پاگل

محمد ریاض

’’سرپر چھوٹی ٹوکری الٹی پہنے، اس پر پتلی چندی چاروں طرف باندھے، اس کے بیچ جھاڑو کی ڈنڈی لگائے برہنہ گھومتا تھا۔ ‘‘وہ ایک پاگل … نہ کسی سے بات کرتا… نہ ہی کسی کی پرواہ کرتا… کسی سے کچھ مانگتا بھی نہیں تھا… بھوک لگنے پر محلہ کے کچرے کے ڈھیر سے جو کچھ اسے مل جاتا چن کر کھالیتا تھا… اس کی برہنگی سے محلے کے بزرگ اور جوان پریشان اور کچھ برہم بھی تھے… کئی بار مارا پیٹا بھی گیا تھا اسے… پاگل ، پاگل کہتے بچے بھی پتھر مار کر زخمی کردیا کرتے تھے اسے، مگر وہ ایسا تھا کئی بار مار کھانے کے بعد بھی اپنے اس برہنہ پن سے باز نہ آیا، بلکہ اپنا لہو لہان چہرہ لیے چپ چاپ وہاں سے اپنی راہ نکل جاتا تھا… کئی بار محلے والوں نے اسے پکڑ کر زبردستی کپڑے بھی پہنائے… مگر یہ کہاں مانتا … تھوڑی ہی دیر بعد ان کپڑوں سے آزاد وہ اپنی دھن میں یہاں سے وہاں گھومتا پھرتا نظر آتا تھا۔

وہ عید کا ہی دن تھا جب … محلہ میں آباد چند تاجروں کے آفس پر صدقہ خیرات لینے والے غریبوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں…

اس پاگل کا گزر جب وہاں سے ہوا … ایک تاجر کی نظر پڑگئی، جھپٹ کر اسے انھوں نے پکڑا… نوکروں کو بلایا… زبردستی اسے نہلایا۔ کپڑے تو نہیں تھے اس وقت مگر ایک بڑی سی چادر اسے اوڑھادی… کھانے پینے کا سامان اور کچھ روپیے اس کے ہاتھوں میں رکھ کر اسے وہاں سے رخصت کردیا…

اس وقت شاید موڈ میں تھا وہ پاگل… اتنا سب کچھ ہوجانے پر بھی اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی… صرف مسکراتا رہا اور وہاں سے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ محلے کے ناکے پر اچانک رک گیا… اس نوجوان بھکارن کو دیکھ کر جو اپنی گود میں ایک شیر خوار بچہ لیے فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی۔ ایک گندی میلی ساڑی اس کے تن پر تھی … جو اس کے جوان بدن کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ گود میں شیر خوار بچہ مسلسل روئے جارہا تھا۔ وہ ہاتھ ماررہا تھا…اس کے سینے کی طرف …بے چاری… اداس چہرے … بکھرے بال… سوکھے ہونٹ لیے… پتھر کے بت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔

وہ غریب تھی … مجبور تھی… بے سہارا تھی … مگر جوان تھی… اور اس کی اسی مجبور جوانی کے نظارے سے محلے کے چند شریف زادے کچھ ہی فاصلے پر کھڑے لطف اندوز ہورہے تھے… جن کی نظریں غریبی اور مجبوری کے پیچھے چھپی اس کی جوانی کو تاڑ رہی تھیں، بچہ روئے جارہا تھا… بالآخر اس نے حرکت کی اوربچہ کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا…

بچہ کے سینے سے لگتے ہی ان شریف زادوں کا ذوق اور بڑھ گیا… یہ لوگ آڑی ترچھی نظریں مارتے اب آپس میں کچھ بڑبڑانے بھی لگے تھے۔

تھوڑی دیر ہوئی… سینے سے منہ الگ کرکے بچے نے پھر بے تحاشا رونا شروع کردیا… بلکتا بچہ اب تیزی سے ہاتھ پاؤں بھی چلانے لگا تھا۔

شاید ماں کے سینے سے لگ کر بھی وہ اپنی بھوک نہ مٹاسکا… وہ مچلنے لگا… بلبلانے لگا…

بچہ کے دوبارہ رونے پر بھکارن کا ضبط بھی ٹوٹ گیا … آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے اور گود میں پڑے ہوئے بچے پر گرنے لگے…

’’اس بھکارن کی مجبوری…‘‘

’’بچہ کی بھوک‘‘ … اور …‘‘ محلہ کے ان شریف زادوں کا کمینہ پن اس پاگل سے دیکھا نہ گیا۔

وہ دوڑ کر آگے بڑھا… اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان اور چند روپئے اس نے اس بھکارن کے آگے ڈال دیے…

اور اپنی وہ چادر جو محلہ کے سیٹھ نے اسے زبردستی پہنائی تھی اتار کر اس بھکارن کو پہنادی… اور روتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں