وقت اپنی فطری رفتار سے گزر رہا ہے۔ موت و حیات کا کھیل ہر لمحہ جاری ہے۔ تہذیب و تمدن آسمان کی بلندیاں چھو رہا ہے۔ مگر گھروں کا پہلا جیسا ماحول میسر نہیں۔ پہلے بی اماں گھر کی جان ہوتی تھیں۔ شام ہوتے ہی بڑی بوڑھی عورتیں بچوں کو لے کر بیٹھ جاتی تھیں۔ بلکہ بچے ہی ان کے آس پاس جمع ہوجاتے۔ بڑی بی کہانیاں سنا رہی ہیں، کبھی گیت سنا رہی ہیں۔ بچوں کا دل بہلا رہی ہیں۔ گھر کی ایک ایک چیز پر ان کی نگاہ ہوتی۔ بچیوں کی خاص طور سے تربیت کرتیں، ان کی نماز درست کراتیں اور اذکار و دعائیں سکھاتیں۔ شرم و حیا کا سبق دیتیں۔ کسی کے سامنے کیا اپنے سامنے بھی سرکھلا دیکھنا پسند نہ کرتیں۔ کھانے پکانے کی خاص تربیت کرتیں۔ پہلے ایک پلیٹ میں مرچ، لہسن ودیگر مسالے رکھواتیں ، ان کو کم یا زیادہ کرتیں پھر سل پر پسواتیں اور بچیوں یا بہوؤں سے کہتیں دیکھتی رہو کیسے سالن بنایا جاتا ہے۔
اسی طرح کہیں شادی بیاہ کی بات چلی یا کہیں قریبی رشتہ داری میں جہاں لین دین کرنا ہوتا کوئی امید نظر آتی تو بس تیاری شروع کردیتیں۔ چھوٹے چھوٹے کپڑے بناکر الگ صندق کے ایک کونے میں جمع کرتی رہتیں اور وقت آنے پر ڈھیروں سامان نکال لاتیں اور تقریب کا کوئی بار گھر پر اچانک نہ پڑتا۔
بجٹ اور معاشیات کا کوئی شعور نہ ہوتا، لیکن پکی فاضلہ ہوتیں، کتنے آدمیوں کو کتنا آٹا یا چاول کافی ہوگا اس کا پیمانہ رکھتیں اور ضرورت کے مطابق اتنے ہی پیمانے بھر کر بنادتیں۔
کہیں دکھ سکھ کی خبر پاتیں تو فوراً وہاں پہنچتی۔ تسلی تشفی دیتیں۔ یہ بوڑھی عورتیں گھر کی ڈاکٹر ی میں بھی پوری ماہر ہوتیں۔ بچے کا پیٹ اپھر جائے تو ہینگ کا لیپ کراتیں، منہ آجائے تو تباشیر اور الائچی خورد کا پاؤڈر بناتیں، نزلہ زکام میں آٹے کے برتن میں پانی ڈال کر گرم کرکے پلادیتیں۔ غرض کہ بہت سے امراض کا خود ہی علاج کرلیتیں اور کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوتی۔
مگر اب یہ سب کہانیاں ہوگئیں۔ بے حیائی پر ٹوکنے والا اب گھر میں کوئی نہیں۔ پردہ رخصت ہی سا ہوگیا ہے۔ گھر کا ایک بجٹ بننا چاہیے کوئی پرواہ نہیں۔ ہر وقت اتنا پکایا جاتا ہے کہ تین وقت بھی ختم نہیں ہوتا۔ صبح سویرے کلام پاک کی تلاوت، گھر آنگن کی صفائی اب دن چڑھے ہوتی ہے۔ کہاں یہ کہ فوراً فجر کے بعد ہوتی تھی۔ بچوں کو قصے کہانیاں سنانا، دعائیں یاد کرانا، ان کو تاریخی واقعات سے آگاہ کرنا، اللہ رسول کی باتیں بتانا اس کے لیے نہ فرصت نہ دلچسپی۔ بچوں کا بستہ اتنا بھاری ہے کہ بچے کے وزن سے زیادہ اور وقت – وہ تو ہے ہی نہیں۔ صبح اسکول، اس کے بعد ہوم ورک، پھر ٹیوشن، ایسی پے در پے مصروفیات ہیں کہ اپنے بارے میں جاننے اور سیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ قرآن شریف اگر کچھ بچے فیشن ایبل طریقے سے سیکھ بھی رہے ہیں تو صحت الفاظی اور روانی سے محروم ہیں۔ بہت کم بچے ایسے ملیں گے جو اردو میں اپنا نام صحیح صحیح لکھ سکیں۔
اب بی اماں جیسی خواتین تو ناپید ہیں لیکن ذرا سا احساس ذمہ داری پیدا کرکے حالات کو بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ گھروں کے اندر جس وقت نظم و ضابطہ آگیا بس سمجھ لیجیے اس ملت کے دن پھر گئے۔ خدا کرے ہماری یہ آواز گھروں کی ضرورت بن جائے۔
——