کس قدر حیرت انگیز اور افسوس ناک بات ہے کہ ایک مکمل طور پر قابلِ علاج بیماری صرف اور صرف ہماری غفلت کے سبب آبادیوں کی آبادیاں تباہ و برباد کردینے پر تلی ہوئی ہے اور ہم نہایت بے خبر اپنی دنیا میں مگن ہیں۔
عالمی ادارئہ صحت نے ۲۵؍مارچ کا دن ایک عالمی آفت کے طور پر ہر سال منانے کا پروگرام بنارکھا ہے کہ شاید اس طرح اس خطرے سے منہ موڑ کر سوئے ہوئے با اختیار انسان ہوش کے ناخن لے سکیں۔ دنیا بھر میں یہ دن ۱۹۸۲ء سے (جب اس کے جرثومے کی دریافت کو پوری ایک صدی گزرگئی ) ٹی بی کے خلاف جنگ کے طور پر منایا جارہا ہے۔
ٹی بی (تپ دق) کیا ہے؟
یہ بیماری ایک جرثومے (Mycobacterium Tuberculosis) کے ذریعہ جو انسانی پھیپھڑے میں پرورش پاکر کھانسنے، گانے، چیخنے حتی کہ سانس لینے سے بھی ہوا اور فضا میں پھیل جاتا ہے، کسی بھی صحت مند پھیپھڑے میں داخل ہوکر مرض کا سبب بن سکتا ہے۔ پھیپھڑوں کے علاوہ یہ جراثیم جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتے ہیں جن میں خاص طور پر دماغ کی جھلی، گردے، جگر، ہڈیاں، آنتیں، تولیدی اعضاء اور غدود وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ میں ۸۰ فیصد متاثرہ عضو پھیپھڑا ہوتا ہے۔
کن امراض کے ساتھ خطرہ بڑھ جاتا ہے؟
ویسے بچوں،بوڑھے افراد اور بعض جگہوں پر خواتین (غذائی قلت کے سبب) کا مدافعتی نظام زیادہ کم زور ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تپ دق سے متاثر ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر بعض امراض کے ساتھ اس مرض کے حملہ آور ہونے کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ یہ مرض محض جرثومے کے جسم میں داخلے ہی کا موجب نہیں ہوتا۔ اس کے لیے جسم کے مدافعتی نظام کا کم زور ہونا بھی بہت ضروری ہے، ورنہ تپ دق کے جراثیم تو ہوا میں جابجا اڑتے پھرتے ہیں۔ خصوصاً مریض کے اطراف تو ان کا جم غفیر ہوتا ہے۔ ایسے میں مضبوط مدافعتی نظام ہی ان کی ہلاکت کے لیے واحد ہتھیار ہے۔
بہت سے ایسے افراد بھی ہیں، جو تپ دق کا جرثومہ اپنے جسم میں لیے پھر رہے ہیں، مگر انہیں اس کا علم نہیں۔ یہ جراثیم جب سے مریض کے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تب ہی سے جسم کا مدافعتی نظام ان کے خلاف مسلسل سرگرم عمل ہوتا ہے۔ کبھی یہ جراثیم شکست کھا جاتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں مگر کبھی کبھی زندہ حالت میں بھی پڑے رہتے ہیں اور پھر کافی عرصے کے بعد، جب انسان کے قوی جواب دینے لگیں یا کسی بیماری کی صورت میں مدافعتی نظام کمزور پڑجائے تو یہ متحرک ہوجاتے ہیں اور بیماری مریض پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ایسے میں مریض سمجھ نہیں پاتا کہ اس پر تپ دق کا حملہ کیسے اور کیوں ہوا۔ بیماری کی یہی شکل’’مخفی تپ دق‘‘ کہلاتی ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ جراثیم متحرک نہ ہوں، مریض میں نہ تو کسی قسم کی بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، نہ وہ خود کو تھکا ہوا اور بیمار محسوس کرتا ہے، نہ وہ دوسروں تک تپ دق منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے، لیکن اگر اس کا اسکین ٹیسٹ ری ایکشن اور کوانٹی فیرون ٹی بی گولڈ ٹیسٹ (QFT-G) کیا جائے، تو وہ پوزیٹو ہوتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ اگر مخفی تپ دق کامناسب تدارک نہ ہو تو یہ باقاعدہ ٹی بی کی شکل اختیار کرلے گا۔ ویسے بہت سے افراد ان جراثیم کے ساتھ بھی بغیر کسی تکلیف کے اپنی طبعی عمر آسانی کے ساتھ پوری کرلیتے ہیں۔
علامات
٭ تین ہفتوں سے زیادہ مسلسل کھانسی رہنا۔
٭ تین ہفتوں سے زیادہ مسلسل بخار، جو شام کے وقت زیادہ محسوس ہو۔
٭ تھکاوٹ اور کمزوری۔
٭ بھوک میں کمی۔
٭ وزن میں کمی۔
٭ سینے میں درد۔
٭ سانس کا پھولنا۔
٭ کھانسی اور بلغم کے ساتھ خون کا اخراج۔
تشخیص
اس ضمن میں مریض کے بلغم کا معائنہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ ایکسرے اور خون کاٹیسٹ بھی مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
موثر علاج
اب تپ دق کا علاج ہر جگہ موجود ہے لیکن علاج سرکاری طور پر ہو یا نیم سرکاری، ٹی بی سینٹر میں ماہر امراض سینہ کی نگرانی ہونا سب سے بہتر ہے۔ یوں بھی آج کل علاج اور تشخیص دونوں کی مفت سہولت میسر ہے مگر اس ضمن میں بھی یہ یاد رہے کہ …
٭ علاج کی مدت، جو آٹھ ماہ ہے، اس کو یقینی طور پر مکمل کیا جائے۔
٭ دواؤں کی مقدار اور طریقۂ استعمال میں رتی بھر کمی و بیشی نہ کی جائے۔
٭ دواؤں کے ذیلی اثرات کی وجہ سے دوا ترک نہ کی جائے، بلکہ اس کا تدارک اور علاج کیا جائے۔
٭ یاد رکھئے، اگر علاج درمیان میں ترک کردیا، ایسا دورانِ علاج بار بار کیا گیا، دواؤں کی مقدار میں کمی بیشی کی گئی تو مرض ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑ جائے گا۔
دورانِ علاج غذا
ٹی بی کے مریض کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غذا سے گریز یا احتیاط نہ کرے، بلکہ وہ غذا جتنی بہتر شکل میں (غذائیت سے بھرپور) لے گا، اتنا ہی اسے فائدہ ہوگا۔ ہاں اگر کسی مخصوص غذا سے کوئی خاص تکلیف ہوتی ہو تو اسے عارضی طور پر ترک کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ غذاکے معاملہ میں دیگر امراض (خدانخواستہ) بلڈپریشر، دمہ، ذیابیطس وغیرہ کے حوالہ سے مخصوص احتیاطی تدابیر ضرور ذہن میں رکھی جائیں۔
علاج کے دوران کن باتوں کی احتیاط ضروری ہے
٭ کھانسی یا چھینک کے دوران رومال اپنے منہ پر رکھیں۔
٭ جگہ جگہ تھوکنے سے گریز کریں بلکہ ممکن ہو تو تھوک اور بلغم کسی ڈھکن والے ڈبے میں جمع کریں۔
٭ بچوں اور عزیزوں کو کچھ عرصے تک منہ پر پیار نہ کریں۔
٭ ماحول کو کھلا، کشادہ اور ہوا دار رکھیں۔
چند اہم مشورے، جو یاد رکھنا ضروری ہیں
٭ علاج کی مدت کی تکمیل کا خاص خیال رکھیں۔
٭ اپنی مرضی سے یا کسی کے غلط مشورے پر دواؤں کی مقدار اور طریقۂ استعمال میں کمی وبیشی نہ کریں۔
٭ حاملہ خاتون (مریضہ) اپنا علاج ضرور مکمل کرائے۔
٭ دودھ پلانے والی ماں اس مرض کے دوران بچے کو دودھ ضرور پلائے۔ (تپ دق کے جراثیم حمل اور دودھ پر اثر انداز نہیں ہوتے)۔
٭ بچوں کو حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائے جائیں۔
٭ اگر گھر میں ایک مریض موجود ہے تو متعلقین کا حفظ ما تقدم کے طور پر فوراً تشخیص، معائنہ کرایا جائے۔
——