں کی محبت اور شفقت اب اس کے لیے مخصوص ہو گئی۔ باقی سب تو اپنی توجہ اور محبتیں اپنے بچوں میں تقسیم کرنے لگے تھے۔
کچھ عرصہ بعد عدیل کو کمپنی کے ایک ڈائر یکٹر کی بیٹی ماریہ پسند آ گئی۔ وہ با صلاحیت اور خوش شکل نوجوان تھا لہٰذا ماریہ کے والدین نے رشتے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ بیاہ ہوا اور دونوں ایک ہو گئے ۔ اماں بی نے بہو کو پاؤں بھی دھر نے نہ دیئے گھر کے سارے کام کاج کر لیتیں۔ اُدھر وہ دونوں ایک دوسرے میں گم رہتے، زمین گویا ان کے لیے جنت کا نمونہ بن گئی۔
ایک سال بعد جب ماریہ نے بیٹے کو جنم دیا تو پورا کنبہ جمع تھا۔ سب نے خوشیاں منائیں ۔ اب پوتا بھی اماں کے سپرد کر دیا گیا اور انہوں نے یہ ذمے داری بھی بہ خوشی قبول کر لی۔ ان کی تو زندگی کا مقصد ہی محبت تقسیم کرنا تھا۔ ننھا فہد بھی دادی کو ہی پہچانتا تھا ماں اور باپ سے محض ایک رشتہ استوار تھا… صرف ایک رسمی رشتہ ۔
ایک روز اماں بیمار پڑگئیں ۔ تب عدیل اور ماریہ کو احساس ہوا کہ گھر میں ان کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی رہتی ہے۔ جب نازوں پلی ماریہ کو ساس کی تیمارداری کرنا اور گھر کی ذمے داری سنبھالنا پڑی تو بہت جلد دوہرے بوجھ سے جھنجلا اٹھی ۔ ایک دن اس نے عدیل سے کہہ دیا کہ وہ اماں کو نہیں سنبھال سکتی ۔
’’ماریہ ! تم غلطی پر ہو… تمہیں ان کا احساس کرنا چاہیے۔ ‘‘عدیل نے یہ الفاظ اوپر کے دل سے کہے، اسے بھی اپنی تفریحات میں کمی کا احساس کھل رہا تھا۔
اس کے بعد پہلی مرتبہ اماں بی کو رخصت کر دیا گیا۔ وہ بیٹوں اور بیٹیوں کے پاس مختلف شہروں کا دورہ کرنے چلی گئیں۔ ماریہ نے بیٹے کی دیکھ بھال تو کی مگر کئی دلچسپیاں پالنے والی یہ ماڈرن ماں دادی جیسی بھر پور توجہ اور شفقت نہ دے سکی۔ نتیجتاً تین ماہ بعد جب وہ واپس لوٹیں تو فہد کافی کمزور ہو چکا تھا۔
جب دادی کی محبت ملی تو رفتہ رفتہ صحت مند ہو گیا۔ گھر کے کام پھر انہوں نے سنبھال لیے… ادھر عدیل اور ماریہ کی تفریحی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ دونوں رات گئے مختلف تقریبات میں شرکت کر کے واپس آتے تو اکثر اماں بی کی نصیحتیں سننا پڑتیں: ’’بیٹی فہد کا ہی کچھ خیال کرو… اسے تم دونوں کی محبت اور توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
آہستہ آہستہ عدیل اور ماریہ کو اماں بی کا وجود کھٹکنے لگا کیونکہ وہ انہیں اپنی آزادی میں رکاوٹ محسوس ہونے لگیں۔ ایک سال بعد اماں بی دوبارہ دورے پر نکل گئیں ۔ اب فہد کافی ہوشیار ہو چکا تھا۔ ادھر مار یہ پھر ماں بننے والی تھی ۔ جس دن مار یہ ہسپتال میں داخل ہوئی اسی روز اماں بی پہنچ گئیں۔ بیٹے بہو اور پوتے کی محبت نے پھر جوش مارا۔ وہ جان چکی تھیں کہ بیٹا اور بہو روک ٹوک پسند نہیں کرتے، مگر اپنے دل کا کیا کرتیں، جو ان دونوں کے ساتھ ساتھ فہد میں بھی اٹکا رہتا تھا۔
اب اماں بی سنبل اور فہد میں مگن رہنے لگیں۔ انہوںنے بیٹے اور بہو کونصیحتیں کرنا بند کر دیں، اس کے باوجود ماریہ ان کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس کا رویہ اور لہجہ تبدیل ہو رہا تھا۔
سنبل ایک سال کی ہوئی اماں بی اپنے بھائی کے پاس چلی گئیں۔ اب ماریہ کو حساس ہوا کہ بچے سنبھالنا کیسا کٹھن مرحلہ ہے۔ اُسے ان کے ان گنت کام کرنا پڑے، تو دو ہی دن میں تارے نظر آ گئے۔ حل یہ نکالا کہ ایک ماسی رکھ لی گئی جو سارادن بچوں کو سنبھالتی اور رات کو گھر چلی جاتی۔
اماں بی کو احساس تھا کہ بہو انہیں نا پسند کرتی ہے، اس لیے اب وہ تین سال بعد آئیں اور وہ بھی مجبوراً جب ان کا بھائی وفات پا گیا تھا، لہٰذا اب وہ کس حیثیت سے وہاں رہتیں؟ ان کے آتے ہی ماسی کی چھٹی کر دی گئی۔ دادی نے پوتے پوتی کو اتنا پیار دیا کہ سنبل اور فہد کو اصلی اورنقلی محبت کے فرق کا پتا چل گیا۔ وہ انہیں ساتھ لٹا کر کہانیاں سناتیں، لوریاں دیتیں اور سبق آموز باتوں سے انہیں دین اور نیکی کی طرف راغب کرتیں۔ ان کی توجہ سے دونوںبچوں میں وہ بری عادات ختم ہو گئیں جو ماں باپ کی عدم دلچسپی سے جنم لے چکی تھیں ۔
کچھ ماہ بعد اماں بی اپنے بیٹے عدنان کے پاس چلی گئیں اور آج …آج اس کا فون آیا تھا کہ وہ پھر دہلی آرہی ہیں۔
عدیل کو صبح ریلوے اسٹیشن جانا تھا تا کہ اماں کو لے آئے، مگر پچھلی رات وہ دیر سے گھر لوٹا اسی لیے صبح آنکھ نہ کھل گی۔ جب وہ جاگا تو اماں بی سرہانے بیٹھی اس کے بال سہلا رہی تھیں۔
’’ارے اماں آپ آگئیں؟‘‘ بیٹے نے خشک لہجے میںپوچھا، گویا پوچھ ر ہا ہو کہ اتنی جلد کیوں آگئیں ؟ انہیں دیکھ کرماریہ کا منہ بھی بن گیا تھا۔
رات کو کھانے کے بعد اماں تو فہد اور سنبل کو کہانی سنانے لگیں اور وہ دونوں اوپر کمرے میں چلے آئے۔ آج بھی ٹی وی پر ایک اچھی فلم آرہی تھی ۔
’’اب اس کا علاج سوچ لو … بڑھیا ہر دو تین ماہ بعدسیر کر کے آجاتی ہے۔ کیا ہم نے اس کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟‘‘ماریہ غصے میں تھی ۔
’’بھئی میں کیا کروں… کیا ان کا گلا گھونٹ دوں… میں بھی تنگ آیا ہوا ہوں لیکن کچھ کر نہیں سکتا ۔‘‘ عدیل نے قدرے جھلا کر اونچی آواز میں کہا۔
’’اچھا یہ ٹی وی بند کرو اور مجھے سونے دو۔ پتا نہیں کب اس جھنجٹ سے نجات ملے گی۔‘‘ ماریہ بڑ بڑاتے ہوئے لیٹ گئی۔
صبح ناشتے پر اماں بی نے ہولے سے بیٹے کو بتایا: ’’بیٹا شاید اس بار میں جلد چلی جاؤں۔‘‘
عدیل نے کوئی جواب نہ دیا، مگرمن ہی من میں بولا ’’پتانہیں یہ جلد کب آئے گی ؟‘‘
مگر اماں بی نے جو کہا، سچ کر دکھایا۔ اسی رات عدیل بھرائی ہوئی آواز میں اپنے بہن بھائیوں کو اطلاع دے رہا تھا ’’بھائی ! اماں کا انتقال ہو گیا ۔‘‘

ابھی اماں بی کو گزرے تین ہی روز ہوئے تھے کہ عدیل کو احساس ہوا کہ وہ تو اس کے سر پر ٹھنڈی چھاؤں کے مانند تھیں۔ وہی اُسے راہِ بد پر چلنے سے روکتی تھیں اور اب ان کے پاس ایسا کوئی بزرگ نہیں رہا تھا جو فہد اور سنبل کو نیکی اور بدی کی تمیز سکھاتا۔ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ گھرانے خوش قسمت ہوتے ہیں، جہاں بزرگ بستے ہوں … ان کی حیثیت زندگی کی کڑی دھوپ میں شجرِ سایہ دار جیسی ہوتی ہے۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں