پاکباز اور اطاعت شعار بیوی جنت کی مستحق

منیر قمر، سعودی عرب

معاشرہ جن مختلف عناصر سے مل کر بنتا ہے ان میں سے ایک اہم ادارہ ہمارا اپنا گھر ہے اور کسی گھر میں جو لوگ بستے ہیں ان میں سے دو اہم افراد میاں اور بیوی ہیں۔ ان دونوں کے باہمی تعلقات کا اثر نہ صرف یہ کہ ایک گھر یا اس کے افراد پر ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے اجتماعی سکون و اطمینان پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہماری خاندانی اور گھریلو زندگی پُر سکون ہوگی تو اس کا اثر دور دور تک محسوس کیا جاسکتا ہے اور اگر گھر کی مملکت میں امن وسکون نہ ہو تو اس داخلی انتشار کا رنگ آہستہ آہستہ ہمارے پورے معاشرے پر پھیل جاتا ہے۔ تب لوگ دلی سکون اور روحانیت کی تلاش میں ادھر ادھر پاؤں مارتے ہیں مگر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

آج عورت کو نت نئے نعرے دے کراور سبز باغ دکھا کرفطرت سے بغاوت کرنے پر اکسایا جاتا ہے مگر آج بھی عقلمند خواتین ان کے اس دام فریب میں نہیں آتیں کیونکہ وہ دیکھ رہی ہیں کہ عورت کو جو مقام یہ تہذیب دے رہی ہے وہ اس کی توہین اور اس کے ساتھ صاف ظلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق و مغرب ہر جگہ کی خواتین اسلام کی طرف تیزی سے آرہی ہیں۔ اور یہ وہ خواتین ہیں جو اپنے معاشرہ کی تعلیم یافتہ اور مہذب خواتین تصور کی جاتی ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ خواتین جب آج کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں خواتین کی حالت زار کو دیکھتی ہیں اور پرانی تہذیبوں اور مذاہب میں خواتین کے مقام و مرتبہ کو دیکھتی ہیں تو ان کی نظر فوراً ہی اسلام پر ٹک جاتی ہے۔ اور یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ جس عورت ذات کو عار سمجھا جاتا تھا اور پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اسلام نے اس کے بارے میں بتایا کہ عورت اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ اگر بیٹی ہے تو جنت کی ضمانت ہے اور اگر بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی چیز اور بڑی نعمت ہے۔ حضرت طلحہ بن معاویہ سلمی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے سامنے جہاد کی خواہش ظاہر کی تو آپ ﷺ نے پوچھا ’’کیا تمہاری ماں زندہ ہے‘‘ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی خدمت میں لگے رہو۔ اس کے پاؤں تلے جنت ہے۔‘‘

عورت اگر بیٹی یا بہن ہے تو ان کی صحیح اسلامی تربیت جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے : ’’جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو قرابت دار لڑکیوں کے نان و نفقہ اور لباس اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل کے ساتھ غنی کردیا۔ وہ دونوں اس کے لیے جہنم کی راہ میں دیوار بن جائیں گی۔‘‘ ایک روایت میں ارشاد ہے: ’’جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں جائے گا اور اسے دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے مجاہد فی سبیل اللہ جیسا اجر ملے گا۔

اگر کوئی عورت بیوی ہے تو اس کے بارے میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے۔ (مسلم، نسائی، احمد، عن ابن عمر، الجامع الصغیر للسیوطی) ’’یہ دنیا ایک قیمتی متاع ہے اور دنیا کا بہترین متاع نیک عورت ہے۔‘‘ ریاض الصالحین کے الفاظ ہیں: ’’نیک بیوی دنیا کی سب سے قیمتی اور انمول دولت ہے۔‘‘

خانگی زندگی کو پُر سکون اور خوشگوار بنانے کے لیے اسلام نے ہر ایک کے الگ الگ حقوق و فرائض کی تعیین بھی کردی ہے۔حقوق و فرائض کے سلسلہ میں سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ کسی فرد کے جو حقوق ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کے فرائض ہوں گے یعنی ایک شخص کے فرائض کسی دوسرے کے حقوق بنتے ہیں۔ مثلاً بیوی پر جو حقوق شوہر کے ہیں۔ وہ بیوی کے فرائض ہیں اسی طرح شوہر پر جو ذمہ داریاں بیوی کے سلسلہ میں عائد ہوتی ہیں وہ بیوی کے حقوق اور شوہر کے فرائض ہیں۔ اور پھر ان میں باہمی توازن ہی خوشگوار زندگی اور خوشحال گھریلو ماحول کا ضامن ہوسکتا ہے۔ اگر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض میں توازن برقرار نہ رہے تو پھر اس کے نتائج بھی نظر نہیں آتے۔ ایک شوہر اگر یہ چاہے کہ بیوی تمام حقوق کو پوری طرح ادا کرے اور خود بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتے تو اس نے توازن خراب کردیا۔ جسے اپنے حقوق کا حصول عزیز ہو اسے دوسرے کے حقوق میں بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح اگر ایک بیوی اپنے حقوق حاصل کرنا چاہے تو اسے اپنے فرائض بھی پوری ذمہ داری سے ادا کرنا ہوں گے۔ اس بنیادی اور اصولی نقطہ کو ذہن نشین کرلینے کے بعد اب آئیے انسانی معاشرے کی ان دو اہم اکائیوں کے حقوق و فرائض کا جائزہ لیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۲۸ میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’عورتوں کے لیے معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ (فوقیت) حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کے باہمی مساوی حقوق کا ذکر کرنے کے بعد اجمالی طور پر بھی بتادیا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے اور اس اجمال کی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن پاک کے ایک دوسرے مقام پر فرمادی ہے کہ اس درجہ فوقیت کی وجہ کیا ہے۔ مرد عورتوں پر قوام اس لیے ہیں کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس کا سبب بیان فرمایا کہ ایسا اس بناء پر ہے کہ مرد اُن پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘

جہاں تک لفظ قوام کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں دورِ حاضر کے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قوام ’’اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کی ضـروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو۔‘‘مذکورہ دونوں اسباب فوقیت پر جوشخص بھی ذرا غور کرے اسے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو جو طبعی وفکری اور جسمانی خصوصیات عطا فرمائی ہیں وہ انہی کا حصہ ہیں اور حقِ مہر سے لے کر بیوی اور بچوں کا نان نفقہ یا ان کی ضروریات زندگی کو مہیا کرنا بھی مردوں کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ حاصل ہے۔ کیا یہاں کوئی عجیب بات نظر آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو حقیقت بیان فرما ئی ہے عقلِ سلیم اسے بآسانی تسلیم کرلیتی ہے۔

عہدِ حاضر کی معروف تفسیرِ قرآن ’’المنار‘‘ کے مولف علامہ محمد رشید رضا مصری نے کیا خوب بات لکھی ہے کہ ازدواجی زندگی ایک معاشرتی زندگی ہے اور ہر معاشرے کے لیے ایک سربراہ لازمی ہوتا ہے کیونکہ افرادِ معاشرہ (یا ان کے نمائندوں) کا کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو ایسے میں سربراہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے کا اتحاد پارہ پارہ نہ ہونے پائے اور وہ درہم برہم نہ ہوجائے۔ اسی طرح گھر کی سربراہی کا کسی ایک فرد کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے اور یہ ذمہ داری مرد ہی کا حق ہوسکتی ہے کیونکہ وہ گھر کی مصلحت کو بہتر جانتا ہے اور اپنے مال و قوت سے اس کے نفاذ پر بھی قادر ہوتا ہے۔ شریعت نے بھی عورت کے جان ومال کا تحفظ اور اس کا نان و نفقہ مرد کے ذمے قرار دیا ہے۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے شوہروں کو بار بار اس بات کی تاکید کی کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی و محبت کا معاملہ کریں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے اچھا ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مردوں کو ہمیشہ عورتوں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید فرمائی اور آگاہ کیا کہ وہ تمہاری نگرانی میں ہیں اور ان کے سلسلہ میں تم سے اللہ تعالیٰ کے یہاں سوال کیا جائے گا۔

دوسری طرف اللہ کے رسول نے خواتین کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری کی روش اختیار کریں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے معاملات میں ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کریں گے تو خاندانی نظام جس کی اسلام ہر قیمت پر حفاظت کرنا چاہتا ہے، انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مردوں کو نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول نے عورتوں کو بھی اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کریں۔ ارشاد نبوی ؐ ہے: ’’اگر میں کسی کو یہ حکم دینا جائز سمجھتا کہ وہ (اللہ کے سوا) کسی کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ اسی ایک ارشادِ رسالت مآب ﷺ سے شوہر کے حقوق اور اس کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ آپ ﷺ کے دیگر بکثرت ارشادات ہیں جو شوہر کے حقوق کی تعین کرتے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کا اپنے شوہر کے حکم کی نافرمانی کرنا یا کہنا نہ ماننا، اس کی اطاعت سے سرتابی کرنا، معصیت اور گناہ ہے۔ کیوں کہ نبی ﷺ نے معروف میں اس کے حکم کی تعمیل کی تاکید فرمائی ہے۔

نبی ﷺ نے شوہر کی فرمانبرداری کی سخت تاکید فرمائی ہے اور اس کی ناراضگی کا انجام بتاتے ہوئے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی نمازیں سروں سے اوپر ایک بالشت بھی نہیں اٹھتیں، (یعنی قبول نہیں ہوتیں) ایک ایسا شخص جس نے کسی قوم کی امامت اس حال میں کی کہ وہ قوم اس سے نفرت کرتی ہے۔ دوسری وہ عورت جس نے اس حال میں رات گزاری کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہے اور تیسرے وہ بھائی جو آپس میں ناراض ہوں۔‘‘ (ترمذی)

عورت کو شوہر کے حقوق کا خیال رکھنے کی نبی ﷺ نے بڑی تاکید فرمائی ہے ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ’’کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کا شوہر موجود ہو اور وہ اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے اور کسی ایسے شخص کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے جس کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے اجازت نہ ہو۔‘‘ جو عورت اپنے شوہر کے حقوق کا خیال رکھنے والی اور اس کی اطاعت گزار ہو۔ نبی ﷺ نے ایسی پاکباز عورت کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’عورت جب پنجگانہ نماز کی پابند ہو اور بدکاری سے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجائے گی۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں