’’ہماری شخصیت کا ایک ہی حصہ نارمل ہے یہ وہ ہے کہ ہر انسان نوّے کی عمر گزارنے کے بعد داپنی چھت کے نیچے اپنوں کی حفاظت میں مرنا پسند کرتا ہے۔ ہماری شخصیت کا دوسرا حصہ لگ بھگ پاگل دماغ جیسا ہے۔ اسے رات کے اندھیرے کی بے چینی سے انسیت ہے، اور وہ زبردست تباہی کے ایسے لمحوں میں اپنے گھر کے ادھ جلے کھنڈروں کے درمیان موت کا خواہش مند ہے جو دنیا کو تخلیق انسانی کے ابتدائی دور میں کھینچ لے جاتے ہیں۔‘‘ (بلیک لیمب اینڈ گرے فالکن کا اقتباس)
خود کو مغربی تہذیب کا گہوارہ اور تہذیب کا پیغامبر کہنے والے یورپ میں اسلامی تہذیب کے مطابق برقع پہننے کو لے کر ادھر کچھ دنوں سے جو اچانک طوفان کھڑا ہوگیا ہے اس کے سیاق میں ریبیکا ویسٹ کے اوپر کے الفاظ دوبارہ غور طلب ہیں۔ یو ں تو ہندوستان یا امریکہ کے مقابلے میں یورپ میں ترقی یافتہ ملکوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کا فیصد بہت کم ہے اور آج سے دس سال قبل یا اس سے پہلے تک وہاں مسلم لڑکیوں کے نقاب یا اسکولی لڑکیوں کے اسکارف پہننے پر سخت پابندی کا مطالبہ چند نسل پرست اور سرپھرے لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کرتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں میں خاص کر ۱۱؍ستمبر کے حادثے اور لندن کے بم دھماکوں کے بعد اچانک یورپی سماج کے طاقت ور اور منھ پھٹ اور باقتدار لوگوں کے درمیان اسلام اور اسلامی طرز زندگی کو جمہوریت مخالف اور دہشت گردی کی ماں قرار دینے والوں کی باڑھ سی آگئی ہے۔ جن جمہوری ملکوں کی آدھی سے زیادہ عوام اپنے آپ کو بے دین، عیسائیت سے دور اور مذہبی احکامات اور اصولوں سے الگ بتاتی ہے وہاں اسلام کے برخلاف عیسائیت کو زیادہ جمہوریت پسند اور ترقی پسند و نرم ٹھہرانے کی ضد حیرت ناک چیز ہے۔
اس فرقہ پرستی کی آگ میں برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے یہ لکھ کر اور بھی گھی ڈال دیا ہے کہ انھیں ایسا پردہ تہذیبی و معاشرتی علیحدگی پسندی اور انفرادیت کا اظہار کرتا محسوس ہوتا ہے۔ بات اور بھی آگے تب بڑھی جب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی اس پر دبی دبی آواز میں کہا کہ ’’بات تو غلط تو نہیں کہی جارہی ہے۔‘‘ اور ادھر سلمان رشدی نے بھی برقع کو غیر ضروری قرار دے ڈالا۔ ان بڑے تجربہ کاروں نے اپنے بیان دیتے وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ ان اعلیٰ سطحوں سے اسلامی تہذیب پر سوال اٹھانا پورے یورپ میں خود غرض لوگوں کے ذریعے اسلام کی کھلی مخالفت کو صحیح اور جائز ٹھہرا دے گا اور اسی چیخ و پکار کے بیچ خود غرض کامیاب ہوں گے جبکہ دونوں گروہوں کے نرم رو لوگوں کی آوازیں قطعی دب جائیں گی۔
گودھرا فساد کے درمیان گجرات میں این ڈی اے سرکار نے اقلیتی فرقے کی قربانی دے کر مودی دھڑے کے لیے اکثریتی فرقے کے ووٹوں کی بھر پور فصل بے شرمی سی کاٹ لی تھی۔ ٹھیک اسی ھرح نسل پرستی کی تائید کرنے والی بلجیم کی بنیاد پرست پارٹی بلاس بیلانگ نے بھی پچھلے انتخابات میں ۲۰۰۰ء کے مقابلے اپنے لیے پانچ فیصدزیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
آسٹریا میں بھی بنیاد پرست جماعتوں نے اپنی شہرت بڑھا لی ہے وہ اب تمام ایسے گروہوں کو آسٹریا سے باہر کرنے کی حمایت کررہی ہیں جو وہاں کی تہذیب میں ڈھلنا یا اس سے ہم آہنگ ہونا نہیں چاہتے اور اسلام کے کسی بھی پہلو پر سوال اٹھانے پر لڑائی دنگوں پر اتارو ہوجاتے ہیں۔
انگلینڈ کے اخبار ’’دی ڈیلی ایکسپریس‘‘ نے بھی ایک اخباری سروے میں کہا ہے کہ ۹۷ فیصد برطانوی قارئین کی رائے میں مذہبی طور طریقہ بنائے رکھنے کے لیے اسلامی تہذیب پر سخت پابندی ضروری ہے۔ لیکن آپ کو آزاد اور انصاف پسند کہنے والے ملکوں میں ایسی پابندی لگے گی کیسے؟
کچھ وقت پہلے ڈچ پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر چہرا ڈھکنے والا لباس پہننے پر پابندی لگانے کی رائے کو کثرت رائے سے پاس کردیا اور نیدر لینڈ کے تین شہروں میں اسے نافذ بھی کردیا۔ اس سے ان شہروں کے میونسپل نظام کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ ڈچ تیوہاروں اور ’’بال روم ڈانس‘‘ کے دوران ان کے غیر مسلم شہری جو ماسک پہنتے ہیں انہیں اس قانون سے کیسے چھوٹ دی جائے بالآخر چھوٹ دے دی گئی۔ لیکن شرمناک سچائی بے پردہ ہوگئی کہ سرکار کی نظریں ان کی ڈچ ماسک دھاری رسم تو صحیح ہے مگر ایشیا کی با پردہ تہذیب غلط اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ تو کیا یہ دہرے طریقے ایک آزاد ملک میں صحیح مانے جاسکتے ہیں۔
فرقہ پرستی کی نسل پرست تلواریں جب نیام سے باہر نکلتی ہیں تو شروعات چاہے جہاں سے ہو تو وہ دیر سویر سبھی سبھی الگ الگ نظرآنے والی تہذیبوں کے سر قلم کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں جیسے نیدر لینڈ کے فیلنڈرس علاقے میں اب عوامی جگہوں پر غیر ملکی زبان اور فرنچ بولنے پر پابندی لگانے کی مانگ بھی اٹھنے لگی ہے۔ ایک سے زیادہ یورپی ملکوں میں سکھوں کی پگڑیاں بھی خطرناک علیحدہ تہذیب کا نشان کہہ کر ان پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگرتہذیب کے نام پر یہ پابندیاں صحیح ہیں تو جب مسلم عورتیں اپنی بیٹیوں سے منی اسکرٹ یا جسم کی نمائش کرنے والے کپڑے نہ پہننے کو کہتی ہی تو اسے قدیم روایات کے پیچھے چلنا کیسے سمجھ لیا جائے۔
غور طلب ہے کہ امریکہ اور ورجنیا صوبے کی طرف سے جسم اور اعضائے جسم دکھانے والے تنگ کپڑوں پر مدت سے سخت پابندی لگی ہوئی ہے لیکن اس کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں کوئی اجتماعی طریقہ نافذ نہیں ہوا۔
ایک ترقی پسند فرانسیسی مفکر اور رہنما وولٹیر نے کبھی اپنے مخالفین سے یہ کہا تھا ’’میں تمہاری فکر سے پوری طرح اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی تمہاری شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی پوری حفاظت کروں گا۔‘‘
اسلامی دہشت گردی سے خوف زدہ مغرب آج وولٹیر کی باتوں کے آدھے حصے کا ہی محافظ بنا ہوا ہے۔ یعنی خود وہ اسلامی تہذیب سے متفق نہ ہونے کااظہار تو پورے زور و شور سے کررہا ہے لیکن دوسرے فریق کے غیر متفق ہونے کے جمہوری حقوق کی حفاظت کی کوئی رغبت اس میں نہیں نظرآتی۔ اور جب ذہن اس طرح بٹ چکے ہوں تو چالاک حکمراں محض صفائی دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ آگے چل کر یہ عمل ایک طرف تو اکثریت کو ناراض کرتا ہے اور دوسری طرف شدت پسند جنونی لوگوں کا ’کٹھّ ملاَّ پن‘‘ بڑھاتا ہے اور دونوں طرف کے سمجھدار لوگ حاشیے پر ڈھکیل دیے جاتے ہیں۔ وضاحت و صفائی دینے کا سنسرشپ سے بھی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ادھر مختلف مواقع پر معقول دلائل دینے اور حساس سوال اٹھانے والے لوگ ہر جگہ لگاتار خاموش کیے جارہے ہیں۔
بے شمار کتابیں، آرٹ ورک، ناٹک، ٹی وی چینل اور ویب سائٹس بند ہورہی ہیں اور فنکاروں پر ان کے معاشرے کے شدت پسندوں کے ذریعہ کیے جارہے حملوں کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ صاف گوئی کا سہارا لینے والے افراد اور حکومتوں کو آخیر میں پیاز اور جوتے دونوں ہی کھانے پڑتے ہیں۔
کلنٹن حکومت جو اپریل ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۴ء تک کی مدت میں یورپ میں سرائیوو کے محاصرے کے دوران سربو کے ذریعے ۲ لاکھ بوسنیائی مسلمانوں کے منصوبہ بند قتل پر ’’ہائے ہائے‘‘ کا ناٹک کرتی رہی آخر کار ۲۰۰۴ء میں دو ہفتے کی بمباری پر قاتلوں کے سرغنہ ملوسے وچ کی گرفتاری کا حکم دینے کے لیے ہی مجبور ہوئی لیکن نہ اس سے بوسنیائی خوش ہوئے نہ ہی سرب۔
مشرق وسطیٰ میں اربوں ڈالر اور ہزاروں فوجی جھونک چکی بش سرکار کا بھی یہی حشر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ امن و سکون صرف قانون کے نفاذ سے حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسی جگہوں پر فوجی دستے بھیج کر۔ بلکہ امن و امان کی تنہا ضمانت وہ انصاف ، پورا اور مثالی انصاف ہے جو کہا ہی نہ جائے بلکہ کیا جاتا ہوا دکھائی بھی دے۔
مسلمان بمقابلہ عیسائی، یہودی بمقابلہ عیسائی، شیعہ، بمقابلہ سنی اور سیاہ فام بہ مقابلہ سفید فام یہ خونی لڑائیاں تاریخ میں بار بار ہوتی رہی ہیں اور حادثات گواہ ہیں کہ یکساں انصاف کی غیر موجودگی میں کسی بھی جمہوریت و عزت دار معاشرہ کی بخیہ کمزوری کے ان اوقات میں خود غرض لوگو ںکے ذریعہ برابری و مساوات کو تباہ و برباد کرکے بڑے آرام سے ادھیڑی جاسکتی ہے۔ کیا ہم اب بھی سبق نہیں لیں گے اور کیا ہم مناسب وقت پر بھی سبق نہیں لیں گے۔