’’اماں آپ پان کھانا چھوڑدیں، اب تو خالہ نے بھی توبہ کرلی ہے۔ وہ کہہ رہی تھیں اس سے زبان کا کینسر ہوجاتا ہے۔ ان کی نند کو ہوگیاتھا اور وہ جوانی میں ہی چل بسیں۔ سارے بال جھڑ گئے تھے اُن کے اور سوکھ کے کانٹا ہوگئی تھیں۔ اماں چھوڑ دیں نا پلیز! آپ کو کچھ ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا… ابا میاں پہلے ہی جاچکے ہیں…‘‘
سعدیہ ایک ہی سانس میں بولے چلی گئی۔
اماں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولیں: ’’تم جب سے کالج گئی ہو آفت کی پڑیا بن گئی ہو۔ ابھی تو ڈاکٹر نہیں بنی ہو اور یہ حال ہے۔ بن گئیں تو ہمارا کھانا پینا بند کروادوگی… اری نیک بخت! موت کا ایک دن مقرر ہے۔ پان وان سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اپنی دادی کو دیکھ لو۔ کتھا چونا کم اور تمباکو بڑھتا جارہا ہے۔ پیلی پتی کا۔ نوے کے پیٹے میں ہیں۔ انہیں کیوں نہیں ہوا وہ پینسر…‘‘
’’پینسر نہیں اماں۔ کینسر۔ بڑا موذی مرض ہے۔ جان لے کے ٹلتا ہے۔‘‘
’’جو بھی ہے۔ ہوا کرے مگر تمہاری خالہ کی نند کو یہ بیماری نہیں تھی۔ انہیں تو زیادہ بولنے کی بیماری تھی اور وہ بھی جھوٹ۔ سارا دن غیبت اور چغلیوں میں گزرتا تھا بہشتن کا، اور وہ پان کھاتی ہی کتنا تھیں دن بھر میں دو یا تین۔ وہ بھی کتھا ہی کتھا۔ چونا تو دکھاوے کا ہوتا تھا۔ اصلی چونا تو وہ اپنے میاں کو لگاتی تھیں۔‘‘
سعدیہ نے اتنے تیز فقرے پر آنکھ اٹھا کر اپنی اماں کو دیکھا تو دیکھتی رہ گئی۔ گورا چٹا رنگ۔ تین بیٹیوں کے جوان ہونے کے بعد بھی ان کے سارے بال کالے تھے۔ کبھی کھول دیتیں تو گھٹنوں سے جالگتے۔ ’’سعدیہ تجھے اس عمر میں عینک لگ گئی… میں تو ابھی بھی شام کے وقت سوئی میں دھاگہ ڈال لیتی ہوں۔‘‘
انھوں نے بات بدل دی اور پاندان کھول کر پان کے آدھے پتے پر کتھا چونالگانا شروع کردیا۔ پھر سروتا نکال کر ایک پوری چھالیا کاٹنی شروع کی۔ ’’بھئی میں تو سالم چھالیا منگواتی ہوں، کٹی ہوئی نہیں۔ کم بخت کھجوروں کی گٹھلیوں کے ٹکڑے ملادیتے ہیں دکاندار۔ جھوٹی گٹھلیوں پر جانے کیا کیا لگا ہوتا ہے۔ اس سے ہوتا ہے کینسر…!‘‘
’’نہیں اماں! یہ چونے اور تمباکو سے ہوتا ہے آپ چھوڑدیں نا۔ اچھا، کم کردیں۔ دن میں چار پانچ اور بس۔ آپ نے تو پندرہ بیس کی قسم کھا رکھی ہے…۔‘‘
’’اے لو! اب تم ہمارے منہ کے نوالے گن رہی ہو۔ کون کھاتا ہے پندرہ بیس۔ قسم لے لو جو دس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے۔ اچھا اب مغز مت کھاؤ کل سے کم کرنا شروع کردیں گے۔ آہستہ آہستہ آجائیں گے چار پانچ پر۔ اگلے سال تک … تمہارے ابا زندہ ہوتے تو آج تم اتنی منہ پھٹ نہ ہوتیں یا ہمارا کوئی بیٹا ہوتا۔ اللہ ماری تین لڑکیاں اور تینوں زبان دراز… پان چھوڑ دو… پان چھوڑ دو… ارے میں تو کہتی ہوں چھوڑ دو… کتھا چونا اور تمباکو… ذرا سا زہر لادو مجھے۔ قصہ ہی تمام ہوجائے۔ پان میں ڈال کر کھالوں گی…‘‘
’’اماں … وہ بھی پان میں ڈال کر کھاؤگی۔‘‘
اماں کو بھی ہنسی آگئی مگر ہنستے ہنستے رو پڑیں۔ ’’زہر کھائیں میرے دشمن۔ میں مرگئی تو تمہارا کیا ہوگا۔ تینوں بانس کی طرح بڑھتی جارہی ہو۔ تمہارے ابا چلے گئے دل کے دورے سے۔ بیاہ کرجاتے تم تینوں کا… تو آج میں ایسی بے بس نہ ہوتی۔ کاہے کو کھاتی پان۔ سوچ سوچ کے پاگل ہوجاتی ہوں تو منہ بھر لیتی ہوں زہر سے۔‘‘
سعدیہ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ بڑی ایم اے انگلش کرچکی تھی اور منجھلی ایم اے اردو۔ سعدیہ میڈیکل کے دوسرے سال میں تھی اور اس کی پڑھائی میں ابھی تین سال باقی تھے۔ باپ ایک مکان اور دو مربعے زمین چھوڑ کر مرا تھا۔ زمین ساری بک چکی تھی اور اب گھر چلانے کے لیے مکان بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
مگر اما ںمکان بیچنے پر راضی نہیں تھیں۔
بڑی بیٹی ایم اے انگلش کرکے گھر بیٹھ گئی تھی اچھی بھلی لیکچرر کی نوکری مل رہی تھی مگر اماں نے صاف انکار کردیا۔ ’’شادی ہوجانے دو بیٹی… پھر کرلینا۔ میاں سے اجازت لے کر، پروفیسری… میں تمہاری کمائی نہیں کھاؤں گی۔ تمہارے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گی…؟‘‘
منجھلی شاعرہ تھی اور ایم اے اردو کے بعد تو اور دیوانی ہوگئی تھی شاعری کی اور اپنا دیوان مکمل کررہی تھی۔
ساری بہنیں البتہ تھیں کفایت شعار۔
کپڑوں کا شوق نہ زیورات کا۔ سرخی پاؤڈر تو حرام تھا تینوں پر۔ ماں کی طرح سرخ و سپید۔ ناک نقشے کی پوری۔ منجھلی تو باقاعدہ حسین تھی مگر تھی کاہل۔ منہ بھی دھوتی تو اماں کی جھڑکیوں کے بعد۔ ایک ہی جوڑے میں سارا ہفتہ گزار دیتی۔
جمعہ کے جمعہ نہالیتی تو اماں دو نفل شکرانے کے اس کے لیے الگ پڑھتیں۔
ایک دن نہا کے نکلی تو اماں سے پوچھا: ’’اماں آپ میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں مگر یہ بتائیں کہ آپ کے پاندان کو نہائے کتنے سال ہوگئے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم نے اسے دھلتے نہیں دیکھا؟‘‘
وہ ہمیشہ اس سوال کا جواب گول کرجاتیں مگر اس دن کہنے لگیں: ’’کیا بتاؤں بیٹی تم تو بہت بعد کی پیداوار ہو۔ تقسیم کے وقت ہم ہوش میں تھے۔ آٹھ دس برس عمر ہوگی ہماری جب سکھوں نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا۔ سارے مردوں کو ماردیا۔ تمہارے نانا بھی شہید کردیے۔ تین ماموں تھے تمہارے… انھیں بھی بہشت کا رستہ دکھا دیا۔ ہم بے ہوش ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو گھر لاشوں سے بھرا پڑا تھا اور پاندان خون سے… دھل گیا اس دن نور سے… پھر کیا دھلتا… اور کیوں دھلتا… لو سونگھ لو تمہیں خوشبو آئے گی۔ شہیدوں کے خون کی…‘‘
اور پھر پاندان سے سارا سامان نکال کر باہر رکھ دیا اور پاندان کو درود پڑھ پڑھ کر صاف کرنے لگیں۔ ہرے مخمل کے ٹکڑے سے۔
گہرے ہرے مخمل کا یہ ٹکڑا ان کے پاندان میں سب سے پہلے بچھتا اور پھر اس پر ساز وسامان رکھا جاتا۔ کتھے کی کلہیا الگ، چونے کی الگ، چھالیہ ایک تھیلی میں، تمباکو دوسری میں … وہ قاعدے سے سامان رکھتی جاتیں اور درود پڑھتی جاتیں۔
سب سے اوپر، ایک گیلے سفید کپڑے میں لپیٹ کر طشتری میں پان رکھے جاتے اور پھر پاندان کو بند کرکے ایک طرف رکھ دیتیں اور وضو کرکے اپنے وظائف میں مشغول ہوجاتیں۔
ایک دن بڑی بیٹی بشریٰ کی سہیلی گھر آئی تو اماں نے اسے غور سے دیکھا اور پہچان کر بولیں:
’’بیٹی تمہارا نام نادیہ ہے نا؟‘‘
’’ہاں خالہ مگر آپ کو کس نے بتایا۔ مجھے تو لندن گئے پندرہ سال ہوگئے؟‘‘
’’اے بیٹی! میں بوڑھی ہوں مگر آنکھیں کھلی رکھتی ہوں… آخر تین بیٹیوں کی ماں ہوں… یہ تمہارے بائیں آنکھ کے بائیں جانب جو تین مسّے ہیں… چھوٹے چھوٹے سے… ان کو کون بھول سکتا ہے۔ پہلے یہ سیاہ رنگ کے تھے اب سرمئی ہوگئے ہیں۔ مگر نظر تو آتے ہیں ہم بوڑھوں کو۔ اچھا تو تم لندن چلی گئی تھیں۔ یہ ہمیں معلوم نہیں۔ بچپن میں بشریٰ کے ساتھ کھیلنے آیا کرتی تھیں۔ یہ ہمیں یاد ہے… وہاں کیا کرتی ہو۔ شادی ہوگئی یا نہیں۔‘‘
’’پانچ سال ہوگئے خالہ۔ میرے میاں پرانی چیزوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ لندن میں۔‘‘
’’پرانی چیزوں کا کاروبار۔ کباڑیو ںوالا۔ ہائے بیٹی یہ کیا کاروبار کیا اتنی دور جاکر…؟‘‘
وہ حیرت سے بولیں تو سب ہنس پڑے۔
’’خالہ یہ انگریز لوگ بڑے خبطی ہوتے ہیں۔ کباڑیوں کی دکان سے پرانی چیزیں خریدتے ہیں اور بہت دام دیتے ہیں۔ میں بھی اپنے میاں کی مدد کرتی ہوں اور جب بھی یہاں آتی ہوں تو پرانے برتن، گراموفون، گھڑیاں اور سکّے وغیرہ خرید کر لے جاتی ہوں۔‘‘
اچانک اس کی نظر اماں کے پاندان پر پڑی تو وہ نزدیک آگئی اور اسے شہادت کی انگلی کے ناخن سے بجا کر بولی: ’’خالہ یہ کتنا پرانا ہوگا۔ کچھ اندازہ ہے؟‘‘
’’بیٹی یہ ہماری دادی کا تھا۔ انہیں ان کی پردادی سے ملا۔ عمر کا حساب تم خود لگالو… کسی نواب نے تحفہ میں دیا تھا ان کے میاں کو… اب تو ٹوٹنے لگا ہے۔ کئی دفعہ سوچا ہے کہ نیا لے لوں اور اسے گودام میں رکھ دوں مگر دل نہیں مانتا۔‘‘
نادیہ بشریٰ کو ایک طر ف لے گئی اور بتایا کہ پاندان انتہائی نادر اور کم یاب ہے۔ لندن میں کم از کم دس ہزار پونڈ کا بکے گا۔ جو یہاں کے بارہ لاکھ روپئے بنتے ہیں۔ آدھا آدھا کرلیتے ہیں۔ وہ اسے چھ لاکھ میں خریدنے کو تیار ہے۔
نادیہ کے جانے کے بعد بشریٰ نے کہا:
’’اماں! نادیہ آپ کا پاندان خریدنا چاہتی ہے۔ چھ لاکھ دام لگا رہی ہے۔ لاٹری نکل آئی۔ اماں انکار مت کرنا…! سعدیہ کے تین سال بھی گزر جائیں گے پڑھائی کے اور شگفتہ کی شاعری کی کتاب بھی چھپ جائے گی۔ ایک نیا خوبصورت پاندان لے لیتے ہیں۔ یہ تو ویسے بھی ٹوٹتا جارہا ہے۔‘‘
اماں نے کہا: ’’صبح بتاؤں گی۔‘‘
اگلے دن اتوار تھا۔ سعدیہ کی بھی چھٹی تھی۔ نماز پڑھ کر اماں نے تینوں کو اکٹھا کیا۔ پاندان کھول کر اسے ہرے مخمل سے صاف کیا ۔ درود شریف پڑھ پڑھ کر سارا ساز و سامان باہر نکالا، صاف کیا، واپس رکھا اور اسے بند کردیا اور سروتے سے چھالیا کاٹتے ہوئے بولیں: ’’بشریٰ ، اپنی سہلی سے کہو اگر اس کے پاس پیسے ہیں تو ہمارا مکان خریدلے… میں…پاندان نہیں دوں گی… کل اس لیے نہیں بتایاکہ سر چکراگیا تھا نادیہ کی باتیں سن کر… تہجد پڑھی تو طبیعت بحال ہوئی۔‘‘
’’مگر کیوں اماں! ایسا کیا ہے اس پاندان میں؟‘‘
بشریٰ نے زچ ہوکر پوچھا تو اماں بولیں:
’’وہی تو میں کہہ رہی ہوں۔ کیا ہے اس میں چھ لاکھ کا، حد سے حد ہزار کا ہوگا یا دو کا۔ نادیہ کا میاں تو انگریزوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ تمہارے ابا نے تمہیں حق حلال کی کھلائی۔ میں نے بھی اُن کی زمین بیچ بیچ کے تمہیں پالا۔ کسی سے ادھار لیا نہ سود پر رقم… جیتے جی کسی کو دھوکا نہیں دوں گی۔ کم بختو کینسر ہوجائے گا مجھے… اور تمہیں بھی۔‘‘
دن چڑھتے ہی نادیہ بشریٰ سے ملنے آگئی اور پاندان کے دام بڑھا کر دس لاکھ کردیے۔ بیٹیوں اور اماں میںاختلاف پیدا ہوگیا۔ بشریٰ بولی: ’’اماں آپ ٹھیک کہتی ہیں مگر دس لاکھ بہت ہوتے ہیں اور پھر ہم نے نادیہ کو ہر چیز بتادی ہے۔ اگر وہ پھر بھی خرید رہی ہے تو اس میں کون سا دھوکا ہے۔ … مکان بیچ کر ہم کہاں جائیں گے۔ آپ کی عمر بھی ساٹھ سے زیادہ ہوگئی ہے کبھی سکھ دیکھا نہ آرام۔ آپ چاندی کا پاندان لے لیں مگر اسے جانے دیں۔‘‘
اماں نے صاف انکا رکردیا۔ پاندان اٹھایا اور اپنے کمرے میں جاکر اندر سے کنڈی لگالی۔ دوپہر کا کھانا کھایا نہ رات کا۔ بیٹیاں دستکیں دے دے کر بے حال ہوگئیں۔ وہ ہر دستک کا ایک ہی جواب دیتیں ’’کم بختو مت ستاؤ بڑھیا کو۔‘‘
آخر لڑکیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
صبح ہوتے ہی نادیہ پھر آگئی۔ اسے دیکھتے ہی اماں کا منہ بن گیا۔ بشریٰ نے پاندان کے سودے سے معذرت کرلی۔ نادیہ نے تحمل سے کہا: ’’مکان لے کر کیا کروں گی۔ میں تو یہاں رہتی ہی نہیں۔ البتہ دس لاکھ لائی تھی، وہ دے جاتی ہوں، آپ سوچ لیں میں دو ماہ بعد پھر آؤں گی۔ دل نہ مانے تو رقم واپس کردینا۔‘‘
وہ سب کو حیران و پریشان چھوڑ کر چلی گئی۔ بشریٰ رقم کا تھیلا لے کر اماں کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
لو اماں! دیکھو نادیہ کی شرافت اور خلوص۔ یہ دھوکا ہے کیا۔ اسے پاندان کے بارے میں ہر چیز بتادی گئی ہے۔ پھر بھی وہ خرید رہی ہے۔ ہم آپ ہی کی بیٹیاں ہیں۔ حلال حرام کی تمیز سکھا رکھی ہے آپ نے۔ آپ کو شک ہے تو مفتی خداداد صاحب سے فتویٰ لے لیں… پہلے بھی تو آپ ان سے دین دنیا کے مسئلے پوچھتی رہتی ہیں۔‘‘
اماں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چادر اوڑھ کر گھر سے باہر چلی گئیں اور واپس آتے ہی صحن میں لگے گلابوں کے پودوں کی طرف گئیں۔ پریشانی کے وقت وہ ہمیشہ یہی کیا کرتی تھیں۔
’’پودے مرجھا رہے ہیں۔ کم بخت نے جانے کب سے پانی نہیں دیا۔ یہ اللہ ماری شاعرہ سارا دن بستر میں پڑی غزلیں لکھتی رہتی ہے۔ کیا مجال ہے کہ پھولوں کو دو بوند پانی دے دے۔ کاہے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے اُس نے۔… کربلا بنا رکھی ہے ساری کیاری۔ ویسے دیکھو تو گلاب توڑ توڑ کر سونگھتی رہتی ہے…‘‘
وہ اپنے کمرے میں واپس آئیں۔ بیٹیوں سے پانی کی بڑی بالٹی منگوائی۔ پاندان کا سارا ساز وسامان نکال کر علاحدہ علاحدہ رکھا۔ کتھے کی کلہیا صاف کی، پھر چونے کی، تمباکو اور چھالیوں کی تھیلیاں نکال کر الگ رکھیں۔ پہلے خالی پاندان پانی میں ڈالا اور پھر درود شریف پڑھ پڑھ کے اسے ہرے مخمل کے ٹکڑے سے مل مل کے دھویا۔ پھر کتھے کی کلھیا خالی کرکے بالٹی میں ڈال دی اور ساتھ ہی سروتا اور طشتری بھی۔ چونے کی کلھیا باہر رہنے دی۔
کچھ دیر انتظار کیا اور دوبارہ درود شریف کا ورد شروع کردیا۔ پھر پاندان اور اس کا ساز وسامان باہر نکالا اور مخمل کے ٹکڑے کو اچھی طرح نچوڑ کر اس سے خشک کیا۔
’’لو بھئی، دھل گیا پاندان۔ سعدیہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ کالج گئی ہے۔ آپ بھول جاتی ہیں۔‘‘
’’ارے ہاں، سٹھیا گئی ہوں، اب۔‘‘
اور پھر بشریٰ اور شگفتہ سے کہا:’’اٹھانا ذرا۔ مجھ سے کہاں اٹھتی ہے اتنی بھاری بالٹی۔ دیکھنا پانی نہ گرے۔ کتھے کی جھلک ماررہا ہے۔ کلھیا میں ذرا سا لگا رہ گیا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں جاؤ۔ پودوں میں ڈال آؤ۔ سوکھے جارہے ہیں۔ مگر ٹھہرو۔ میں بھی چلتی ہوں۔ تمہارا کیا بھروسہ ہے… آنگن میں بکھیر دیا تو کون دیکھے گا…‘‘
اپنی نگرانی میں پاندان کا دھوون پودوں کو ڈلواکر بولیں: ’’دیکھ لینا۔ شہیدوں کے خون کی خوشبو آئے گی عمر بھر گلابوں سے۔‘‘
پھر کمرے میں آئیں اور شگفتہ سے بولیں: ’’لے پوری ہوگئی تیری حسرت۔ دھل گیا پاندان یہ کباڑن بشریٰ کہا ںرہ گئی…؟ اسے کہہ دے بلوالے نادیہ کو… میں مفتی صاحب سے فتویٰ لے آئی ہوں۔‘‘
گلابی جاڑو ںکے دن تھے۔ اماں کو بخار نے آلیا۔ مگر انھوں نے پروا نہیں کی اور دو مہینوں کے اندر ڈولیاں اٹھوادیں… بشریٰ اور شگفتہ کی… کل ملا کر چھ لاکھ خرچہ ہوا۔ باقی کے پیسے سعدیہ کے اکاؤنٹ میں جمع کروادیے۔
بیٹیوں کی رخصتی کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ان کا بخار بگڑ گیا۔ سعدیہ دوائی اور دلیہ لے کر اُن کے کمرے میں آئی تو وہ بڑبڑائیں۔ ’’بیٹی آج جمعہ ہے اتوار نہیں۔ تم کالج نہیں گئیں کیا؟‘‘
’’اماں آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر کیسے جاتی۔ آپ کے بدن سے بخار کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔ آج بخار ہوئے دو مہینے ہوگئے۔ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔شادیوں میں آپ نے عجلت کی۔ حد کردی بے احتیاطی کی اور اتنے تیز بخار میں ایک منٹ بھی آرام نہیں کیا۔ آخر بدن ہے کوئی مشین تو نہیں اماں۔ ہاں بشریٰ اور شگفتہ بھی آرہی ہیں۔ میں نے رات فون کردیے تھے…‘‘
وہ دونوں جمعہ کی اذان سے پہلے ہی آگئیں۔ سعدیہ نے انھیں بتایا کہ اماں کی حالت بہت خراب ہے۔ تینوں بہنیں بے تابی سے اماں کے کمرے میں گئیں، وہ جاچکی تھیں۔ بشریٰ اور شگفتہ اماں کے پیروں سے لپٹ کر سسکنے لگیں۔
سعدیہ کا سارا بدن لرز رہا تھا۔ وہ دروازے سے لگی بلک رہی تھی۔ اچانک اسے اماں کے سرہانے رکھا نیا پاندان نظر آیا۔ اٹھا کے ساتھ والی میز پر رکھنے لگی تو کانپتے ہاتھوں سے سنبھالا نہ جاسکا اور زمین پر گر کے کھل گیا۔ تینوں بہنوں نے روتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا … اس میں گہرے ہرے رنگ کے مخمل کا ایک ٹکڑا تھا … اور کچھ نہیں تھا۔