ایک گاؤں میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ بوڑھا بہت ذہین اور عقل مند تھا۔ ایک بار وہ لمبے سفر پر روانہ ہوا۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد اس کے پاس کھانے پینے کا جو سامان تھا آخر وہ سب ختم ہوگیا۔ اب چلتے چلتے اسے بھوک لگنے لگی تھی اور ساتھ ہی بارش بھی بہت تیز ہورہی تھی جو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔
کچھ دور چلنے کے بعد اسے مدھم سے روشنی دکھائی دی قریب جانے پر پتہ چلا کہ یہ ایک گھر ہے۔ اس نے گھر کے دروازے پر دستک دی تو ایک آدمی نے دروازہ کھولا جو اس گھر کا باروچی تھا۔
بوڑھے نے کہا: ’’بھائی! میں ایک مسافر ہوں لیکن میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور بارش بھی ہورہی ہے۔ اگر تم مجھے تھوڑا سا کھانا کھلادو تو تمہاری مہربانی ہوگی۔
باورچی بولا: ’’کھانا تو میں نہیں کھلا سکتا۔ البتہ تم صرف اپنے کپڑے سکھا لو اور بارش رک جانے پر یہاں سے چلے جانا۔‘‘
یہ سنتے ہی بوڑھا اندر گھس کر چولہے کے پاس بیٹھ گیا۔ چولہے کی تیز آگ سے اس کے کپڑے تو سوکھ گئے تھے لیکن بھوک تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ بوڑھے نے اپنی عقل مندی سے کام لیتے ہوئے باورچی سے کہا۔ ’’بھیا! میں بھی ایک بہت اچھا باورچی ہوں اورمجھے ایک عجیب و غریب اور انوکھے قسم کا سوپ بنانا آتا ہے۔‘‘
باورچی نے جھٹ سے پوچھا: عجیب و غریب سوپ! کس چیز کا سوپ؟‘‘ بوڑھے نے جواب دیا: ’’پتھر کا سوپ۔‘‘ بوڑھے کی زبان سے پتھر کا سوپ سن کر باورچی بہت حیران و پریشان ہوا اور پتھر کا سوپ بنانے کی ترکیب پوچھی۔ بوڑھے نے کہا کہ میں تمہارے سامنے ہی یہ انوکھا سوپ بناکر دکھا سکتا ہوں۔ بس مجھے ایک ہانڈی اور تھوڑا سا پانی لادو۔‘‘
پتھر کا سوپ بنانے کی ترکیب جاننے کی خاطر بے وقوف باورچی نے جلدی سے ایک ہانڈی اور پانی دے دیا تو بوڑھے نے ہانڈی پانی بھر کر آگ پر رکھ دی اور اپنی جیب سے ایک صاف ستھرا پتھر نکال کر، دھوکر اس کو ہانڈی میں ڈالدیا، تھوڑی دیر بعد پانی کو چکھ کر بولا: ’’سوپ تو بڑا مزے دار ہے لیکن اس میں ذرا سا نمک بھی پڑے گا۔‘‘
باورچی نمک لینے اندر گیا تو بوڑھنے نے سامنے میز پر رکھی ہوئی کچھ سبزیاں، ٹماٹر وغیرہ بھی اٹھا کر جلدی سے ہانڈی میں ڈال دیں اور پھر نمک بھی ڈال دیا۔کچھ دیر بعد بوڑھے نے باورچی سے کہا: ’’واہ! کتنے مزے کا سوپ تیار ہونے والا ہے، بس اگر ذرا سا لہسن اور پیاز بھی ڈال دیا جائے تو … واہ… واہ… کیا کہنے!‘‘
بے وقوف باورچی نے پیاز، لہسن بھی لاکر دے دیا اور ساتھ میں کچھ مرچیں وغیرہ بھی لادیں۔ سوپ تیار ہونے ہی والا ہے بس ذرا اس کو چلانے کی ضرورت ہے۔‘‘ لیکن پتھر کے سوپ کی ہانڈی چمچے سے نہیں چلائی جاتی بلکہ یہ سامنے میز پر جو گوشت کا بڑا سا ٹکڑا رکھا ہے اس سے چلائی جاتی ہے اگر تم اجا زت دو تو میں اس سے ذرا ہانڈی چلالوں؟‘‘
باورچی نے بے ساختہ کہا:’’ضرور… ضرور میرے دوست! بے شک لے سکتے ہو! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہوئی بھلا؟‘‘
بوڑھے نے ایک بڑی سی ہڈی اٹھائی جس پر بہت سارا گوشت لگا ہوا تھا اور اس سے ہانڈی کو چلانا شروع کیا، وہ ہانڈی چلاتا جاتا اور باورچی سے باتیں بھی کرتا جارہا تھا۔ باورچی خیالوں میں مگن تھا کہ اگر یہ سوپ واقعی اچھا ہوا تو میں بھی اسی طریقے سے پتھر کا سوپ بناکر لوگوں کو حیرت میں ڈال دوں گا اور لوگ میرا یہ سوپ پینے کے لیے دور دور سے جوق در جوق آیا کریں گے۔ اور دوسری طرف بوڑھا، تھوڑا تھوڑا کرکے باورچی سے کبھی آٹا … دال … مکھن… انڈہ وغیرہ منگا منگا کر ہانڈی میں ڈالتا رہا۔ ان سب چیزوں کے ہانڈی میں ڈالنے سے اب خوشبو بھی بہت اچھی آنے لگی تھی۔
اب بوڑھے کے ساتھ باورچی کی بھوک بھی بڑھتی جارہی تھی۔ ہانڈی کے تیار ہوجانے پر بوڑھے نے کہا کتنے مزے کا سوپ بنا ہے؟‘‘ باورچی نے خوش ہوتے ہوئے کہا: ’’اور وہ بھی… پتھر کا!‘‘
بوڑھے نے کہا : ’’یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے… بلکہ اصل کمال تو میں اب تم کو دکھلاؤں گا یہ کہہ کر اس نے ہانڈی میں سے پتھر نکالا اور اسے دھوکر کہا، دیکھو! یہ پتھر ابھی بھی جوں کا توں موجودش ہے۔‘‘ یہ دیکھ کر باروچی کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ واقعی پورا کا پورا پتھر یونہی موجود تھا۔ اب دونوں نے آدھا آدھا سوپ پیا۔
باورچی کو سوپ خوب مزے کا لگا اور انوکھا بھی! وہ بولا: ’’میں نے ایسا سوپ اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی نہیں پیا۔‘‘
اب بارش بھی تھم چکی تھی اور بوڑھے کا پیٹ بھی خوب بھر گیا تھا اس لیے بوڑھے نے جانے کی اجازت چاہی تو باورچی نے اس کی خوشامد کرتے ہوئے التجا کی ’’میرے بھائی! میرے پاس زندگی بھر کی جمع کی ہوئی کل پونجی ایک ہزار روپئے موجود ہیں، وہ تم لے لو اور اس کے بدلے میں مجھے یہ پتھر دے دو میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔‘‘
باورچی کی بے وقوفی اور کم عقلی پر بوڑھا دل ہی دل میں ہنسا اور ایک ہزار روپئے میں پتھر اسے دے دیا اور چلتے ہوئے سوچنے لگا کہ واقعی عقل بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔‘‘