سہ پہرکا وقت تھا۔ بورڈنگ ہاؤس کے ایک پرانے کمرے میں بجلی کے تار بکھرے ہوئے تھے۔ تاروں کے جال میںالجھا ہوا ایک شخص اوپر کی منزل میں اور دوسرا نچلی منزل کے ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ اوپر کے کمرے میں موجود شخص ایک بھدا سا آلہ منہ سے لگائے بار بار ایک فقرہ بول رہا تھا اور نیچے بیٹھا ہوا شخص اس فقرے کو سننے کی کوشش کررہا تھا۔ یک لخت نچلی منزل والا آدمی اپنا آلہ پھینک کر اٹھا اور تیزی سے بالائی منزل کی طرف بھاگا۔ اوپر پہنچتے ہی خوشی سے چلایا: ’’میں نے آپ کی بات سن لی۔ خدا کی قسم صاف سنائی دیا۔ آپ نے کہا تھا: مسٹر واٹسن یہاں آئیے مجھے آپ کی ضرورت ہے۔‘‘
تاروں میں الجھا ہوا شخص خوشی سے ہنسنے لگا۔ ’’شکر ہے، مجھے اپنی کئی سالوں کی محنت کا پھل مل گیا۔‘‘ یہ الیگزنڈر گراہم بیل تھا، جس نے اپنے ساتھی مسٹر واٹسن سے (جو نچلے کمرے میں تھا) بات کی تھی اور جس آلے پر گراہم بیل نے بات کی تھی اسے آج کل ہم ’’ٹیلی فون‘‘ کہتے ہیں۔
گراہم بیل اسکاٹ لینڈ کے ایک شہر ایڈنبرا میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ نے گونگے بہرے لوگوں کو پڑھانے کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔ بیل نے ابتدائی تعلیم ایڈنبرا میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلا گیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیل گھر واپس آگیا۔ گراہم بیل نے اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھا۔ اس نے اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کے ایک پرانے شہر بوسٹن میں ایک اسکول کھول لیا۔ اس اسکول میں بیل ان استادوں کو تربیت دیتا جو بہروں کو پڑھاتے۔ بہروں کو پڑھاتے پڑھاتے بیل نے سوچا کہ کوئی ایسا آلہ ایجاد کرنا چاہیے، جس سے کئی میل دور بیٹھے ہوئے شخص سے بات کی جاسکے۔ چنانچہ کانوں کی ساخت پر غور کرنے کے بعد بیل کو معلوم ہوا کہ انسان کے کان میں ایک پتلی جھلی ہوتی ہے۔ یہ جھلی آواز کی لہر سے ہلنے لگتی ہے۔ اب اس نے سوچا کہ اگر وہ آواز کی لہروں کو برقی لہروں میں تبدیل کرکے ان کی طاقت کو بڑھا گھٹا کر کان کے پردے جیسی جھلی پر ڈالے تو وہ جھلی اس طرح حرکت کرے گی جیسے انسان کے ہونٹ ہلتے ہیں۔ اس طرح آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد بیل ٹیلی فون ایجاد کرنے میں مصروف ہوگیا اور آخر کار کافی کوشش اور مسلسل محنت کے بعد بیل ٹیلی فون ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
شروع شروع میں بیل کو شہرت حاصل نہ ہوسکی، لیکن تھوڑے ہی عرصے میںبیل ایک مشہور آدمی بن گیا مگر اس کی ایجاد کے بعد کئی لوگ ٹیلی فون کے موجد بن بیٹھے۔ کئی دعوے داروں نے بیل پر مقدمے کردیے مگر بیل یہ مقدمے جیت گیا۔ اب بیل ٹیلی فون لوگوں کے لیے تیار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے نام کی ایک کمپنی بنالی جس کے تین حصے دار تھے۔ اب بیل خاصا امیر آدمی بن گیا۔ بیل کے ٹیلی فون میں کئی خرابیاں تھیں جنہیں بعد میں ٹامس الوا ایڈیسن نے دور کیا۔ آج کل تقریباً ہر گھر میں ٹیلی فون ہے اور جب بھی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے تو گراہم بیل کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
——