پارلیمانی انتخاب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ رسالہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچتے پہنچتے پہلے اور دوسرے مرحلے کی پولنگ ختم ہوچکی ہوگی۔ ابھی انتخابات کی ابتداء ہی میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کافی تیکھے تیور ظاہر کررہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیلی بھیت سے نوعمر امیدوار ورن گاندھی نے جس انداز سے انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست میں بہت سے پرانے لیڈران سے بہت آگے رہیں گے۔ دوسری طرف اس پر الیکشن کمیشن نے سخت رخ اختیار کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ فرقہ پرستی کو الیکشن مہم کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ یہ یقینا ہندوستانی جمہوریت کے لیے اچھا شگون ہے۔ مگر دوسری طرف سیاسی لیڈران ایک دوسرے پر جس طرح کیچڑ اچھال رہے ہیں اور ایک دوسرے کی بخیہ ادھیڑنے میں مصروف ہیں اس سے دنیائے سیاست میںپھیلی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ اس پہلو سے شاید یہ پارلیمانی انتخاب گذشتہ سارے انتخابات میں منفرد رہے گا۔
اس انتخاب میں اگرچہ تیسرا محاذ بھی اپنے دم خم کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کا تاحال اندازہ یہی ہے کہ اس کا کوئی مستقبل نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح این ڈی اے اور یوپی اے نے اتحاد سازی کر رکھی ہے اس میں تیسرے محاذ کے لیے امکانات معدوم ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس محاذ میں ایسی پارٹیاں ہیں جن کا مابعد الیکشن سوائے اس کے کوئی کردار نظر نہیں آتا کہ وہ دو میں سے کسی ایک محاذ کا حصہ بن جائیں۔ جیسی کہ ان کی پچھلی تاریخ بتاتی ہے۔ ایک تیسری بات جو اس تیسرے محاذ کے سلسلے میں کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اکثر لوگ وہ ہیں جو خود کو وزیر اعظم کا دعوے دار تصور کرتے ہوئے اس کا حصہ بنے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کے بعد اس اتحاد کی بقا خود سوالات کے گھیرے میں ہے۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اس محاذ کے شرکاء اپنی اپنی سابقہ وفاداریوں پر حسبِ ضرورت و موقع لوٹ جائیں گے۔
الیکشن کے نتائج کیا ہوں گے اس کی پیش گوئی اگرچہ نہیں کی جاسکتی مگر اندازہ یہی ہے کہ انتخابات ۲۰۰۹ء میں اصلاً مقابلہ دوہی طاقتوں کے درمیان ہوگا۔ ایسی صورت میں جبکہ مقابلہ صرف دو طاقتوں کے درمیان ہے اس بات کی اہمیت ہمارے لیے کوئی خاص نہیں ہے کہ کس پارٹی کاامیدوار مسلم ہے اور کس پارٹی کا غیرمسلم۔ حقیقت میں اس سے اوپر اٹھ کر ہمیں صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ فسطائی قوتوں کے تشکیل کردہ محاذ کے مقابلے میں کارگر اور مضبوط امیدوار کون ہوسکتا ہے، اس لیے کہ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو ملک کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی آخری کوشش کررہی ہیں اور دوسری طرف اس ملک کا قانون، دستور اور سیکولرزم ہے جو نشانہ پر لگا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو سمجھے یا نہ سمجھے مسلمانوں کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے۔
سکھ فرقے کا سیاسی وزن
ملک کے باوقار وزیر داخلہ پی جدمبرم پر ایک مشتعل سکھ نوجوان صحافی نے جوتا اچھال دیا۔ اگرچہ وہ جوتا محترم وزیرِ داخلہ کو نہیں لگا، مگر اس سے الیکشن کے گرماگرم موسم میں ایک سیاسی طوفان آگیا۔ دراصل یہ جوتا سکھ فرقے کی جانب سے اس شدید غصے کی علامت اور احتجاج تھا جو اندرا گاندھی کے قتل کے وقت ۸۴ء میں سکھوں کے قتلِ عام کے معاملے میں دو بڑے کانگریسی لیڈروں اور حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کے امیدوار سجن کمار اور جگدیش ٹائٹلر کو سی بی آئی کی کلین چٹ دیے جانے پر پیدا ہوا تھا۔
ان دونوں لیڈران کے خلاف سکھ برادری کا غصہ اس لیے فطری تھا کہ ان کے خیال میں یہی دونوں لیڈران اس قتل عام کے مرک تھے اور ان کے خیال میں ان دونوں کے خلاف کافی ثبوت بھی موجود تھے۔ ان دونوں افراد کو کلین چٹ مل جانے کا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کو قرار واقعی نہیں مل سکتی۔ اس مسئلہ کو لے کر سکھ فرقہ پہلے ہی احتجاج میں مصروف تھا اور ان دونوں لیڈران کو بری کیے جانے پر ہر جگہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہا تھا۔
یہ واقعہ الیکشن کے موسم میں کانگریس پارٹی کے ہیڈ کوارٹرس میں ہورہی ایک پریس کانفرنس میں پیش آیا اور اس نے کانگریس کے ایوانوں میں ہل چل مچا دی۔ اس کا فوری اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ کانگریس اعلیٰ کمان نے فوراً ہی ان دونوں بھاری بھرکم لیڈران کی انتخابات کے لیے امیدواری کو رد کردیا۔ اور پورے سکھ فرقے کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان سے آئندہ انتخابات میں حصے لینے کا وہ موقع جو پہلے دیا جاچکا تھا چھین لیا گیا۔ دوسری طرف وزیرِ داخلہ نے اعلیٰ ظرفی اور سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نوجوان کو معاف بھی کردیا۔
اگرچہ اس غیر مناسب واقعہ کو کسی طور درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لیکن اس کے باوجود یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے نے برسرِ اقتدار پارٹی کی پالیسی کو متاثر کیا اور اس نے ایک ایسا ٹرن لیا جسے ’یو‘ ٹرن کہا جاسکتا ہے۔ سکھ فرقہ جو اپنی تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے مگر سیاسی اعتبار سے وہ کس قدر مؤثر ہے اور ہر پارٹی اس کے ووٹ کی خاطر کیا کچھ کرسکتی ہے یہ ہمارے لیے قابلِ غوروفکر ہے۔
گذشتہ چند دہائیوں میں اس فرقے نے ’دہشت گردی‘ کے مسئلہ پر نہایت سنگین صورتِ حال کا مقابلہ کیا ہے۔ اور اب وہ اس کیفیت سے نکل کر ایسی سیاسی قوت بن گیا ہے کہ ملک کی ہر پارٹی ان کے مفاد کے خلاف اقدام کرنے سے خوف کھاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہر طرح کی مشکلات میں اس فرقے نے اپنے آپ کو متحد، منظم، بیدار اور زندگی سے بھرپور ثابت کیا ہے۔ جب کبھی بھی اس فرقے کے مفاد پر زد پڑی ہے تو اتحاد کے ساتھ اس کا کامیاب مقابلہ کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے وہ ہمیشہ ملک کی ہر بڑی اور بااقتدار پارٹی سے ’بارگیننگ‘ پوزیشن میں رہا ہے۔
اس کے برخلاف مسلمانوں کا معاملہ عجیب وغریب ہے۔ یہاں ادنیٰ مفادات کی خاطر ملی مفاد کے سودا گر بڑی تعداد میں موجود نظر آتے ہیں اور اس کی قیادت عزم و حوصلے اور حکمت و دانائی کے لحاظ سے کمزور دکھائی دیتی ہے۔ کاش کے مسلمان سبق حاصل کرتے۔
خواتین کی نائٹ شفٹ اور ان کا تحفظ
گذشتہ دنوں کال سینٹر میں نائٹ شفٹ کی ڈیوٹی سے واپس لوٹتے وقت نوجوان لڑکی جگیشا کے قتل نے لوگوں کا ذہن سومیا وشوناتھن کی طرف موڑ دیا۔ جو صبح پونے چار بجے کے لگ بھگ اپنی کار سے گھر لوٹ رہی تھی کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں نے اس کے سر میں گولی مار کر اسے قتل کردیا۔ اس کا کریڈٹ کارڈ اور سامان لوٹنے کے بعد اسے سڑک پر کارہی میں چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ وہ ایک ۲۶ سالہ ٹیلی ویژن جرنلسٹ تھی اور کام سے اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔ جگیشا اور سومیا کے قتل کی نوعیت اور وجہ تقریباً یکساں تھی۔ جگیشا کا بھی کریڈٹ کارڈ اور قیمتی سامان لوٹ لیا گیا تھا۔
گزشتہ سال جب حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ اب خواتین کو رات کی شفٹ میں کام کرنے کی باقاعدہ سرکار کی طرف سے اجازت ہوگی، تو ’مساواتِ مرد و خواتین‘ کے قائل، لوگوں نے اس فیصلے کا استقبال کیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت کو اس بات کی اجازت بہت پہلے ہی دے دینی چاہیے تھی۔ ایسے لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ مرد و خواتین جب دونوں برابر ہیں تو ایسے میں یہ امتیاز کیوں خواتین کے خلاف روا رکھا گیا کہ مردوں کو رات کی شفٹ میں کام کی اجازت ہو اور خواتین پر پابندی ۔ اگرچہ اس وقت کچھ لوگوں نے مختلف دلائل دے کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ رات کی شفٹ میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینا ان کے عزت و وقار، سماجی و معاشرتی صورتِ حال اور تحفظ کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے لیکن مساوات مرد و زن کا تصور رکھنے والوں نے ان کی دلیلوں اور باتوں کو بنیاد پرستی یا فرسودہ سوچ قرار دے کر ناقابلِ توجہ قرار دے دیا تھا۔ اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اب خواتین دن رات آفس اور کال سینٹرس میں کام کرنے لگیں اور اس کے سبب مختلف قسم کے مسائل میڈیا میں آنا شروع ہوگئے۔
جگیشا اور سومیا کے قتل کے واقعات نے کم از کم دہلی اور این سی آر (نیشنل کیپیٹل ریجن یعنی دہلی سے متصل دیگر ریاستوں کے شہروں) میں خواتین کی نائٹ شفٹ ڈیوٹی کے سبب ان کے تحفظ کے سلسلے میں سنگین نوعیت کے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ شہری علاقوں میں وہی میڈیا جو خواتین کی نائٹ شفٹ ڈیوٹی کی کاولت کرتا تھا ان کے تحفظ کے مسئلے کو لے کر بے چین اور فکر مند نظر آتا ہے۔ اور اس کی فکر مندی فطری اور اس حساسیت کی علامت ہے کہ کم از کم ہمارا سماج اپنی خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے تحفظ کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن کیا محض تحفظ کی فکر مسئلہ کا حل ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ کہ جب تک اس بنیادی سبب کا ازالہ نہیں ہوتا جو اس کا سبب ہے اس وقت تک تحفظ بھی فراہم نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کی توقع کی جائے تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو بھرے تالاب میں دھکا دے کر کپڑے نہ بھیگنے کی توقع کی جائے۔