حجاب اسلام کا عطا کردہ معیار عزت و عظمت ہے ۔حجاب ہمارا حق ہے، یہ کوئی پابندی یا جبر کی علامت نہیں ہے بلکہ حکم خداوندی ِ ہے اور اس کا پسماندگی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ ہمارا فخر اور وقار ہے۔‘‘
ہیلن جو ایک امریکی خاتون ہے یہ امریکی صحافی خاتون عرب مما لک میں گئی ۔وہ اسلامی معاشرہ میں عورت کے حجاب اور اس کے پاکیزہ مقام سے بے حد متاثر ہوئی ۔ اس نے اس وقت وہاں کے عوام کے سامنے اپنے تاثرات پیش کئے جوحسب ذیل ہیں:
’’ اے عرب مسلمان قوم ! تمہارے یہاں عورت پر ایک حد تک پابندی ہے اور احترام والدین ضروری ہے اور تمہارے یہاں معاشرتی قانون اتنی بہترین بنیادوں پر وضع کئے گئے کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اخلاقی قدریں نشو نما پائیں گی اورصالح معاشرہ وجود میں آئے گا ۔ ہر صنف کو اس کا لازمی حق اور صحیح احترام ملے گا۔اس لئے میں تمہیں یہ نصیحت کرتی ہوں کہ اپنے مذہبی و معاشرتی قوانین کو گلے لگائے رکھو ، اسی پر عمل کرو ،پردہ کو نہ صرف باقی رکھو بلکہ اس کو رواج بھی دو ۔عورت کی مطلق العنان (مغربی طرز کی) آزادی پر پابندی برقرار رکھو ۔ مرد و زن کے بیجا اختلاط سے جو امریکہ اور یورپ سے چلا ہے اپنے معاشرہ کو اس سے پاک رکھو ،یہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اگر اسے چھوڑ کر یورپ کی اندھی تقلید میں اسلامی معاشرتی قانون ختم کروگے اور عورت کو من مانی کی آزادی دوگے تو اخلاقی اور روحانی قدریں پامال ہو جائیں گی اور تمہارا معاشرہ بھی انحطاط و انتشار سے دوچار ہوگا جیسا کہ مغربی دنیا کا حال ہے ۔ ‘‘
عورتوں پر اسلام نے جو پابندیا ں عائد کی ہیں وہ محض معاشرتی و اخلاقی نوعیت کی ہیں ا ن میں حقارت ،سختی ، بے رحمی ، ظلم اور زیادتی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اس کے بر خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بات کی اور ان کو عزت دی۔ دراصل یہ پابندی نہیں بلکہ آسانیاں فراہم کی گئیں ہیں ۔ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان ایک حدمقرر کر رکھی ہے اور جب اور جہاں جس انداز میں بھی یہ حد ٹوٹتی ہے توفتنہ وفساد پربا ہوتا ہے۔ صنفِ نازک کو پاکیزگی کی راہ سے ہٹا کر ترقی کے نام پر دھکیلنا طاغوتی طاقتوں کا ایک زور دار حربہ ہے ۔ابلیس نے سب سے بڑی اور پہلی چال یہی چلی تھی انسان کو فطرت کی سیدھی را ہ سے ہٹا کر اس کے جذبۂ شرم وحیا پر ضرب لگائی اور اب اس کے ایجنٹ مسلسل اسے مختلف شکلوں ،رنگوں اور ڈیزائنوں میں پیش کر ان کے ایمان میں خرابی پیدا کرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ان کے یہاں ترقی کا کوئی کام اس وقت تک مکمل اور کامیاب نہیں ہوتا جب تک عورت عریاں حالت میںاسٹیج پر نہ آ جائے ۔
اکیسویں صدی کے تقاضے مانیں تو اس نے قصبہ،دیہات، گائوں ،شہر اور ہر طرف بے شرمی اور بے حیائی کا بازار گرم کیاہے۔ انٹرنیت اور موبائل نے جس قدر اس میں اہم رول ادا کیا، اس نے دشمنوں کے منصوبے پورے کر دیئے Whats Appاس سے الگ مانا جا رہا ہے لیکن یہ کتنا الگ ہے یا اس کے ذریعے بے حیائی نہیں پھیلے گی اس کی ضمانت کو ن دے سکتا ہے ؟ اب لڑکیاں ماڈل بننے پر فخر محسوس کرتی ہیں ۔اسکول ،کالج اور یو نیورسٹیوں میں بھی ثقافتکے نام پر ا یکٹر وا یکٹریس کا ننگا ناچ ہوتا ہے بلکہ انہیں Ideal باور کرایا جاتاہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم حیا چھوڑ دو تو جو چاہے کرو ـ‘‘(حدیث) آج اس کی مثالیں بر سر عام ہیں۔ پیدا ہوتے ہی بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے بلکہ پلائی جاتی ہے کہ تمہیں سلمان خان، دھونی، ثانیہ مرزا اور ایشوریا رائے بنناہے ۔ کتنے والدین ایسے ہیں جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ تمہیں حضرت فاطمہ زہرا ؓ ، خولہ بنت ازور، زینب غزالی اور مریم جمیلہ بننا ہے ۔ بلکہ بیشتر افراد ایسے ہیں جو ان کے نام سے بھی واقف نہیں ۔
ہر قوم کی اپنی تہذیب ہے اپنا عقیدہ ہے اور وہ اسی پر عمل کرتے ہیں لیکن ہم کس کی تقلید کر رہے ہیں ؟ عیسائی اپنے مذہب سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس پر کاربند ہیں ۔ ہندو اپنے عقائد پر پوری طرح ڈٹے ہیں ۔ سکھوں کا حال دیکھئے تو گمان ہوتا ہے کہ مسلمان کی سی پختگی ہے اور مسلم ملت مغربی تقلید میں ایسی اندھی ہوئی کہ ـ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ‘‘ کی حالت ہے۔ ساتر لباس زیب تن کرنا نہ صرف حکم خدا ہے بلکہ اس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائی پوشیدہ ہے ۔ ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ جب ڈینگو اور ملیریا کی وبا پھیلتی ہے یا خارش، سوزش اور اسکین پروبلم ہوتا ہے ،ڈاکڑ مشورہ دیتے ہیں تو Full Sleeveاپنایا جاتا ہے ۔گرمیوں میں ڈھیلا لباس اختیار کیا جاتا ہے اور جب یہی باتیں اللہ اور رسول کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں تو اس پر عمل کرنا پچھڑا پن تصور کیا جاتا ہے ۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈاکٹروں پراللہ سے زیادہ یقین ہے اور خوف خدا دلوں سے نکلتا جا رہا ہے ۔بچیوں کے لباس کے سلسلے میں مائیں زیادہ ذمہ دار ہیں ۔ انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ بچپن سے ہی ایسی تعلیم و تربیت دیں کہ اسلامی لباس میں لڑکیوں کو فخر اور تحفظ کا احساس ہو ۔آئیے ہم اس نیت سے کہ حجاب ہماری پہچان تھا ،ہے، اور رہے گا استعمال کریں ۔ جو حکم الٰہی ا ور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، اس کو فروغ دیں ۔lll