پرندے :اللہ کی عظیم نعمت

شیریں شہزاد

کہا جاتا ہے کہ اگر زمین پر پرندے نہ ہوتے تو انسان بھی اس دنیا میں نہیں رہ سکتا تھا۔ دنیا میں حشرات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ پرندے انھیں نہ کھائیں، تو دوسری انواع کا پنپنا ناممکن ہوجائے۔ اندازہ کیجیے زمین پر ایک انسان کی نسبت تقریباً بیس کروڑ حشرات الارض پائے جاتے ہیں۔ یہ کیڑے مکوڑے دنیا بھر کی فصل کا ایک تہائی حصہ چٹ کرجاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے قدرت نے انھیں قابو میں رکھنے کے لیے روئے زمین پر پرندے پیدا کررکھے ہیں جو سطح زمین کے ہر حصے مثلاً اونچی نیچی غاروں، دریاؤں، ندی نالوں، درختوں کے پتوں، تنوں، جڑوں، صحراؤں اور فضاؤں تک ان کے تعاقب میں لگے رہتے ہیں۔ بہت سے پرندے چوبیس گھنٹوں میں اپنے وزن کے برابر حشرات کھا جاتے ہیں۔

مینا کے متعلق اندازہ ہے کہ اس کا جوڑا دن میں ۳۷۰ مختلف قسم کے حشرات کھا جاتا ہے۔ گھریلو چڑیا ایک دن میں اپنے چوزوں کے لیے ۲۶۰ حشرات لاتی ہے۔ پھدکی کا جوڑا سال بھر میں اپنے چوزوں کے ساتھ اوسطاً ایک لاکھ پچاس ہزار چھوٹے کیڑے کھاتا ہے۔ ٹڈی دل کو چٹ کرنے میں سفید بگلے اور تلیر کا جواب نہیں۔

اس طرح پرندے قدرت کی طرف سے حشرات کی لامحدود تعداد کو رکھنے کا بے مثال ذریعہ ہیں۔ پرندوں کی تخلیق میں اور بھی راز پنہاں ہیں جن کی طرف سورہ الانعام میں دعوت فکر دی گئی ہے:

’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری۔ کہو اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں۔ زمین پر چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں۔‘‘

پرندوں میں سب سے دلچسپ شے ان کے پر ہیں، جس کی طرف مذکورہ بالا آیات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو۔‘‘ علاوہ ازیں سورئہ الملک، پارہ ۲۹ میں بھی پرندوں کی پرواز کا ذکر ہے:

’’کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سیکڑتے نہیں دیکھتے۔‘‘

پرندوں کو اڑتے دیکھ کر لامحالہ انسان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتا پھرے۔ قرآن مجید نے بھی انسان کو اس امر کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ اسی تمنا کے زیرِ اثر بہت سے سائنسدانوں نے اڑنے والی مشین، بنانے کی کوششیں کیں۔ ان میں اندلس کے ایک مسلمان سائنسدان، عباس بن فرناس کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ انھوں نے ۸۶۱ء میں اپنے جسم سے مصنوعی پر لگا کر شہر قرطبہ پر پرواز کرنی چاہی، مگر اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

پرندوں کی پرواز سے ان کے نقل مکانی کا قریبی تعلق ہے۔ پرندے دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک مستقل رہائش پذیر پرندے اور دوم نقل مکانی کرنے والے یا فصلی پرندے۔ فصلی پرندے موسم کی تبدیلی یا خوراک کی کمیابی پر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف ہجرت کرتے اور موسم تبدیل ہونے پر واپس اپنے گھر لوٹ آتے ہیں۔

یہ بات تعجب خیز ہے کہ وہ نقل مکانی کے دوران خشکی، سمندر اور صحرا عبور کرتے ہوئے ہزاروں میل لمبی مسافت بغیر تھکے یا اکتائے کیسے طے کرلیتے اور مقررہ وقت پر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں؟ اس کا راز پرندوں کی انتھک محنت میں پوشیدہ ہے۔ نقل مکانی کے دوران فصلی پرندے عموماً چھ سے آٹھ گھٹنے تک محو پرواز رہتے ہیں اور اندازاً دو سو سے چار سو میل تک کا فاصلہ روزانہ طے کرتے ہیں۔ خلیج میکسیکو کو براہِ راست عبور کرنے والے پرندے کم از کم ۲۴ سے ۳۶ گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ مسلسل محو پرواز رہتے ہیں۔

بعض اوقات مشکل حالات اور طوفان میں پھنس جانے کی صورت میں پرندوں کو پچاس سے ساٹھ گھنٹے تک مسلسل پرواز کرکے ساڑھے تین ہزار میل کا فاصلہ کامیابی سے طے کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرندوں میں مسلسل پرواز کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ فصلی پرندوں میں یہ خصوصیت زیادہ ہے۔ یہ پرندے موسم سرما گرم ممالک میں اور موسم گرما سرد ممالک میں گزارتے ہیں۔ لیکن یہ بات اب تک معمہ ہے کہ انھیں موسم کی تبدیلی کا کیسے علم ہوتا ہے اور وہ راستے کا تعین کس طرح کرتے ہیں؟ کیونکہ یہ ہزاروں میل کا فاصلہ کسی رہبر کے بغیر عموماً رات کو طے کرتے ہیں۔

عرب چونکہ تجارت پیشہ اور سیاح تھے، اس لیے پرندے ان کی نظر میں رہتے اور وہ ان کا شکار بھی کرتے تھے۔ بٹیروں، تلیروں، بھٹ تیتروں کے گوشت کو بہترین ذائقے والا سمجھتے ہیں۔ سورہ واقعہ میں بھی ارشاد ہے کہ اہلِ جنت کی تواضع کے لیے پرندوں کا گوشت پیش ہوگا۔

پرندوں کی جسمانی ساخت بھی غور طلب ہے۔ ان کے پر انھیں نہ صرف موسمی اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ انہی کی مدد سے وہ اڑتے ہیں۔ پرندے کے جسم کی ساخت کشتی کی طرح ہے۔ ہڈیاں کھوکھلی ہوتی ہیں اور ان کے اندر گودا نہیں ہوتا۔ اس باعث وہ کافی ہلکی ہوتی ہیں۔ البتہ نہ اڑنے والے پرندوں کی ساخت ذرا مختلف ہے۔

موجودہ دور کے تباہ کن بمبار اور لڑاکا طیاروں کے علاوہ بڑے بڑے جہازوں کی ایجاد کو اگر سورئہ الفیل میں بیان کردہ واقعات اور سورہ الانعام اور سورئہ الحج میںدرج آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت خود بخود منکشف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیوں بار بار اہلِ ایمان کو پرندوں کی پرواز کی طرف متوجہ کیا ہے۔

انبیائے کرام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس شرف سے نوازا کہ وہ پرندوں اور چیونیٹوں کی بولی سمجھتے تھے۔ ویسے پرندے اپنی زبان میں ایک دوسرے کو اپنا مطلب سمجھاسکتے ہیں۔ ان کی آواز کئی طرح کی ہوتی ہے۔ گو ہم ان کی بولی کا مطلب نہیں سمجھتے لیکن آواز کے تغیرات اور اتار چڑھاؤ سے کم از کم تھوڑا بہت اندازہ ضرور لگاسکتے ہیں۔ مثلاً تیتر، بلبل، پھدکی وغیرہ شکاری کو دیکھتے ہی تیز اور خطرناک قسم کی آواز نکالتے ہیں جسے سن کر دوسرے پرندے فوراً چھپ جاتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں نکلنے والی آواز سے تشویش کا انداز نمایا ںہوتا ہے۔ موسم بہار میں ان کی آواز سے مستی اور سرور جھلکتا ہے جبکہ لڑنے اور مقابلہ کرنے کی آواز سے للکارنے کی جھلک صاف سنی جاسکتی ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انسان نے گوشت اور انڈے حاصل کرنے کے لیے پرندوں کی پرورش کا آغاز کیا۔ مثلاً گھریلو پالتو مرغی سرخ جنگلی مرغ کی نسل سے ہے۔ اس کی پرورش سب سے پہلے ۳۲۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان میں شروع ہوئی۔ بطخوں کی تمام گھریلو اقسام نیل سر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سے ایک حد تک انسانی خوراک کا مسئلہ حل ہوا۔

آج کل پرندوں کا شکار شوقیہ زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان کے انڈوں کا بطور خوراک استعمال بھی عام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف سیاہ اور بحری ابابیل کے دس لاکھ انڈے ہر سال کھائے جاتے ہیں۔ دوسری انواع جن میں پینگوئین، جل مرغی، قطبی ابابیل، ٹٹیری اور جنگلی مرغی وغیرہ شامل ہیں، ان میں سے ہر ایک کے ایک ایک لاکھ سے زائد انڈے انسان سالانہ کھا جاتے ہیں۔

زمانۂ قدیم سے ہی پرندوں کی خدمات بھی عام ہیں۔ مثلاً پیغام رسانی کے لیے کبوتر کا استعمال، جاسوسی کے لیے ہدہد کا استعمال کے علاوہ شکاری پرندوں کو سدھانا بھی ایک معلوم بات ہے لیکن دور جدید میں دوسری جنگ عظیم کے پرندوں کی اس خاصیت کا ثبوت سامنے آیا جب ان سے پیغام رسانی کا کامیاب طریقے سے کام لیا گیا۔ آج کل کئی لوگ پرندوں کو شوقیہ پالتے ہیں۔ غالباً انسان کی پرندوں سے دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات دیے گئے ان میں ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت والا ایک مجسمہ بناتے اور اس پر پھونکتے تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا۔

خطرناک سمجھے جانے والے شکاری پرندے بھی انسانوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ یہ مردار اور کچرا کھا کر نہ صرف ماحول کو آلودگی سے پاک رکھتے ہیں، بلکہ بیشتر چوہے کھا کر اس انتہائی ضرر رساں جانور سے کسانوں اور زمینوں بلکہ عام لوگوں تک کو بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ چوہے کے ایک جوڑے کی ہلاکت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس طرح آٹھ سو چوہے پیدا ہونے سے رہ گئے۔ چوہے ہرٹ کرنے میں ’الو، کوے، باز، عقاب وغیرہ کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ انسان کو دیگر بیماریوں کے علاوہ ’’طاعون‘‘ جیسی خطرناک بیماری سے بچاتے ہیں۔

سیرت طیبہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ پرندوں کی اہمیت اور افادیت سے نہ صرف بخوبی آگاہ تھے بلکہ آپؐ نے ان کے تحفظ پر خصوصی زور دیا۔ مثلاً آپؐ نے پرندوں کے انڈوں کو ان کے گھونسلوں سے اٹھالانے سے منع فرمایا۔ ایک بار آپؐ سفر میں تھے۔ ایک مقام پر آپؐ نے پڑاؤ فرمایا۔وہاں ایک صحابی پرندے کے گھونسلے سے انڈے اٹھا کر جارہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’انڈے واپس گھونسلے میں رکھ دو۔‘‘ اسی طرح آپؐ نے پرندے کے چوزوں کو بھی اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔

آپؐ نے دیگر حیوانات کے ساتھ ساتھ پرندوں پر ظلم کرنے سے بھی روکا ہے۔ خاص طور پر پرندے لڑانے کا فعل ناپسند فرمایا۔ علاوہ ازیں چھوٹے پرندوں کے شکار پر آپؐ نے بڑی خفگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک بار آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا: ’’مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ لوگ چھوٹے پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔ بڑا پرندہ یا جانور شکار کیاجائے، جس کا گوشت کھانے سے بہت سے آدمیوں کا پیٹ بھر سکے، تو اور بات ہے، مگر چھوٹے پرندوں کے گوشت سے تو ایک آدمی کا پیٹ بھی نہیں بھرسکتا۔‘‘ آپ نے بالخصوص چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد اور صرد کے مارنے کی ممانعت فرمائی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں