پردہ میری زندگی سے الگ نہ ہونے والا حصہ ہے سابق مصری اداکارہ حنان ترک

ترجمہ: تنویر آفاقی

حنان ترک اپنی نئی زندگی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رسول پاک ﷺکا یہ ارشاد دہراتی ہیں کہ:’’اللہ تعالی جب کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو استعمال کرتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا اس کا استعمال کیا ہے؟ فرمایا:’’اس کی موت سے پہلے اللہ تعالی اس کے لیے عمل صالح کا دروازہ کھول دیتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی اس سے اور اس کے ماحول سے راضی ہو جاتا ہے۔‘‘(مسند احمد)انھیں یقین ہے کہ اللہ تعالی نے بھی ان کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے۔ اسی لیے انھیں تنہائی میں اللہ کے حضور رہنے میں سکون اور راحت محسوس ہوتی ہے، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور ان کے کام آنے میں انھیںخوشی اور راحت ملتی ہے ۔ ان کے بہ قول یہی وہ خیر ہے جس کو اللہ کے رسول ﷺنے یوں بیان فرمایا ہے: ’’جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘ (بیہقی)
ایمان مغازی الشرقاوی، جنھوں نے ان کا انٹرویو لیاہے ،ان سے ملاقات کے وقت کے اپنے تاثر یوں بیان کرتی ہیں:’’جب میں حنان ترک سے ملی تو وہ مجھے ایک انتہائی متواضع اور متبسّم شخصیت نظر آئیں۔ انھوں نے اپنے چہرے پر کسی قسم کا میک اپ نہیں کر رکھا تھا لیکن ان کے چہرے پر نور کی کرنیں عیاں تھیں۔ان کا جلباب (گائون یا برقع)ایسا تھا کہ اس میں سے کچھ نظر آنا مشکل تھا،ا س برقع نے ان کے پورے جسم کو ڈھانک رکھا تھا۔‘‘
اپنا تعارف کراتے ہوئے حنان نے کہا:’’میرا نام حنان حسن محمد عبدالکریم ہے۔ 7؍مارچ 1975ء کو میری پیدائش ہوئی۔ 1991میں پہلی بار ایک فلم میں کام کیا۔دینی زندگی کی طرف واپس آنے اور پردے کو اپنا شعار بنانے اور میری زندگی میں تبدیلی لانے میں کئی اسلامی داعی شخصیات نے کردار ادا کیا ہے۔ کیوں کہ1997ء سے ہی میں دین کی تفصیلات باریکی سے جاننے کی کوشش کرنے لگی تھی، اللہ تعالی کی مرضی اور قرآن کریم کی برکت ہی تھی کہ میں نے بہت سے شیوخ سے استفادہ کیا اور سب نے میری زندگی کو کسی نہ کسی پہلو سے متاثر کیا۔ بعد میں میں شرعی علوم کی تعلیم سے وابستہ ہو گئی اور بعض امہاتِ کتب کا مطالعہ کیا تاکہ میرے علم میں وسعت آسکے اور میں ان کتابوں سے کچھ سیکھ سکوں۔ابھی بھی میں زیر تعلیم ہوں اور اگرچہ میں دوسرے لوگوں سے کافی پیچھے ہوں تاہم مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی اپنی مشیت سے میری مدد فرمائے گا۔‘‘
پردہ شروع کرنے کے بعد اہل خانہ اور احباب کے ردّ عمل کاذکر کرتے ہوئے انھوںنے کہا:’’جس سال میں نے پردہ شروع کیا مجھے یہ اندیشہ لاحق رہا کہ کہیں میں اپنے اس ارادے میں ناکام نہ ہو جائوں، یا ابھی جس کیفیت سے دوچار ہوں۔ وہ بدل نہ جائے، اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں تمام لوگوں ، احباب ہوں کہ دشمن، سے دور ہی رہوں گی۔ میں نے دور ونزدیک سب سے رشتہ منقطع کر لیا اور اپنے بچوں کو لے کر اللہ کے حضورمیں معتکف و متوجہ ہو گئی۔ میں نے خود پر باہر کا دروازہ اس وقت تک بند رکھا جب تک میں اپنی اس نئی زندگی کی عادی نہیں ہو گئی اور جب حجاب اور پردے کی حلاوت سے پوری طرح آشنا ہوگئی تو پھر میں نے باہر نکلنا اور لوگوں سے بات کرنی شروع کی۔اس کے ساتھ ساتھ میں رات و دن اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا بھی کرتی رہی۔ حجاب سے پہلے میں سرگشتہ و گمراہ تھی۔میں بہت بے چین رہتی تھی لیکن بے چینی اور قلق کے اسباب مجھے معلوم نہیں تھے؛البتہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے د وری ہی انسان کو بے چینی اور قلق سے دوچار کرتی ہے۔میرا حال یہ تھا کہ میں راتوں کو بھی سو نہیں پاتی تھی، اس کے لیے مجھے خواب آور دوائوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔لیکن حجاب کے بعد مجھے سکون واطمینان کا احساس ہوا، مجھے لگا کہ حالات اب معمول پر آگئے ہیں۔ اگر چہ اب بھی میں خطا سے پاک نہیں ہوں لیکن میرے اندر کا مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے حضور اس کا سمع و طاعت کا اعلان ہی فطری طور سے اسے اطمینان بخشتا ہے۔ اب میری کوشش اللہ سے قریب سے قریب تر ہونے اور دین کی سمجھ اپنے اندر پیدا کرنے کی رہتی ہے۔میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ مجھے جو کچھ بھی علم حاصل ہے وہ صرف اللہ کے فضل سے حاصل ہے۔لوگوں نے مجھ پر تنقیدیں کرنی شروع کر دیں کہ میں اس عمر میں پردہ کیوں کرنے لگی بڑھاپا آجاتا تو پردہ کر لیتی۔ اس کے جواب میں لوگوں سے یہی کہتی کہ مجھے یہ ضمانت دے دیجیے کہ میں بڑھاپے تک زندہ رہوں گی۔ اگرچہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ لوگ پردے کو کم عمر عورتوں یا لڑکیوں سے کیوں دور رکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر میری عمر کی ضمانت مل جائے اور یہ قطعی طور پر معلوم ہوجائے کہ مجھے ابھی موت نہیں آئے گی تو میں پردہ ترک کر دوں گی۔لیکن ظاہر ہے موت کا وقت کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔گویا حجاب پہننے کی بھی کوئی عمر نہیں ہے۔
کیا پردہ اختیار کرنے کے بعد آزمائشیں بھی آئیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے موصوفہ نے فرمایا:’’پردہ اختیار کرنے کے بعد میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور مجھ سے میرے بچوں کو بھی چھین لیا۔کیوں کہ ان کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کی بیوی پردے میں رہے۔لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کوئی بھی میری زندگی سے پردے اور حجاب کو الگ نہیں کر سکے گا۔ کیوں کہ اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔اس کے لیے میں اپنے بچوں سے بھی محروم کر دی گئی لیکن یہ محرومی بھی زیادہ دن تک نہیں رہی۔اب یہ دونوں بچے کچھ دن میرے پاس رہتے ہیں اور کچھ دن اپنے والد کے پاس۔حجاب کے بعد میری مالی حالت بھی متاثر ہوئی ،کیوں کہ اب میں کام نہیں کرتی تھی۔ لیکن مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجاً وَّیَرزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبْ (الطلاق) ’’اور جو اللہ کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے راہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا۔‘‘ میں نے اپنے سر کو صرف اس لیے ڈھانپ کر رکھا ہے کہ میں اس میں ایمان کی حلاوت اور راحت وسکون محسوس کرتی ہوں اور اسے خوبصورتی کی علامت سمجھتی ہوں ۔ اس میں آزمائشوں کا آنا بدیہی ہے کیوں کہ ہم دارِ امتحان میںہیں ، جنت میں نہیں ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں حنان ترک نے کہا:’’اب ہر معاشرے میں با پردہ خواتین کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ جس کی ایک مثال یہاں برمنگھم کے اس پروگرام میں بھی نظر آرہی ہے۔ میں ہمیشہ یہ بات کہتی ہوں کہ حجاب یا پردہ تو ایک ’یونیفارم‘ ہے۔ کیا آپ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ آپ کا نام ایک مسلم یامومن کی حیثیت سے لیا جائے۔اگر آپ مومن بن کر رہنا چاہتی ہیں تو ضروری ہے کہ آپ اسلام کے دروازے میں اس کے اوامر و احکام کے راستے سے داخل ہوں۔ آپ کے پاسپورٹ میں، آپ کے شناختی کارڈ میں سب جگہ لکھا ہے کہ آپ مسلم ہیں۔اس کا یونیفار م اختیار نہ کرنے کے باوجود بھی آپ نے اپنی شناخت مسلم کی بنا رکھی ہے تو اس کا جرمانہ آپ سے کیوں نہ لیا جائے؟مثال کے طور پرمیںکسی اسکول میں داخلہ اور وہاں سے تعلیم اس وقت حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ میں اس کے قواعد وضوابط کی پابندی نہ کروں، اور اس اسکول کی جو یونیفارم ہے وہی پہن کر نہ آئوں۔اللہ کی مثال اس سے بھی اعلی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو یوں ہی نہیں چھوڑ دے گا کہ آپ مسلم بھی کہلائیں اور اس کے ضوابط کی پابندی بھی نہ کریں۔اس نے آپ کو پردہ کرنے کا حکم دیاہے۔حجاب یہ ہے کہ آپ اپنے سر اور جسم کو غیر مردوں کی نظر سے بچاکر ڈھانپ کر رکھیں۔ حجاب ایسا نہ ہو کہ اس سے اندر کی چیز صاف نظر آئے۔حجاب یا پردے کا مسئلہ بہت واضح ہے لیکن ہم خود ہی اسے گنجلک بنا دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عورت جب ڈھیلا ڈھالا اور پورے جسم کو ڈھک لینے والا لباس پہنتی ہے تو وہ زیادہ خوب صورت نظر آتی ہے۔یہ چیز یوروپ نے محسوس کرلی ہے۔ چنانچہ جب اہل یوروپ نے دیکھا کہ عرب اور اسلامی ممالک میں باپردہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور پردے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے تو انھوں نے اپنے فیشن اور رواج کو اسی کے تابع کرنا شروع کر دیا۔یہ بھی اسلام کی مدد ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اہل یوروپ اس تہذیب کی طرف راغب کرنے میں ناکام رہے جو انھیں بڑی اچھی لگتی ہے تو انھوں نے وہی تیار کرنا شروع کر دیا جو ہمارے لیے مناسب ہے۔حنان ترک ذاتی طور پر اور مختلف فلاحی اداروں کے ذریعے بھی خدمت خلق کا کام بھی انجام دے رہی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے بتایا :’’گزشتہ دنوں ہم دارفور(سوڈان) گئے تھے۔اور ان شاء اللہ وہاں 2009ء کے آخر تک ایک ہسپتال اور مدرسہ تعمیر کردیا جائے گا۔اس کے علاوہ وہاں کے لوگوں میں چھوٹی صنعت کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے بھی ایک ادارہ قائم کیا جائے گا۔
اپنی خواہش اور آرزو کے متعلق انھوں نے بتایا کہ ’’میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اس نے جس طرح مجھے دنیا میں شہرت سے نوازا ہے ، اسی طرح میرا شمار مشاہیرِ اہلِ آخرت میں کر دے ۔ میری آرزو ہے کہ وہ اپنے یہاں مجھے ایسا لقب عطا فرمائے جس سے وہ خوش اور راضی ہوجائے۔‘‘تربیت کے ایک بہت ہی اہمنکتے کو واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ’’میری اور بہن بھائیوں کی تربیت پر اس نہج پر ہوئی کہ جس کام سے روکنا ہوا تو کہا گیا کہ یہ برا کام ، یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حرام بھی ہے۔اسی طرح ہمیں کہیں جانے سے روکا گیا تو کہا گیا کہ وہاں مت جائو ورنہ لوگ ایسا کہیں گے۔لیکن میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پرکرنے میںکامیابی نصیب فرمائے کہ فلاں کام حرام ہے نہ کہ محض برا۔ اسی طرح میرے بچے یہ بھی جان لیںکہ حرام کیا اور حلال کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے۔
(المجتمع:شمارہ:1817)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں