پوری دنیا میں ۹؍مئی کو ’مدرس ڈے‘ (یوم مادراں) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کی ابتدا ۱۹۹ء میں امریکہ سے ہوئی۔ ماں کی عزت افزائی اور اس سے محبت والفت کے اظہار سے شروع ہونے والا یہ دن مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اب جہاں عالمی سطح پر ماؤں کے حالات و مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے خاص ہوگیا ہے، وہیں عالمی تجارت میں منافع کا ایک خاص موضوع بھی بن گیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی نیشنل ریئیل فیڈریشن کا اس سال 14.6بلین ڈالر کی تجارت کا اندازہ ہے۔ یہ تو سرمایہ دارانہ کنزیومرسٹ سوسائٹی کا ایک پہلو ہے، جو ہر موقع کو منافع کمانے اور تجارت بڑھانے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کافی اہم ہے کہ جہاں سے یومِ مادراں کی ابتدا ہوئی وہیں پر آج مائیں سب سے بے وقعت، بہ حیثیت ماں عظمت و احترام سے محروم اور ’اولڈ ایج ہومس‘ کی زینت بن گئی ہیں۔ رشتے کا تقدس پامال اور الفت و محبت ندارت ہے۔ ہم مشرق کے لوگ اگرچہ ماؤں کے لیے کچھ جذبۂ احترام و محبت ابھی بھی رکھتے ہیں مگر رخ ہمارا بھی اسی ’کعبہ‘ کی طرف ہے جس کی طرف مغرب کا اور منزل بالآخر ہماری بھی وہی ہوگی جو یوروپ کی ہے۔ ہاں ہمارے یہاں مدرس ڈے کے موقع پر کچھ ماؤں کے مسائل پر بحث ہوجاتی ہے۔ اخبارات میں اس دن کی نسبت سے کچھ مضامین لکھ دیے جاتے ہیں، کچھ ’اسٹارس‘ کی ماؤں کا تذکرہ ہوجاتا ہے۔ خواتین اور ماؤں کی کسمپرسی اور بدحالی سے متعلق کچھ اعداد و شمار اخبارات کی زینت بن جاتے ہیں اور پھر مسائل کو آئندہ سال کے لیے اٹھا کر رکھ دیا جاتا ہے۔
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی مدرس ڈے کے موقع پر کچھ اعداد و شمار مختلف اداروں نے جاری کیے ہیں، ان میں ملکی ادارے بھی ہیں اور عالمی بھی۔ جو لوگ ان اعداد و شمار کا اندازہ رکھتے ہیں ان کے لیے تو حیرانی کی کوئی بات نہیں مگر جو لوگ پہلی مرتبہ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں وہ حیران ہی نہیں پریشان بھی ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر منٹ پر ایک عورت زچگی کے دوران موت کے منھ میں چلی جاتی ہے اور ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ خواتین ماں بننے کی ’خطرناک مہم‘ میں زندگی ہار جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائٹیڈ نیشنس پاپولیشن فنڈ کی کارگزار ڈائرکٹر ثریا احمد عبید کے مطابق اگر دنیا کے تمام ممالک اپنے فوجی اخراجات میں صرف ڈیڑھ دن کے بجٹ کی کٹوتی کرکے خواتین کی صحت و بہبود پر خرچ کریں تو یہ پانچ لاکھ جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر دنیا کے ۷۵ وہ ممالک جن میں ماؤں کی حالت نا گفتہ بہ ہے، اگر فی کس صرف ۶۵؍روپئے کا اضافہ کردیا جائے تو حالات میں زبردست بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ماہرین صحت کا اندازہ ہے کہ صرف ۶؍ارب ڈالر کے اضافی خرچ کے ذریعہ ماؤں کے سر پر منڈلاتے موت کے سائے سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کی فکر ہے کسے؟
اب ذرا اپنے ہی ملک ہندوستان کو دیکھئے۔ اکیسویں صدی کے ’شائننگ انڈیا‘‘ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک عورت زچگی کے دوران مرجاتی ہے۔ اس طرح ہر سال ۶۵۰۰۰ سے زیادہ خواتین ماں بننے کے مرحلے میں موت سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ ہندوستان میں ایک لاکھ زچاؤں میں سے ۲۵۴ خواتین کے مرنے کا تناسب تسلیم شدہ ہے۔ اور یہ مختلف علاقوں میں تعلیم، طبی سہولیات اور خواتین کی صحت بیداری کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ملک کی جنوبی ریاست کیرلہ میں یہ تناسب ایک لاکھ پر ۹۵ ہے، جبکہ آسام جیسی پسماندہ ریاست میں ۴۸۰ ہے۔
زچگی کے دوران ہونے والی اموات تعلیم و صحت سے متعلق بیداری کا جہاں راست تعلق ہے، وہیں حکومتی سطح پر فراہم کی گئی طبی سہولیات کا بھی بڑا اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض آدی باسی علاقوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔ یہی بات عالمی سطح پر پائی جانے والی صورت حال سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ خواتین کے درمیان محض صحت سے متعلق بیداری پیدا کرکے اور بچوں کے درمیان مناسب فاصلے کی حکمت سے ہی آگاہ کرکے ایک لاکھ سے زیادہ خواتین کو صحت مند اور محفوظ زچگی کا سفر کرایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں خواتین کی عام صحت کا معاملہ بھی کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ یہاں ۳۳فیصد سے زیادہ خواتین باڈی ماس انڈیکس یا جسمانی حالت نارمل سے کم ہے جبکہ انیمیا یا خون کی کمی کے معاملات 56.2 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ چنانچہ زچگی کے دوران مرنے والی ۵۰ فیصد خواتین کی موت کا سبب بہ کثرت خون بہ جانا ہوتا ہے۔ غریب اور دلت خاندان اپنی غربت و جہالت کے سبب اس کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں مرنے والی خواتین میں ۲۵ فیصد دلت خواتین ہوتی ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم Save the Childrenنے ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ۷۷ ممالک کا تذکرہ ہے۔ ان میں ہمارے ملک ہندوستان کا مقام ۷۳واں ہے۔ اسٹیٹ آف دی ورلڈ مدرز ۲۰۱۰ء نامی رپورٹ کے مطابق حیرت زدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا مقام تشدد کی آگ میں جل رہے افریقی ممالک، کینیا اور کانگو سے بھی نیچے ہے۔ پڑوسی ملک چین ۱۸ویں نمبر ہے۔ سری لنکا ۴۰ویں نمبر پر اور بنگلہ دیش جیسا غریب ملک ۱۴ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ سویڈن ان ممالک میں سب سے اوپر اور افغانستان سب سے نیچے ہے۔
ایسا کیوں ہے؟
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ غربت اور جہالت اپنے آپ میں ہزار امراض کی جڑ ہیں۔ مگر یہاں معاملہ صرف غربت و جہالت ہی کا نہیں بلکہ ایک طرف تو سماجی بے حسی کا ہے اور دوسری طرف خود خواتین کی جانب سے صحت کے لیے برتی جانے والی لاپرواہی کا بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی صحت کی فکر مردوں کو کم ہی ہوتی ہے اور اس سے بھی کم خود خواتین کو۔ اس میں جہاں مردوں کی ذمہ داریاں ہیں وہیں خواتین کی بھی۔
ہم اپنے سماج اچھے اور خوش حال خاندانوں میں بھی اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ مرد حضرات خواتین کی صحت کو لے کر فکر مند اور حساس نہیں ہوتے اور اچھے اچھے اور تعلیم یافتہ گھروں کی خواتین کا معیارِ صحت انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ یہ بات بھی بکثرت نظر آتی ہے کہ خواتین خود بھی اپنی صحت کے لیے حساس اور بیدار نہیں ہوتیں۔ تعلیم یافتہ خواتین اور لڑکیاں صحت کے سلسلہ میں مطالعہ اور معلومات حاصل کرنے کا شوق نہیں رکھتیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سماج کی خواتین نے خودکو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور وہ ’’جو کچھ ہے‘‘ اس پر مطمئن ہیں۔ یہ کیفیت تبدیل ہونی چاہیے اور کم از کم تعلیم یافتہ لڑکیوں اور خواتین کو اپنے معیارِ صحت کو نہ صرف خود بہتر بنانے کی فکر کرنی چاہیے بلکہ سماج ومعاشرے میں صحت بیداری کا پیغامبر بننا چاہیے۔
خواتین کی یہ صورت حال جو اعداد وشمار کے ذریعے سامنے آتی ہے ایک عالمی سماجی مسئلہ ہے۔ سماجی مسئلہ اس حیثیت سے کہ ایک عورت کی زچگی کے دوران موت صرف اسی کی موت پر منتج یا ختم نہیں ہوتی بلکہ پیدا ہونے والے بچے کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔ جن بچوں کی مائیں دورانِ زچگی موت کا شکار ہوجاتی ہیں ان میں شرح اموات ۰ء۷ فیصد پائی گئی ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ ماں نہ ہونے کے سبب بچے کی مناسب دیکھ بھال، پرورش اور غذا وغیرہ کو حل کرنا آسان نہیں چنانچہ ایسے بچوں کے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
حل کیسے نکالا جائے؟
مسائل، ان کی نوعیت اور اسباب ہمارے سامنے واضح ہیں۔ حکومتیں اپنی سطح پر کام کرتی ہیں اور یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حکومتی نظام اپنی پیچیدگیوں اور خاص طور پر ہندوستانی نظام کے تناظر میں کرپشن اور بے ایمانی کے سبب بہت سارے مسائل موجود ہیں۔ مگر صرف حکومتوں کو الزام دے کر ہم ان لاکھوں خواتین کی زندگیوں کو تو نہیں بچاسکتے اس کے لیے سماجی اور انفرادی سطح پر بھی کچھ کرنا ہوگا۔ اور اس میں بنیادی چیز ہے خود خواتین کا اپنی صحت کے لیے بیدار اور حساس ہونا۔ اسی طرح اس ذہنی دائرے سے نکلنا کہ ’’جو کچھ ہے ٹھیک ہے۔‘‘ بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد آگے کے مراحل شروع ہوتے ہیں۔
اس سلسلہ میں جہاں بیدار مغز اور جذبۂ خدمت سے بھر پور رضا کار خواتین کی ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سماج خود اس کی ضرورت کو محسوس کرے۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ براہِ راست سماج اور افراد کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔
ہمارے خیال میں خواتین کو اس صورتِ حال سے نجات دلانے کے لیے جہاں قومی سطح پر حکومتوں کے اقدامات ضروری ہیں وہیں خواتین کو اس قابل بنانا بھی ضروری ہے کہ وہ ان اقدامات سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنیں اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔ سرکاری نظام کے سر پر مسلط ہوکر فسادی ذہنیت کے صحت کارکنان پر شکنجہ کسنے کا عزم کریں اور عصرِ حاضر میں حکومتی نظام میں بڑھتی شفافیت سے بھی فائدہ اٹھائیں۔
اس کے علاوہ درج ذیل کام انجام دیے جاسکتے ہیں:
٭ سماج کے بیدار مرد و خواتین اور صحت کارکنان رضا کارانہ طور پر دیہی علاقوں میں بطور خاص خواتین کے درمیان صحت بیداری کی مہم چلائیں اور مسلسل چلائیں اور دیسی انداز کے ان طریقوں سے خواتین کو واقف کرائیں جن کے ذریعہ وہ معیارِ صحت کو بہتر بناسکتی ہیں اور انیمیا جیسی بیماری پر قابو پاسکیں۔
٭ ہمارے سماج میں خواتین کی صحت سے متعلق مسائل پر مائیں بھی اپنی بیٹیوں اور بہوؤں سے کھل کر گفتگو نہیں کرپاتیں۔ یہ رویہ بدلنا چاہیے اور ماؤں کو سوچنا چاہیے کہ بحیثیت ماں اپنی بہو یا بیٹی کی ضروری رہنمائی فرض ہے اور انہیں یہ فرض بہرحال ادا کرنا ہے۔
٭ پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ خواتین صحت عامہ سے متعلق ضروری لٹریچر کے مطالعے کی فکر کریں۔ خود واقفیت حاصل کریں اور دوسروں کو واقف کرانے کی کوشش کریں اس لیے کہ ضروری معلومات اور واقفیت بھی ان خطرات کو بہت کم کرسکتی ہیں جن پر بحث کی گئی۔
٭ خواتین کی صحت کو لے کر مردوں کا رویہ بھی تبدیل ہونا ضروری ہے، اور انہیں بھی خواتین کی صحت کے لیے حساس اور فکر مند ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر وہ خود بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
——