عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لِرَجُلٍ وَ ھُوَ یَعِظُہٗ: ’’اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَ صِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ، وَ غِنَائَ کَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَ فَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَ حَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ۔‘‘
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کی آمد) سے پہلے غنیمت سمجھو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو مرض سے پہلے، دولت اور تونگری کو فقر و احتیاج سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘
احادیث میں آیا ہے کہ جب تک صحت و تندرستی اور فرصت کے اوقات حاصل ہیں، آدمی انھیں غنیمت سمجھے، ان کی قدر کرے اور اس دھوکے میں نہ رہے کہ یہ دولت گراں بہا ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وہ نہیں جانتا کہ کب صحت جواب دے جائے اور کب لمحات فرصت چھن جائیں۔ تب وہ بہت سے نیک کام نہیں کر پائے گا اور حسرت اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
حدیث میں ’’غنیمت‘‘ کا لفظ اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ نعمتیں انسان کو سعی و جدوجہد کے بغیر مفت میں مل گئی ہیں، اسی لیے وہ ان کی قدروقیمت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن جب یہ یکے بعد دیگرے چھنتی چلی جائیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کتنی گراں مایہ تھی اور کس بے خبری اور غفلت میں ضائع ہوتی چلی گئی۔lll