پانی کا کاروبار

ذکی انور

صرف سیٹھ یا صرف کھونٹی والا کہہ کر بھی کسی کو پکارا جاسکتا ہے۔ یعنی سیٹھ یا کھونٹی والا بھی نام ہوسکتے ہیں۔ اور اس اعتبار سے چاول، گیہوں، گڑ، بناسپتی، سیاہ مرچ، دوائیں اور سائیکل کی ٹیوب وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کے علاوہ اس نے انسانی ناموں کا بھی ذخیرہ جمع کررکھا تھا۔ اور اس کا پورا نام تھا سیٹھ بھگت رام بھگوان داس کھونٹی والا۔

وہ اب کھونٹی والا تو سرے سے نہیں تھا، اس کے دادا پردادا کھونٹی بیچتے ہوں تو یہ الگ بات ہے۔

بھگت رام اور بھگوان داس میں سے وہ بھگت رام تھا یا بھگوان داس اس کا سراغ لگانا کچھ آسان کام نہیں۔

ہاں وہ سیٹھ بہرحال تھا۔ لہٰذا پورے نام کی الجھن سے بچنے کے لیے لوگ اسے سیٹھ جی، سیٹھ صاحب یا پھر بڑے پیار سے سیٹھ اور صرف سیٹھ کہا کرتے تھے، یا پھر اس کے بعض خوشامدی ملازم اسے نگر سیٹھ کہہ کر پھلادیا کرتے تھے۔ملازموں میں سے کچھ باس، کچھ مالک اور کچھ سرکار کہتے تھے۔

میں نے اس کے ہاں کی ملازمت بڑی مشکل اور دوڑ دھوپ کے بعد کمرشیل ٹیکسز کے ایک افسر کو پچاسی ہزار روپے رشوت دے کر حاصل کی تھی۔ ریٹ تو اس افسر کا پورے ایک لاکھ تھا اور اسی اعتبار سے بھائی جان نے مجھے ایک لاکھ روپے عنایت بھی کیے تھے۔ لیکن میں نے اپنی چرب زبانی سے ایک دوسرے کمرشیل ٹیکس افسر کی بہت زیادہ شکایت کرکے اسے لوٹ لیا تھا۔ اور پچاس ہزار روپے سے چل کر پچاسی ہزار میں بات پکی کرلی تھی۔ اور پندرہ ہزار روپے میں نے بچالیے تھے، لیکن اب ان پندرہ ہزار کے اخراجات کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا۔ کہنے کی بات صرف اتنی ہے کہ سیٹھ بھگت رام بھگوان داس کھونٹی والا کی فرم میں میری ملازمت بہت قیمتی اور اہم تھی۔ چاول کی قیمت کچھ اس انداز سے بڑھتی جارہی تھی کہ ہم مذاق میں سوچتے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب چاول کے دانے درجن کے بھاؤ سے بکنے لگیں گے۔ ایک آخری سہارا تھا اس امید کا کہ انتخاب میں اگر کانگریسیوں کا پتہ کٹ گیا تو یقینا گرانی ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ کانگریس کے علاوہ باقی تمام جماعت والے ذخیرہ اندوزوں کے گھر میں گھس گھس کر چاول اور گیہوں اور دوسری چیزیں باہر نکال لائیں گے، اور بے شک ساری جماعت والوں نے اپنی انتخابی تقریروں میںیہ وعدہ بھی کیا تھا پھر کیا ہوا؟ اس کا مجھے علم نہیں، کیونکہ سیاست سے میری دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اب میں تقریباً ساری جماعتوں کے پرچم پہچاننے لگا ہوں۔ یا پھر اتنی دلچسپی کہ میں ووٹ دے آیا تھا۔ خلاصہ یہ کہ کانگریسیوں کا پتہ تو اُس بار سچ مچ کٹ گیا اور غیرکانگریسی حکومت قائم ہوگئی۔لیکن چاول اور گیہوں وغیرہ کا بھاؤ اور بھی بڑھنے لگا… اور بڑھتا ہی گیا… اور بھی … اور جس دن سے بھائی جان نے مجھے اپنے ایک دوست سے قرض لے کر کمرشیل ٹیکسز کے افسر کو دینے کے لیے ایک لاکھ روپے دیے تھے اس دن وہ بھابی جان سے خانہ داری کے بارے میں باتیں کرتے کرتے اپنی آنکھیں پونچھنے لگے تھے اور پھر بھابی جان کے پا س سے اٹھ گئے تھے اور کافی دیر تک اپنی میز پر رکھی چھوٹی نوٹ بک پر ماہانہ خرچ کا بجٹ بناتے رہے تھے۔

میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ دوسری ملازمتوں کی طرح سیٹھ بھگت رام بھگوان داس کھونٹی والا کے فرم کی ملازمت ہرگز نہیں چھوڑوں گا، چاہے سیٹھ اپنے گھر جھاڑو لگانے کا ہی حکم کیوں نہ دے۔ کتنی خراب بات تھی کہ اکیلے بھائی جان کمانے والے تھے اور ہم سب دس آدمی کھانے والے، کم سے کم مجھے تو ہاتھ بٹانا ہی چاہیے تھا۔ میں ہٹا کٹا تھا، تندرست تھا اور بی اے کا امتحان دے چکا تھا۔

ایسی کہانیاں آپ نے بھی سنی ہوں گی، میں نے بھی اسی تھیم کی کہانی مختلف پلاٹوں کے ساتھ سنی ہیں کہ ایک آدمی صرف ساٹھ روپیے لے کر گھر سے نکلا تھا کلکتہ، بمبئی، بنارس یا دلّی یا پھر ٹرین میں اس کی ملاقات کسی لاولد سیٹھ سے ہوجاتی ہے اور وہ اسے اپنے ہاں ملازم رکھ لیتا ہے، اور پھر اس کی ایمانداری سے خوش ہوکر اسے کبھی نصف اور کبھی ساری جائداد کا مالک بنادیتا ہے۔ کبھی یہی پلاٹ کچھ یوں ہوتا ہے کہ سیٹھ اولادِ نرینہ سے محروم ہوتا ہے اور اس کی ایک نہایت ہی حسین و جمیل بیٹی ہوتی ہے اور مرتے وقت سیٹھ اپنی بیٹی کو پاس بلا کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتے رہنے کے بعد جلدی سے اپنے چہیتے ملازم کے ہاتھ میں ڈال دیتا ہے اور مرجاتا ہے۔

سیٹھ بھگت رام بھگوان داس نہ لا ولد تھے اور نہ اولادِ نرینہ سے محروم، ا س کے تین بیٹے تھے اور چار بیٹیاں تھیں، لہٰذا نصف یا ساری دولت حاصل کرلینے کا تو خیال ہی فضول تھا۔ البتہ ملازمت میں استحکام کے لیے میں اپنے آپ کو اس کی گڈ بک میں داخل کرنے کی ہر وقت فکر کرتا رہتا تھا۔چنانچہ ملازمت کے تیسرے ہی دن میں نے اسے ’’یور ایکسی لین سی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، اسے انگریزی کی بھی شد بد تھی، لہٰذا بہت خوش ہوا اور بولا:

’’جوان لڑکے ہو تم، میرے ہاں کام میں تو دن رات برابر ہے۔فرصت ورست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن میں تمھیں شام کے چھ بجے چھٹی دے دیا کروں گا، لیکن ایک شرط پر۔‘‘

’’حکم ہو بندہ پرور۔‘‘ میں نے جلدی سے کالج میں چند ہی روزپیشتر کھیلے گئے ایک ڈرامے کے مکالموںکا سہارا لیا۔ ’’اگر عالم پناہ کا حکم ہو کہ میں آسمان کے ستارے زمین میں بچھا دوں تو بندئہ ناچیز اپنی دھن میں ضرور لگ جائے گا، رہی فتح یا شکست تو یہ تو … یور ایکسی لین سی! دراصل نصیبوں کی بات ہے۔ یہ ارمان اپنے دل میں ہرگز نہ رہنے دوں گا کہ دل ناتواں نے مقابلہ ہی نہیں کیا… کون سی شرط ہے جہاں پناہ ارشاد ہو۔‘‘

’’شرط یہ ہے کہ چھ بجے سے نو بجے تک تم میری لڑکی کو انگریزی پڑھا دیا کرو۔‘‘

’’چشمِ ما روشن دلِ ماشاد‘‘میں جھک کر آداب بجالایا۔ ’’میں ابھی درِ دولت کو روانہ …‘‘

’’نہیں۔‘‘ اس نے میری بات کاٹ کر کہا:’’ابھی تو وہ اسکول میں ہوگی، چھ بجے سے نو بجے تک۔‘‘

’’بہت خوب بندہ پرور!‘‘ میں نے جواب دیا اور ایک بار پھر آداب بجاکر اپنی جگہ پر جابیٹھا۔ جہاں میں انکم ٹیکس کو بھیجا جانے والا گوشوارہ پر کرنے کے سلسلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کدھر سے شروع کیا جائے۔ اور کیسے۔ اس قسم کے کاموں کے لیے جو منشی تھا وہ اپنے کام میں بڑا ہوشیار تھا۔ مگر وہ چھٹی پر تھا۔ اور جہاں تک خود اپنی عقل سے بنانے کی بات تھی تو عقل بالکل کام ہی نہیں کررہی تھی۔ اور اپنی تمام تر چرب زبانی، خوشامد، چاپ لوسی اوربٹرنگ کے باوجو دوہ رپورٹ اس قدر ہولناک تھی کہ ہر وقت مجھے اپنی برطرفی کا پروانہ نظر آتی تھی۔

لیکن اس وقت رپورٹ کا بھوت تھکا تھکا سا تھا اور ذہن میں پریوں کا رقص ہورہا تھا۔ سیٹھ کی اس لڑکی کا دیدار پہلے ہی دن ہوچکا تھا جو یتیم خانے کے زنانہ اسکول میں آٹھویں جماعت میں پرھتی تھی، بلا کی حسین تھی وہ اور اسے پڑھانے کا تصور یقینا بے ہوش کردینے والا تھا، لیکن فلکِ کج رفتار نے مجھے کچھ زیادہ دیر تک بے ہوش و مدہوش نہیں رہنے دیا۔ یہ فلک کج رفتار دراصل اصل فرم کا وہ بوڑھا نیپالی دربان تھا جو کمر سے کبڑا اور ٹانگ کا لنگڑا تھا اور جن کا وزن گرام میں کہنا زیادہ مناسب تھا۔ لیکن ہم اسے بہادر کہنے پر مجبور تھے۔ کیونکہ وہ نیپالی تھا۔ البتہ میں نے ا س کی جھکی ہوئی کمر اور لنگڑی چال کی مناسبت سے اس کا نام فلک کج رفتار رکھ دیا تھا اور اس کا یہ نام اردو داں کارندوں کے علاوہ بڑے منشی اور مطلب سمجھ لینے کے بعد نوجوان منیم حکم چند کو بھی پسند آیا تھا۔ اور انھوں نے بتایا تھا کہ بے شک یہی کم بخت کسی کی تنخواہ کٹ جانے ، کسی کی چھٹی نامنظور ہونے اور کسی کی برطرفی کا پروانہ لے کر آیا کرتا ہے۔

ہز ایک سیلنسی نے پھر بلایا تھا۔ میں فلک کج رفتار کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

سیٹھ نے پوچھا: ’’انکم ٹیکس والی رپورٹ بن گئی؟‘‘

یک لخت میرے پاؤں تلے کی زمین سرک گئی۔ لیکن جب میں اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا تو نہایت تیزی سے کہا:

’’جی ہاں بندہ پرور۔ اس وقت یور ایکسی لین سی نے بلوایا تھا، نہیں تو کام کافی آگے بڑھ گیا ہوتا۔ جہاں پناہ کچھ ایسی ہے کہ … دیکھے نا…‘‘

’’میں جانتا ہوں۔‘‘ وہ بولا: ’’اس کام میں تمہیں دقت ہوگی مارو گولی۔ مکر جی چھٹی سے واپس کر بنالے گا۔‘‘

’’لیکن جہاں پناہ‘‘ میں نے فرم اور سیٹھ سے انتہائی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس رپورٹ کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ غالباً پندرہ کو سب مٹ کرنا ہے اور آج گیارہ ہوگئی۔ مکرجی بابو غالباً سولہ تک چھٹی پر ہیں… لیٹ ہوجائے گی۔ تو بڑا غضب ہوگا۔ یہ انکم ٹیکس والے …‘‘

رفتہ رفتہ تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ وہ زور سے ہنس پڑا’’تم نے وقت خریدتے اور بیچتے سنا ہے؟ بیچنے والے وقت بھی بیچتے ہیں اور ہم وقت خریدتے ہیں، تم فکر نہ کرو۔‘‘

’’تو میرا کام؟‘‘ میں نے کچھ اس انداز سے پوچھا جیسے میں بڑا مستعد ہوں اور بے کار رہنا نہیں چاہتا۔ ’’میں کیا کروں گا۔‘‘

’’تمہیں میں بڑے آرام کا کام دے رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’بہت اچھا کام۔‘‘

’’شاید راج کماری جی کو پڑھانا۔‘‘ میں نے ہمک کر پوچھا اور ذہن کی دو پریاں جو اپنی پائل کھول رہی تھیں پھر ناچنے لگیں۔

’’راج کماری کون؟‘‘ اس نے پوچھا

’’میں نوکر ہوں۔‘‘ میں کہنے لگا اور یور ایکسی لین سی آقا ٹھہرے، میں اپنے آقا کی بیٹی کا نام کیسے لے سکتا ہوں۔‘‘

’’اوہو ہو ہو۔‘‘ وہ ہنس پڑا پھر بولا: ’’نہیں جی پڑھائی لکھائی کو بھی گولی مارو۔‘‘

اور میں چونک اٹھا اور ذہن کی ساری پریاں انتہائی بیدردی سے اپنی پائل کھولنے لگیں اور جب وہ رخصت ہوگئیں تو میرے منہ سے بہ مشکل صرف ایک لفظ کیوں نکل سکا جس کے جواب میںہز ایکسیلنسی کافی دیر تک تعلیم نسواں کی خرابیوں کے بارے میں تقریر کرتے رہے اور جب وہ خاموش ہوئے تو میری باری آئی اور میں تعلیم نسواں کی خوبیوں پر روشنی ڈالتا رہا۔ لیکن اس کم بخت کو کچھ بھی نظر نہ آیا اور فیصلہ کن انداز میں اس نے کہا: ’’بکواس۔‘‘

میں نے بکواس بند کردی۔

مجھے جو دوسرا کام سونپا گیا، وہ سچ مچ آرام دہ تھا۔ شہر کے کچھ علاقوں میں واٹر سپلائی کا انتظام نہیں تھا، جب کہ وہا ںکے کنویں مارچ سے خشک ہونا شروع ہوجاتے تھے اور اپریل کے وسط تک چند ہی کنوئیں اس قابل رہتے تھے جو مہینے میں ایک بار نہانے والوں کے کنبے کے لیے مئی تک کام آسکتے تھے۔ مئی کے بعد سارے کے سارے کنوئیں سوکھ جاتے تھے۔ صرف اللہ کا نام باقی رہ جاتا تھا۔ لوگ پانچ میل سے پانی لاتے تھے یا کافی مزدوری دے کر منگواتے تھے۔

سیٹھ بھگت رام بھگوان داس نے شہر کے اکثر علاقوں میں درجنوں چھوٹے چھوٹے فلیٹ بنا رکھے تھے۔ ان فلیٹوں سے کرایہ کی آمدنی تو تھی ہی اب کے جنوری میں سیٹھ نے کیا یہ کہ شہر کے خشک علاقوں کے ہر ایک فلیٹ میں کافی گہرائی تک بورنگ کروا کر ہاتھ سے چلائے جانے والے ٹیوب ویل لگوادیے اور یک لخت سیٹھ نے اپنے فلیٹوں کے کرائے میںکہیں پانچ سو سے دو ہزار روپے تک کا اضافہ کردیا اور کرایہ داروں نے پانی کی تکلیف سے بچنے کے لیے یہ اضافہ خوشی خوشی قبول کرلیا۔

لیکن ٹیوب ویل بنوانے کا جو اصل راز تھا اس سے صرف مجھے آگاہ کیا گیا، کیونکہ محض دو تین دنوں میں ہی میں یقینا اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ اگر سیٹھ لاولد ہوتا تو مجھے اپنی ساری دولت کا مالک بنادیتااور اگر اس کے صرف ایک بیٹی ہوتی تو ہندووادی پارٹی کے انتخابی فنڈ میں ایک کروڑ روپیہ چندہ دینے کے باوجود اس سے میری شادی کردیتا۔

’’غلام آباد مسلمانوںکا علاقہ ہے۔‘‘ وہ مجھے میرا کام سمجھانے لگا۔ ’’پانی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور غلام آباد کے لوگ پانی پانی ہورہے ہیں۔‘‘

موقع بہت اچھا تھا اور میںنے اتنی زور سے سبحان اللہ کہا جیسے میں نے نعرہ لگایا ہو اور پھر اس کی انشا پردازی اور زبان دانی کی مدح سرائی میں میں نے جو زبان درازی شروع کی تو مجھے ہوش نہیں رہا کہ میں نے کون کون سے نام مشاہیر انشا پرداز کے طور پر لے ڈالے تھے۔ غرض کوئی ایسا نام میرے ذہن میں نہیں بچا جسے میں نے اپنے وقت کا بہترین ادیب، شاعر یا انشا پرداز اور زبان داں نہ کہا ہو اور جسے میں نے سیٹھ بھگت رام بھگوان داس کے نزدیک طفل مکتب نہ ثابت کیا ہو۔

لیکن کم بخت نے واسکوڈی گاما کا نام یقینا سن رکھا تھا۔ چنانچہ جب میں واسکوڈی گاما کا ادبیت میں ڈوباہوا ایک بہت ہی مشکل شعر پڑھ رہا تھا اور ابھی میں دوسرے مصرعے کے ہزاروں صبح … ہی کہہ سکا تھا کہ وہ جلدی سے بولا:

’’یہ واسکوڈی گاما تو اپنا ہندوستانی کوی نہیں تھا جی۔‘‘

اور تب میں نے اسے بتایا کہ ایک واسکوڈی گاما ہندوستان میں بھی تھا، جو مشہور پہلوان گاما کا دادا اور اپنے وقت کا بہت بڑا ساہتیہ کار اور کوی تھا۔ اپنی بات کو اور بھی زیادہ سچ ثابت کرنے کے لیے اور اپنی علمی معلومات کی دھونس جمانے کے لیے میں نے اس سے کہا: ’’مثلاً نیوٹن- یہ ایک مشہور انگریز سائنس داں، لیکن ہمارے ہاں بھی ایک نیوٹن تھا جو اورنگ زیب کے دربار میں درباری تھا اور اپنے زمانے کا استاد شاعر تھا… چانکیہ نے اپنی کتاب میں ہندوستانی نیوٹن کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا نام نوتن لکھا ہے، چنانچہ فلم اسٹار نوتن نے چانکیہ خاندان کے آخری تاجدار ابنِ بطوطہ پر بمبئی ہائی کورٹ میں دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔پتہ نہیں پھر کیا ہوا… غرض یہ یور ایکسی لینسی کہ اگر آپ اپنا بزنس تج دیں اور کتابیں لکھنے لگیں تو ہزاروں روپے سالانہ آپ کو رائیلٹی ملے … سبحان اللہ، سبحان اللہ … کیا زبان دانی ہے… کیا بندش ہے… پانی کے بغیر پانی پانی … بہ خدا ہزاروں روپے کی نہیں لاکھوں روپے کی رائیلٹی …‘‘

’’بچے ہو تم۔‘‘وہ ہنس پڑا۔ ’’نوجوان! لاکھ دو لاکھ کا بزنس بھی کوئی بزنس ہوتا ہے؟ خیر چھوڑو ان باتوں کو … دیکھو غلام آباد میں پانچویں سڑک پر ساتواں فلیٹ اپنا ہے وہ خالی ہے۔ تم اپنا ڈیرہ ڈنڈا وہیں جمالو جب کرایہ دار آئے گا، دیکھا جائے گا۔

’’پھر؟‘‘ میں نے پوچھا

’’وہاں…‘‘ وہ سمجھا کر کہنے لگا۔ تم ایک کام کرنا… تم مسلمان ہو اور وہ علاقہ مسلمانوںکا ہے۔ لوگوں سے ملو۔ سارے لوگ پانی کے بغیر پریشان ہیں۔ ان سے پانی کی قیمت کا معاملہ کرلو۔ میرا خیال ہے دس روپے فی بالٹی لوگ آسانی سے دے دیں گے۔ یا پھر جیسا مناسب دیکھنا۔ تم تو کافی ذہین اور سمجھدار ہو۔ جو آدمی ہمارے جس فلیٹ سے پانی لینا چاہے اس فلیٹ کے کرایہ دار سے اسے ملادو اور ہر شام کو کرایہ دار سے پیسے وصول کرلو۔ ہاں کرائے داروں کو اتنی سہولت دے دو کہ وہ اگر چاہیں تو ایک بالٹی کے بارہ روپے بھی وصول کرسکتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ نہیں ورنہ گاہک بھڑک جائیں گے۔ تمہارا اصل کام یہ چیک کرنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ فلیٹ کا کوئی کرایہ دار پچاس بالٹی پانی بیچے اور تمھیں قیمت کم دے… خلاصہ یہ کہ میرے اندازے کے مطابق سات ہزار کی آبادی کے اس علاقے میں کم از کم دو لاکھ روپے کا روزانہ پانی بک سکتا ہے… جاؤ تم بھی کیا یاد کروگے کہ کسی سیٹھ سے واسطہ پڑا تھا۔ جاؤ نوجوان میں تم سے بے حد خوش ہوں اور تمہیں پونے دو لاکھ روپئے روزانہ پر ٹھیکہ دیے دیتا ہوں۔ یعنی جتنی بھی آمدنی ہو، تم صرف پونے دو لاکھ مجھے دوگے باقی تمہارا … اور ہاں تمہاری تنخواہ اپنی جگہ پر…‘‘

وہ بڑے غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ لیکن میں اس وقت صرف یہ سوچ رہا تھا کہ ایک اکیلے بھائی جان اور ہم دس کھانے والے اور اس سوچ کے بعد جو دوسرا خیال میرے ذہن میں آیا وہ پچاسی ہزار روپے کا ملال تھا جو میں نے کمرشیل ٹیکسز کے ایک افسر کو دیے تھے اور میرا تیسرا خیال ادھورا سا تھا۔

’’اگر پانی کا ہی دھندہ قسمت میں لکھا ہے تو…اگر پانی کا ہی دھندہ قسمت میں لکھا ہے تو… اگر پانی کا ہی دھندہ…‘‘

اس سے آگے سوچ کا دروازہ بند تھا اور وہ دروازہ میری بی اے کی اُس ڈگری سے بند تھا جو ابھی مجھے ملی نہیں تھی۔

بے شک وہ دروازہ بے حد مضبوط تھا، جسے توڑنے میں مجھے دو راتیں لگ گئیں۔ لیکن میں بہرحال دروازہ توڑ دینے میں کام یاب ہوگیا۔

دروازے کے اس پار اصلی دنیا تھی، جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ دنیا محنت کشوں کی دنیا تھی۔ کوئی لوہا پگھلا رہا تھا، کوئی لوہا کاٹ رہا تھا۔ کوئی رکشہ چلا رہا تھا، کوئی بچوں کو پڑھا رہا تھا، کوئی کہانیاں لکھ رہا تھا۔ سب اپنی اپنی محنت میں مگن تھے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ پانی ڈھو رہے تھے۔

اور میں بڑی حسرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی کسی کا نوکر نہیں تھا۔

اور یہ میری گیارہویں کھیپ ہے۔

میرے پاس سائیکل کے ٹائر کی ایک گاڑی ہے جس پر پانی کے نو کنستر آتے ہیں اور پوری ایک گاڑی پانی پہنچانے کے مزدوری پچاس روپئے ہے۔ اور اس وقت میری جیب میں پانچ سو روپے آچکے ہیں، لیکن آج میں کم سے کم بیس پھیرے لگاؤں گا۔ کیونکہ مجھے بھابھی اور بچوں کے لیے مٹھائی بھی تو لے جانی ہے۔

ہم سب کے لیے آج بڑی خوشی کا دن ہے۔

میں نے بی اے پاس کرلیا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں