پردہ اور اسلام

ایم۔ شیزی

اسلام دین فطرت ہے، اس کی تمام تر تعلیمات انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں۔ سلیم اور نیک طبیعتیں انہیں آسانی کے ساتھ قبول کرلیتی ہیں ان پر عمل کرنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوتی بلکہ روحانی سکون میسر آتا ہے۔ اسلام نے انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی اور وقار کا پورا خیال ہی نہیں رکھا بلکہ اسے باعزت اور باوقار رہنے کا طریقہ بھی سکھایا۔ نظامِ الٰہی میں جیسے ہی کسی باوقار مرد و عورت کی عزت و ناموس پر حرف آتا ہے تو اسلام کا قانون تعزیر حرکت میں آجاتا ہے اور مجرم کے لیے عبرتناک سزا جبکہ غیرت مند اور پروقار مومن کے لیے تحفظ ناموس کی خوشیاں لاتا ہے۔ نظامِ الٰہی سے متصف معاشرہ تمام فحاشی، جرائم اور منکرات سے پاک ہوتا ہے۔ خوفِ الٰہی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس پر مبنی معاشرہ میں برائیاں ہی نہیں بلکہ اس کے اسباب اور حرکات کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے۔
دینِ فطرت یعنی اسلام میں پردے کا شرعی حکم بھی نصفِ انسانیت عورت کی عزت و تکریم اور اس کے وقار کو بڑھانے اور اس کی ناموس کی حفاظت کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد عورتوں پر پابندی لگانا یا انہیں مردوں سے کمتر دکھانا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان کو معاشرے کے بد عناصر سے مامون و محفوظ رکھنے کے لیے ہے تاکہ عورت پرسکون ماحول میں رہ کر اپنے خاندان اور معاشرے کی تعمیر کے اہم ترین فرائض کو اسلامی نہج پر پورا کرسکے۔
دورِ جہالت میں انسانی معاشرے میں عورت کی حالت کیا تھی اس کا تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت اور اس کے مقام کی تصویر خود قرآنِ مقدس کی زبان سے واضح ہوجاتی ہے۔ عربی معاشرے میں بچی کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ مال کی طرح عورتوں کی تقسیم ہوتی تھی۔ سوتیلے بیٹے کو باپ کی بیوہ سے شادی کا حق حاصل تھا۔ علم و فلسفہ کے گہوارہ یورپ میں عورت کو انسانو ںکے درجے میں ہی شامل نہیں کیا جاتا تھا، وطنِ عزیز بھارت میں لڑکی کو جل پرواہ یعنی نوزائیدہ بچی کو زندہ ٹوکری میں رکھ کر ندی میں بہا دیا جاتا تھا۔ ستی کی رسم کے تحت عورت کو مردہ شوہر کے ساتھ چتا میں زندہ جلادیا جاتا تھا۔ بیوہ کو شادی کرنے کا حق نہیں تھا۔ سماج میں اس کی حالت قابلِ رحم ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ اس مہذب دنیا میں عورت کی توہین، ذلت اور استحصال کے انتہائی شرمناک مناظر اور ظلم و ستم کی ایسی وحشت ناک اور دل دہلادینے والی کہانیاں موجود ہیں، جنھیں کوئی بھی مہذب، شائستہ اور باشعور انسان سننے کی بھی تاب نہیں رکھ سکتا۔ آج عورت کی عزت، وقار، حقوق اور مساوات کی جو بات کی جاتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام کی دین ہے۔
عورت کا باوقار اور ایسے عادات و اطوار کے ساتھ رہنا جو اسے فتنوں سے دور رکھیں اسی حیا کا حصہ ہے جس کا عورت کو اسلامی شریعت میں حکم دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پرکشش مقامات کو ڈھانپ کر باپردہ رہنا ہی اس کے لیے سب سے بڑا وقار ہے، اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کا ضامن ہے۔
ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا فرض ہے۔ عورت کے پردے کے سلسلے میں اللہ رب العزت کی کتاب مقدس اور نبی رحمت کی سنتِ مطہرہ میں بہت واضح احکام اور ہدایات موجود ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی غلامی، اطاعت اور فرماںبرداری کا اظہار صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری طرح اطاعت کی جائے اور اس کی منع کردہ اشیاء سے پوری طرح پرہیز کیا جائے۔ ساتھ ہی احکام الٰہی کو اپنی خواہشات اور شہوات پر مقدم رکھتے ہوئے اس کے حضور انتہائی خاکساری اور انکساری کے ساتھ طریقۂ محمدیؐ پر عمل کیا جائے۔
پردے کی فرضیت سے متعلق اللہ رب العزت سورۃ النور کی ۳۱ ویں آیتِ کریمہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’اے پیغمبر !مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا سنگار کسی پر ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جواز خود (یعنی بغیر اختیار کے) کھلا رہتا ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کا آنچل ڈالے رکھیں۔‘‘
سورہ احزاب کی ۵۹ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ جب وہ باہر نکلا کریں تو اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں۔ یہ امر ان کے لیے شناخت کا موجب ہوگا تو کوئی شخص ان کو ایذا نہ دے سکے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
۱- حضرت امِّ سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ : ’’جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو انصارخواتین اپنے گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انھوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔‘‘
۲- صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھاتے تو بعض عورتیں بھی آپ کی اقتداء میں نماز کے لیے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں نماز کے بعد وہ اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو راستے میں کوئی انہیں پہچان نہیں سکتا تھا۔‘‘
۳- حضورﷺ نے عورتوں کے متعلق جب یہ حکم دیا کہ وہ بھی عید گاہوں میں جائیں تو وہ کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس چادر نہ ہو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے۔ گویا حضور پر نور حضرت محمدﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں۔ حالاںکہ وہاں جانے کا حکم مردو عورت سب کو ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایسے کام کے لیے جس کی اجازت شرع نے دی ہے بغیر چادر اوڑھے باہر نکلنے کو ممنوع قرار دیا تو ایسے کاموں کے لیے بغیر چادر اوڑھے باہر نکلنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے جن کا نہ شرع میں حکم ہے اور نہ ہی ان کی کوئی ضرورت ہے بلکہ بے مقصد بازاروں، ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں گھومنا پھرنا، مردوں کے ساتھ خلط ملط رکھنا اور تماش بینی کرنا یہ سب بے حیائی، فحاشی اور جنسی بے راہ روی کو بڑھاوا دینے اور فساد فی الارض بننے کا ذریعہ ہیں۔
مذکورہ آیاتِ کریمہ اور حدیثِ نبویؐ سے عورتوں کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا ثابت ہوجاتا ہے لیکن ساتھ ہی قرآنِ مقدس اور سنت مطہرہ سے مردوں پر عورتوں کے اقدام اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر میں مردوں کے لیے بھی احکام اور ہدایات موجود ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور مرد اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔‘‘ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں ان کا زنا ناجائز دیکھنا ہے۔‘‘ غضِ بصر یعنی نگاہ بچانا یا نیچی رکھنا قرآن اور سنت طیبہ سے ثابت ہونے کے بعد مرد کو بھی لازم ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں چونکہ نگاہ بے قابو ہونا ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔
اسلام ہی وہ دین ہے جس نے عورت کو عزت بخشی اس کو احترام و اکرام بخشا۔ مسلمانوں کے دلوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کی ناموس اور عزت کی حفاظت کے لیے مرد میں غیرت پیدا فرمائی۔ غیرت کا یہی وہ مقدس قیمتی جذبہ ہے جو مرد مومن کو عورت کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی شریف کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو شخص اپنے اہلِ خانہ کی عزت کی حفاظت کے لیے کٹ مرے اسے شہید کا درجہ عطا کیا جائے گا۔‘‘ جبکہ مسند کی ایک حدیث میں نبیِ رحمتﷺ نے اس شخص کو ’’دیوث‘‘ قرار دیا ہے جسے اپنے اہلِ خانہ کی بے حرمتی پر غیرت نہیں آتی اور دیوث پر جنت حرام ہے۔ عورت کی ناموس پر حرف آئے تو خود اللہ رب العزت و جلال کو غیرت آتی ہے۔
پردہ اسلامی شریعت کا طرئہ امتیاز ہے اور مسلمانوں کا قابلِ فخر دینی شعار بھی۔ اسلام کی بیٹیوں کو پردے کے سلسلے میں شرمندگی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے فخریہ انداز میں مخالفین پردہ، دشمنانِ حیا اور باطل نظریات کے حامی لوگوں کے سامنے پردے کے فائدے اور برکات اور سماج میں اس کے پاکیزہ اثرات سامنے رکھتے ہوئے اس کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ پردہ سے متعلق پھیلی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔ ساتھ ہی مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین پردے کی برکات اور فائدوں سے مستفید ہوسکیں اور بیمار دل اور بدنیت آوارہ لوگ اسے بری نظر سے نہ دیکھ سکیں۔
یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ پردہ ترقی کی راہ میں کسی بھی طرح سے رکاوٹ نہیں بنتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ پردہ نہ حصولِ علم میں رکاوٹ بنتا ہے اور نہ ادبی مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں، نہ جنگ کے میدان میں مانع ہوا اور نہ ہی خدمت خلق کی راہ میں اور نہ ہی مادی اور روحانی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی۔ اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو کہیں صفیہ بنت عبدالمطلب کے جنگی کارنامے نظر آئیں گے تو کہیں حضرت عائشہؓ علمی و ادبی مقام مرتبہ میں بڑے بڑے جید صحابیوںؓ سے بلندیوں پر دیکھیں گے۔ حفصہ بنتِ سیرین اور ام الدرداء الصغریٰ کا علوم دین سے شغف حیران کردے گا۔ خدمتِ خلق کے میدان میں نہر زبیدہ ایک مسلم خاتون کا ہی رفاہی کارنامہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی، رابعہ بصریؒ کے سامنے وقت کے بڑے بڑے علماء و مشائخ دوزانو نظر آتے ہیں۔ عورتوں کے علمی، دینی، رفاہی اور جنگی کارناموں سے کتابوں کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ جنھوں نے شعائر اسلام، حیا کا ضامن اور عفت و پاکدامنی کی شناخت یعنی پردے میں رہ کر ہی یہ تمام کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
اگر عورت اپنی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق اسلامی احکام شریعت کے تحت عفت و حیاء کے زیور سے آراستہ ہوکر گھر میں رہ کر اپنی اولاد کو ممتا سے سیراب کرتے ہوئے صحیح تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے اپنے فرائض کی ادائیگی کرے تو انشاء اللہ ایک نیک و صالح، بااخلاق، فرمانبردار، مسرور و مطمئن نسل تیار ہوگی جو نہ صرف والدین بلکہ معاشرے اور ملک کی ترقی و تعمیر اور یک جہتی کے لیے ایک بیش بہا نعمت ثابت ہوگی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146