پانی ہمارے لیے قدرت کااتنا بڑا انعام ہے کہ ہم اس کی افادیت کا شاید پوری طرح اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اگر روئے زمین پر پانی نہ ہو تو زمین پر جانداروں کا وجود صرف چند دنوں میں ختم ہوجائے۔ پانی ہماری زندگی کا ضامن ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ پانی زندگی ہے۔
قدرت نے ہمارا جسمانی نظام اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس کو کام کرتے رہنے کے لیے پانی کی باقاعدہ فراہمی ضروری ہے کیونکہ یہ پانی ہی ہے جس کے باعث غذا ہمارے جسم میں پہنچنے کے بعد جزو بندن بنتی ہے۔ اس غرض سے متعدد کیمیائی ردعمل ہوتے ہیں۔ غذا تو توانائی میں تبدیل ہوکر جسم کے ایک ایک حصے کو کام کے قابل بنائے رکھتی ہے اور ناکارہ اجزاء پسینے ، فضلے اور پیشاب کی صورت میں جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ایک دن میں دو لیٹر پانی ہمارے جسم سے پسینے اور پیشاب کی صورت میں خارج ہوجاتا ہے۔ اس کی کمی پوری کرنے کے لیے ہمیں پیاس لگتی ہے جو احساس دلاتی ہے کہ جسم کو مزید پانی درکار ہے۔ چونکہ جسم پانی کا ذخیرہ کرکے نہیں رکھ سکتا اس لیے جسم سے خارج ہوجانے والے پانی کی جگہ مزید پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پانی کی اہمیت موسم گرما میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ ٹھنڈا پانی جب منہ کے راستے معدے اور آنتوں میں پہنچتا ہے تو ہمیں اس وقت ایک لطیف اور فرحت بخش احساس ہوتا ہے۔ پانی ہمارے دماغ کی نازک جھلیوں کو نرم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پانی ہمارے جسم کا درجہ حرارت برقرار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پانی کا اپنا درجہ حرارت آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا ہے پانی کو گرم کرنے کے لیے اچھی خاصی حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ پانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے مائع سے گیس کی حالت میں آنے کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت ہمارے جسم سے بے کار مادوں کے اخراج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ہمیں جو پسینہ آتا ہے وہ ہماری جلد کے مساموں کے ذریعہ سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہ پسینہ آبی بخارات بن کر ہوا میں شامل ہوجاتا ہے۔ جوں ہی پسینہ آبی بخارات بنتا ہے جسم سے حرارت جلد کے ذریعہ سے خارج ہوجاتی ہے۔ ایک لیٹر پسینے کو آبی بخارات بنانے کے لیے ۶۰۰ کلو کیلوریز خارج ہوتی ہیں۔ اگر پسینہ سادہ طریقے سے جلد سے خارج ہوجاتا اور محض ہمارے کپڑوں کو بھگودیتا تو ہمارے جسم کا درجہ حرارت برقرار رہنے اور اسے ٹھنڈا کرنے میں کوئی مدد نہ ملتی۔
پانی ہمارے جسم کو ناکارہ اور غیر مطلوب اجزا سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے جسم میں بہت سے بے کار اجزاء پانی میں حل ہوجاتے ہیں اور اس طرح پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ان اجزاء میں ایک اہم مرکب یوریا ہے جو لحمیات (پروٹین) کے ہضم ہونے کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور اس میں نائٹروجن ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ہم جتنی کلو کیلوریز (حرارے) توانائی خرچ کرتے ہیں ہمیں اتنے ہی ملی لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا جسم مختلف مشروبات (چائے، شربت، دودھ وغیرہ) کی صورت میں روزانہ ایک لیٹر پانی حاصل کرلیتا ہے۔ غذاؤں کے باعث مز ید ایک لیٹر پانی مل جاتا ہے۔ مثلاً ٹماٹر میں پانی کی مقدار ۹۵ فیصد ہوتی ہے اور انناس میں یہ مقدار ۸۰ فیصد ہوتی ہے۔ خود ہمارے جسم میں غذاؤں کو ہضم کرنے اور جزو بدن بنانے کے عمل میں ۳۵۰ ملی لیٹر پانی حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے گردے بھی پانی بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جسم کا پانی گردوں کی چھلنی میں پہنچتا ہے تو ۹۷ فیصد پانی دوبارہ جذب ہوجاتا ہے اور صرف تین فیصد پانی کو مضر اور بے کار اجزاء کے ساتھ آگے یعنی پیشاب کی تھیلی میں جانے کی اجازت ملتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے ہماری حفاظت اور ہمارے جسم کو مستعد اور چاق و چوبند رکھنے کے لیے کس قدر عمدہ اور حیرت انگیز انتظامات کر رکھے ہیں۔
غذاؤں اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے پانی کے علاوہ ہمیں چاہیے کہ روزانہ آٹھ سے دس گلاس پانی ضرور پیا کریں۔ یہ پانی کھانا کھانے کے دوران میں یا کھانا کھانے کے فوراً بعد نہ پیا جائے بلکہ درمیانی وقفوں میں پیا جائے۔ روزانہ صبح اٹھ کر کلی کرنے کے بعد چار گلاس پانی پینا بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر آپ جسمانی کھیل یا ورزش کے عادی ہیں تو آپ کو پانی پینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسرے مشروب کے مقابلے میں سادہ پانی آپ کے جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا۔ آپ کو ورزش کے دوران میں ہر بیس منٹ بعد کم از کم چوتپائی لیٹر پانی ضرور پینا چاہیے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں ورزش سے چند لمحے قبل پانی پینا مفید ہے۔ پانی میں نہ تو کوئی توانائی ہوتی ہے نہ شکر لیکن پانی آپ کی بھوک کو کم کرسکتا ہے۔ پانی کی وجہ سے آپ کے جسم میں موجود زائد چکنائی جزوِ بدن بنتی ہے اور آپ کے عضلات (مسلز) ٹھیک طرح کام کرتے رہتے ہیں۔