فرانس کی سپرمارکیٹ میں ایک باپردہ عورت خریداری کررہی تھی۔ چیک آئوٹ کائونٹر پر اس نے اپنا سامان رکھا اور اپنی باری کی منتظر تھی کہ چیک آئوٹ پر کھڑی بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی طرف ناراضی سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں روزی کمانے کے لیے آئے ہیں، اپنا دین اور ماضی دکھانے کے لیے نہیں‘‘ وہ بولے جارہی تھی ’’اگر تم اپنے دین پر اتنا ہی عمل کرنا چاہتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جائو۔ وہاں تمہارا جو جی چاہے کرنا۔ نقاب پہنو یا ٹوپی والا برقع… مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لیے خدارا مسائل پیدا نہ کرو۔‘‘
نقاب والی خاتون اس گفتگو پر دم بخود رہ گئی۔ اچانک اس نے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ کائونٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی، کیونکہ اس لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں۔ اس نے کائونٹر والی سے کہا ’’میں فرانسیسی ہوں نہ کہ عرب مہاجر۔ یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں، یہ نسلی دین نہیں کہ تم اس کی مالک ہو۔ مجھے کسی کا خوف نہیں صرف اللہ کا خوف ہے۔‘‘
فرانسیسی نومسلم عورت کے یہ الفاظ اس نام نہاد بے پردہ مسلم لڑکی کے منہ پر طمانچہ تھے۔
اسی لیے تو یورپ کے جدید ترین مفکرین بہ زبانِ قال و حال کہہ رہے ہیں کہ:
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا
اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ ہم نے مغرب کی مرعوبیت میں ان اصولوں کو چھوڑ دیا ہے کہ بنیاد پرست کا لیبل کہیں ہمیں زمانے کی تحقیر کا نشانہ نہ بنا دے۔ مسلمانوں کو تو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ ان کے رب نے اپنے علمِ کامل سے یہ عظیم الشان قانون حجاب عطا کیا، جس سے گھر اور باہر کی دنیا میں وہ سکون، اعتماد اور ایسا خوشگوار ماحول میسر آتا ہے، جو کسی بھی بے حجاب معاشرے کے نصیب میں نہیں ہے۔
اہلِ مغرب کے تجربات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ بے حجابی اور مخلوط معاشرے سے مرد و زن کن بھیانک نتائج سے دوچار ہیں۔
امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہزار عورتوں کے ساتھ روزانہ بالجبر زیادتی کی جاتی ہے اور دو سال سے ۸۵سال تک کی عورت اس ظلم کی شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس جرم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، مخلوط ثقافتی اور تفریحی مجالس بے حجابی کے تقاضے پورے کیے بغیر عمل میں لائی ہی نہیں جا سکتیں۔ یہ مخلوط معاشرت گویا جنسی ہیجانات کے مراکز ہیں جہاں صنفی جرائم اور جنسی جذبات کو شہہ ملتی ہے۔ پاکیزگی کا تصور اجنبی اور شرافت داغدار ہوتی ہے۔ محرم اور نامحرم رشتوں کی لکیریں مٹا دی جاتی ہیں اور بے حیائی کے وہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ کوئی قوم اْس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوتی جب تک مرد بے غیرت اور عورت بے حیا نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تاریخ بتاتی ہے کہ رومی تہذیب نے بہت ترقی کی تھی، مگر بے حیائی اسے نگل گئی۔ ان کے ہاں فلورا کے نام پر بے حیائی کے میلے لگائے جاتے تھے۔ یہ وہ عورت تھی جو ہمیشہ برہنہ رہنا پسند کرتی تھی۔
اسی طرح یونانی تہذیب جو کبھی بڑے عروج پر تھی، وہ بھی بے حیائی کی وجہ سے زوال پذیر ہوئی۔ جس قوم نے بھی اپنی عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ اپنی غلطی پر آخر پشیمان ہوئی ہے۔
آج فرانس، جرمنی، امریکا اور برطانیہ میں خواتین بڑی تعداد میں اسلام کے قانونِ حجاب کی طرف مائل ہورہی ہیں۔ مغرب میں عورت تذلیل سے گزر کر پردہ کی عظمت کو جان سکی ہے، اور اب وہ اپنی مرضی سے حجاب کی پابندی اختیار کرنا چاہتی ہے۔
مغرب کے بے حجاب معاشرے نے عورت کو ذہنی تنائو اور اعصابی امراض میں مبتلا کردیا ہے، جس سے ان میں شرح اموات کا تناسب ہر سال بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق خواتین کی موت کا سبب صنفی پیچیدگیاں ہیں، جس سے خودکشی اور قتل کی وارداتیں عام ہورہی ہیں۔
نفسیاتی امراض کے شفاخانے کھولے جارہے ہیں۔ برطانیہ کا معاشرہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ کہلاتا ہے، لیکن وہاں کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہمارے لوگوں نے معاشی ترقی کی خاطر ایک دوسرے کا احترام، رشتوں کا تقدس، ماحول کی نگہداشت سب کچھ قربان کردیا ہے۔‘‘
ایسے میں عورت کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ دین اسلام کی پوری تعلیم حاصل کرے۔ اپنے حقوق و فرائض اور قانونِ حجاب کی حدود کو جانے تاکہ اس میں حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت ہو۔ ایک تجزیاتی رپورٹ میں قاہرہ یونیورسٹی کی طالبہ 19 سالہ مرویٰ احمد نے کہا کہ نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہوں تاکہ جنسی طور پر ہراساں کرنے والی نظروں سے بچ سکوں۔ نقاب مجھے عزت بخشتا ہے۔
۱۸سالہ آسیہ نے کہا کہ حجاب پہننا بے حد ضروری ہے، خاص طور پر جب آپ ایک مخلوط ماحول میںرہتے ہوں۔ طالبات نے حجاب کے دفاع کے لیے نقاب کو اسلامی ذمہ داری قرار دیا اور یہ کہا کہ اس سے عصمت اور پاکیزگی کا احساس برقرار رہتا ہے۔
مغرب تلخ تجربات سے گزر کر اپنے مستقبل کو درست راہ پر لانے کے لیے اسلام کی تعلیمات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہے۔ ترقیاتی دور میں آج معاشی مسئلہ ہو یا ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ۔۔۔بہبودِ آبادی کا مسئلہ ہو یا سزائے موت میں تخفیف کا مسئلہ۔۔۔ ان گوناگوں مسائل میں حجاب اور مخلوط سوسائٹی کا مسئلہ بھی سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ صحیح ٹریک پر لانے کے لیے اسلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہی بات شہزادہ چارلس نے ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہی کہ آئندہ چند سالوں میں پینے کا پانی اور صاف غذا دستیاب کرنا دشوار ہوجائے گا۔ اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے تو ان اصولوں کی طرف آنا ہوگا جو قرآن نے بیان کیے ہیں۔
گلوبلائزیشن اثرات کا مقابلہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چیلنج کا سامنا اب متوازن بجٹ اور غیرسودی معاشی نظام سے ہی کیا جائے گا۔ نسل کشی صرف مسلمانوں کو اقلیت میں لانے کے لیے تو ہو لیکن مغربی معاشرے میں خاندانی استحکام اور بچوں کی تولید پر سرکاری سطح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مغرب کی روشن خیالی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ مجرموں کے لیے سخت سزائیں دینا دقیانوسیت اور سفاکیت ہے۔
کینیڈا کے ایک اخبار نے اس قانون کی بے بسی کی قلعی کھول دی۔ ایک شخص جو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی عمل کرکے لاشیں دور دراز مقامات پر دفن کردیا کرتا تھا، جب قانون کی زد میں آیا تو پولیس نے مجرم سے کہا کہ لاشوں کی نشاندہی کرے۔ اس نے کہا کہ گیارہ بچوں کی لاشوں کی نشاندہی پر اسے فی لاش دس ہزار ڈالر معاوضہ دیا جائے۔ پولیس نے اس مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس اعتراف ِجرم کے بعد جب مجرم پر مقدمہ چلایا گیا تو چونکہ کینیڈا کے قانون کے مطابق سزائے موت ’’وحشیانہ سزا‘‘ قرار دے کر ختم کردی گئی ہے، اس لیے عدالت نے اسے عمرقید کی سزا دی۔ ان گیارہ بچوں کے ستم رسیدہ والدین نے ایک انجمن (پریشر گروپ) بنائی جس کا نام نشانہ ہائے تشدد رکھا۔ اس نے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ کینیڈا میں سزائے موت کو واپس لایا جائے۔ انجمن کی کثیر حمایتی ممبرز نے اپنا مؤقف ٹھوس انداز میں پھیلا دیا کہ ہم ہار نہیں مانیں گے، کینیڈا میں سزائے موت کو واپس لانے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ایسے درندوں کو سیدھا جہنم جانا چاہیے جو واقعتاً اسی کے مستحق ہیں۔
اللہ کا احسان ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کو خاص اصول و احکام اور قواعد و ضوابط دیتا ہے۔ جو انہیں قبول کرے وہ معاشرہ دنیا کے معاشروں میں امتیازی حیثیت تسلیم کروا لیتا ہے۔ قانونِ حجاب کی تحریک مغرب کی خواتین کی جانب سے بڑی شدومد سے جاری ہے، اور مغربی معاشرہ جلد یا بدیر اسلام کے قانونِ حجاب کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوجائے گا۔ افسوس یہ کہ عالم اسلام کی خواتین امامت کی عظمت سے روشناس نہیں۔lll