پروفیسر عبدالمغنی علم و ادب کا روشن چراغ جو بجھ گیا

شمشاد حسین فلاحی

پروفیسر عبدالمغنی کی صورت میں اردو کے بہی خواہوں اور اسلام پسند حلقہ کو جو عظیم دانشور حاصل تھا وہ رخصت ہوگیا۔ وہ ایک بلندپایہ ادیب، صاحب علم وفضل دانشور اور اسلام اور مسلمانوں کے ترجمان تھے، وہ مدرسہ کا ایک فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کے ماہر استاد اور اردو کے بلند پایہ ادیب تھے۔ پروفیسر تو انگریزی زبان و ادب کے تھے لیکن عام لوگ انہیں اردو کے عظیم المرتبت خادم ہی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ انگریزی کے درجنوں معیاری رسائل و جرائد اور جرنلوں کے علاوہ اردو کے بے شمار رسالوں میں ان کی تحریریں شائع ہوتی تھیں اور بڑے برے سمیناروں اور علمی مجلسوں میں ان کی دھوم رہتی تھی۔

۴؍جنوری ۱۹۳۶ء کو بہار کے ضلع اورنگ آباد کے علمی خانوادے کے فرزند پروفیسر عبدالمغنی علم و آگہی، بے باکی و حق گوئی اور سادگی و قناعت پسندی میں اپنی مثال آپ تھے۔ مدرسہ کے فاضل اس شخص نے جو بھی بلند مقامات اور قدرومنزلت حاصل کی وہ صرف اور صرف اپنی علمی صلاحیت اور تحقیق و تصنیف کی بنیاد پر حاصل کی۔ اور اگر وہ جوڑ توڑ کی سیاست، خوشامد اور حاشیہ برداری کا بھی استعمال کرتے تو نہ جانے کہاں تک پہنچ سکتے تھے مگر یہ تمام چیزیں ان کی خوددار طبیعت اورحق پسند طبیعت کے منافی تھیں۔

مرحوم عبدالمغنی اخلاق و کردار، وضع داری اور اصول پسندی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ وہ للت نرائن متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اور سازشی و شرارتی ذہنیت کا شکار بھی ہوئے اور لوگوں نے انہیں بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی مگراس وقت بھی انھوں نے صبر اور حق گوئی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں باعزت بری کیا اور مخالفین کو منھ کی کھانی پڑی۔ اگرچہ اس پوری چال میں انہیں وائس چانسلر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا مگر ملک کے باشعور طبقہ کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ وہ سازشی ذہنیت کا شکار ہوئے تھے۔

پروفیسر عبدالمغنی اردو کے بے لوث خادم اور ماہر فن تنقید نگار تھے، بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں ان کا جو کلیدی رول رہا ہے وہ محبان اردو پر واضح ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان کے علاوہ درجنوں کتابیں اردو ادب اور تنقید کے موضوع پر تحریر کیں۔اور تہذیب و تمدن، افکار و ثقافت، تاریخ اور فلسفہ میں بھی درجنوں مقالات لکھے۔ وہ خود کہتے تھے کہ ان کا علمی سرمایہ کا ایک حصہ وہ ہے جو منظر عام پر آچکا ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ ابھی تک فائلوں اور منتشر صفحات کی صورت میں پڑا ہے۔

گذشتہ دنوں دہلی کے سفر کے موقع پر حجاب کے مدیر نے ان سے خصوصی شمارہ ’’مسلم خاتون اور اس کی شخصیت کا ارتقاء‘‘ کے لیے مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو کہنے لگے۔ بھئی اب میری کوشش نئی چیزیں لکھنے کے بجائے پرانی چیزوں کی ترتیب و تزئین اور تنظیم میں لگی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس سرمایہ کو کسی طرح محفوظ کردوں۔ اب عمر کا تقاضہ بھی ہے اور صحت بھی ساتھ نہیں دیتی۔ لیکن مدیر حجاب کے اصرار پر انھوں نے لکھنے کا غیر یقینی وعدہ کرلیا تھا۔ لیکن مشیت ایزدی کو شاید اس کا پورا ہرنا منظور نہ تھا اور وہ رخصت ہوگئے۔

مرحوم وعدے کے بڑے پابند اور وقت کے قدر داں تھے۔ رفیق منزل کے لیے جب بھی خواہش کی گئی انھوں نے خاص تحریر عنایت کی۔ ابھی چند ماہ پہلے وہ دہلی آئے۔ ایس آئی او کے ذمہ داران نے ان سے ایک پروگرام میں شرکت کی خواہش کی جس پر انھوں نے معذرت کرلی مگر ساتھ ہی وعدہ کیا کہ میں ایک تحریر اس موضوع پر لکھ کردے دوں گا۔ اس وقت وہ مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پھر اگلے روز وہ تحریر انھوں نے میرے حوالے کردی اور تاکید سے کہا کہ یہ ذمہ داران تک پہنچا دو۔ مرحوم عبدالمغنی کی تحریک اسلامی سے وابستگی اگرچہ تنظیمی نہ تھی مگر فکری وابستگی بڑی مضبوط تھی۔ وہ جماعت اور ایس آئی او کے پروگراموں میں جب بھی بلایا جاتا شریک ہوتے اور دہلی کسی بھی کام سے آتے تو اکثر مرکزجماعت میں ہی قیام کرتے جو ان کے جماعت اور اس کی قائدین سے تعلق خاطر کو واضح کرتا ہے۔

پروفیسر عبدالمغنی زبان و قلم کے مجاہد تھے۔ ایسے مجاہد جس نے زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اپنے اصولوں اور اقدار سے سمجھوتا کر ناگوارہ نہ کیا۔ ان کی طبیعت میں اصول پسندی کے ساتھ ساتھ قلندری بھی تھی۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ اگر کسی سے وعدہ ہوتا کہ 9:30منٹ پر کہیں جانا ہے تو 9:25پر ہی شیروانی اور جوتے وغیرہ پہن کر اس طرح انتظار کرتے کہ آتے ہی ساتھ چل دیتے دوسری طرف یہ بات تھی کہ 9:31منٹ پر شیروانی اتار دیتے، تو بس اب کوئی طریقہ ایسا نہ تھا جو دوبارہ انہیں شیروانی پہننے کے لیے آمادہ کرپاتا، اس شدت پسندی پر شاید کچھ لوگ ان سے نالاں بھی ہوجاتے مگر یہ ان کا اصول تھا کہ وقت کی پابندی لازم ہے۔

ہر ذی نفس کو جانا ہے اور پروفیسر عبدالمغنی بھی چلے گئے، لیکن وہ ان خوش نصیب لوگوں میں ہیں جو ایسا قیمتی علمی سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں جس کے سبب انہیں صدیوں تک یاد کیا جاتا رہے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے، خطاؤں اور کوتاہیوں سے صرف نظر فرمائے اور جنت میں ابدی گھر عنایت کرے۔ آمین

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146