’’اری نجمہ!سکھانے سے بندرناچنے لگتے ہیں۔تیری بھابی کیسی بھی سہی،ہیں توآدمی ہی۔‘‘
’’نہ آپا جان نہ،میں نہیں مانتی۔چچاسعدی کہہ گئے ہیں۔تربیت نااہل راچوں گردگان برگنبد است۔ ہماری بھابی بھی وہ گول گنبد ہیں جس پر کچھ بھی پھینکو رُک نہیں سکتا۔‘‘
’’لیکن نجمہ سن تو،تو نے اپنی بھابی کو اتنی جلدی نااہل کیوں قراردے دیا۔جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ان کو آئے ہوئے۔‘‘
’’ابی،تانت باجی، راگ پہنچانا۔میں نے ان کے بشرے سے سمجھ لیاکہ وہ بینگن ہیں، پانی میں ڈالو پھرنکالو اس پر ایک قطرہ پانی کا نظرنہ آئے گا۔‘‘
’’احمق ہے تو۔جانتی ہے کہ بینگن، بینگن ہی ہے۔ گنبد اینٹ پتھر ہے۔اُنھیں جس طرح پیدا کردیا بس وہ ویسی کی ویسی ہیں۔لیکن اِنسان کو دیکھ وہ بدلتا رہتاہے۔آج کچھ ہے کل کچھ۔کہیں اچھی بری تعلیم اُسے بدل دیتی ہے،کہیں ماحول۔تیری بھابی کو نہ تو اچھی تعلیم ملی نہ اچھاماحول۔ہاں بڑاگھرانہ ضرور ملا۔ یہی خرابی کی جڑ ہے۔‘‘
’’اوروہ گھرسے لے کرآئیں تکبراورتمکنت اپی!کہیں متکبر آدمی بھی سدھرتاہے۔‘‘
’’سدھرتاکیوںنہیں۔اچھاآیہ بھی تجربہ کریں۔‘‘اوریہ کہہ کر نصرت آپا نے برقع سنبھالا بولیں۔‘‘چل آج تیری بھابی سے میں بھی ملوں۔‘‘
ہماری نصرت آپابلاکی’’گھس پیٹھی‘‘ ہیں چاہے کوئی بلائے یانہ بلائے۔اس کے یہاں جادھمکتی ہیں۔کوئی ان سے بولے چاہے نہ بولے۔وہ خود چھیڑ چھاڑ شروع کردیتی ہیں۔میرے ساتھ آئیں۔ سیدھی بھابی جان کے کمرے میں جاگھسیں۔بھابی اس اچانک حملے سے ہڑبڑاکر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔نصرت آپا نے سلام کیا اوربھابی کے کچھ کہے بغیر ان کے پلنگ پر جا بیٹھیں اوربیٹھتے ہی شروع ہوگئیں۔
’’اری نجمہ!توسچ کہتی تھی۔سچ مچ تیری بھابی بڑی سلجھ اورسلیقہ مند ہیں۔کیساخوبصورت رکھاہے اپنا کمرہ۔تونے اپنی بھابی کی تعریف کے پل باندھے تو میراجی چاہا کہ میں بھی تودیکھوں! اللہ اورزیادہ سلیقہ دے۔جیساتونے کہاتھا اُس سے زیادہ پایا۔توبڑی خوش نصیب ہے کہ ایسی اچھی بھابی تجھے ملی۔‘‘
آپا جان بھابی کی تعریف پر تعریف کیے چلی جارہی تھیں اوربھابی جان تھیں کھلی جارہی تھیں اوربڑی حیرت کے ساتھ باربارمجھے دیکھتی جاتی تھیں۔اچانک بپھرکر بولیں’’عجیب گھرانہ ہے،نہ کسی آئے گئے کے لیے پان دان نہ خاطرتواضع دیکھتی کیاہے۔وہ رکھاہے میراہیٹر۔اسی پر جلدی سے چائے بنااورلے یہ نوٹ لے۔سعیدسے کہہ ۔بازارسے کچھ لے آئے۔‘‘
میں دنگ رہ گئی۔یہ وہی ہیٹرتھا۔ایک دن میںنے اسے چھولیاتھا۔توبھابی نے ایساگھڑکاکہ پھر اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ کی میں نے۔میں نے سعید کو نوٹ دیااورخود ہیٹر پر پانی رکھ دیا۔پھر بھابی نے اپنے ٹی سٹ کی طرف اِشارہ کیا۔میں نے اُسے چھوٹی سی میز پر سلیقے سے لگادیا۔آپاجان پھر شروع ہوگئیں۔
’’اری نجمہ،دودن میںتجھے بڑاسلیقہ آگیا ہے۔ سچ ہے جمالِ ہم نشیں درمن اثرکرد۔یہ سب تیری سگھڑبھابی کا اثر ہے اورواہ ہی وا۔کتنا خوب صورت ٹی سیٹ ہے جس نے تیری بھابی کو یہ سیٹ دیا۔اس کی نظر اِنتخاب خوب ہے۔‘‘
’’آپا جان!یہ میراچھوٹا بھائی لایاتھا۔‘‘
اتنی دیر کی بکواس کے جواب میںیہ پہلا جملہ بھابی کی زبان سے نکلا اورآپاجان نے دوسراموڑلیا۔
’’ماشاء اللہ!نجمہ!تیری بھابی کا گھربھر حسن نظررکھتاہے۔‘‘
حسن نظر!آپا جان کا یہ بول انوکھا لگا۔ ’’حسن نظر‘‘میںنے بھی دُہرایااوربھابی جان نے بھی اورپھر کچھ سوچ کر بھابی جان نے اپنے جہیز کی ایک ایک چیز دِکھاڈالی اورآپا جان ہر چیز دیکھنے کے بعد کہتی جاتی تھیں۔اللہ مبارک کرے۔اللہ یہ سب برتنے کی توفیق دے۔ اللہ اس دُلہن سے گھر میںاُجالا پھیلے۔ دُلہن! اللہ کرے کہ نجمہ تجھ سے وہ ساری خوبیاں سیکھ لے جو تولے کرآئی ہے۔‘‘
یہ تھی آپاجان اوربھابی جان کی پہلی ملاقات۔ میں دل ہی دل میںکہہ رہی تھی کہ آپا جان دوسروں کو تو منع کرتی ہیں کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف مت کرو۔ حدیثیں سناتی ہیں کہ منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں خاک۔ اورآج بھابی جان کی شان میںجھوٹ کا طومار باندھ دیا۔
آپاجان کے جانے کے بعد میں نے چاہا کہ بھابی جان کے کمرے سے امی جان کے پاس جائوں اوران کو یہ ڈراماکہہ سنائوں لیکن بھابی نے روک لیا اور کہا: ’’آج میں نے تیری ایک چوری پکڑی۔‘‘ بھابی نے یہ کہاہی تھا کہ میں ڈرگئی۔سمجھ گئی کہ بھابی آج میرے لتے لے ڈالیں گی۔وہ بھانپ گئیں’’بتائوں تو نے کیاچوری کی۔‘‘
’’میں نہیں سنتی چوری کی بات۔‘‘میں جھنجھلا گئی۔امی جان سے جاکرکہوں گی۔‘‘
’’اچھا چل،میں بھی چلتی ہوں۔اُن کے سامنے تیری چوری کھولوںگی۔‘‘
اوریہ کہہ کر میراہاتھ پکڑے پکڑے امی جان کے کمرے میں پہنچیں۔امی جان ظہرکی نماز پڑھ کر فارغ ہوچکی تھیں۔مجھے سہما ہوادیکھا توان کا ماتھاٹھنکا۔
’’دُلہن کیاہے۔کیوں اسے میرے پاس گھسیٹے لارہی ہو؟‘‘
’’امی جان!نجمہ چورہے۔‘‘
’’کیاکہہ رہی ہودُلہن۔میری بیٹی نجمہ اور چور!‘‘ امی نے ذراضبط سے کام لیا۔
’’جی سنیے تو۔برانہ مانئے،آج میںنے اس کی چوری پکڑی ہے۔‘‘
بھابی کے چہرے پر نہ غصہ تھا۔نہ تیوروں پر بل۔ چہرہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا۔امی جان سوالیہ نشان بن گئیں۔بھابی جان کہہ رہی تھیں۔
’’امی جان!یہ نجمہ ہر وقت مجھ سے ’’لڑوں لڑوں‘‘کرنے پر تلی رہتی ہے۔سیدھے منہ بات نہیں کرتی اورنصرت آپا کے یہاں جاجاکر میری تعریفوں کے پل باندھتی ہے۔ آج نصرت آپاآئی تھیں ان سے اس کی چوری کھلی۔امی جان ہے نہ نجمہ چور۔
اوریہ کہہ کر بھابی جان نے دومہینے میںپہلی بار اپنی ہتھیلیوں سے میرے گالوں کو دبایا اورمیرامنہ چوم لیا۔
امی جان حیران حیران دیکھ رہی تھیں کہ بڑے گھرانے کی گھمنڈی لڑکی کی کایاآج کیسے پلٹ گئی۔
٭٭
’’سچ کہہ نجمہ!کیسی رہی۔‘‘
’’خوب رہی آپاجان!بھابی جان اُس دن سے آپا کاکلمہ پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’کچھ بدلیں بھی؟‘‘
’’صرف اِتنا کہ ذراکی ذراامی کے پاس بیٹھ لیتی ہیں۔‘‘
’’اورتجھ سے۔‘‘
’’مجھ سے کرید کرید کرپوچھتی ہیں کہ آپا جان کیاکہتی ہے۔‘‘
’’توکیاجواب دیتی ہے؟‘‘
’’آپاجان!آپ بھی غضب کی ہیں۔بھلا میںکیاجواب دوں۔کس قدرجھوٹ بکا ہے آپ نے اس دن۔ مارے تعریفوں کے، مارے تعریفوں کے آپ نے توبہ…وہ سب جھوٹ نہ تھاتوکیاتھا۔‘‘
’’دروغ مصلحت آمیزبہ ازراستی فتنہ انگیز۔ دودِلوں کو جوڑنے کے لیے میں نے ذرانمک مرچ لگا کر بات کردی۔تجھے ان کی نظرمیںبٹھانے کے لیے بات کا رُخ موڑکر گفتگو کی۔میں سمجھتی ہوں یہ گناہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ثواب دے گا۔‘‘
’’ہاں آپا جان۔آپ کی گفتگو کا نتیجہ تو بڑا اچھا رہا۔ اوربتائوں؟‘‘
’’ہاںبتا!‘‘
’’بھابی جان آپ کے یہاں آرہی ہیں۔‘‘
’’ایں!میرے یہاں!‘‘
’’مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ کہلا تو دیا ہوتا۔‘‘
’’مجھے تو اسی لیے پہلے بھیج دیاہے۔‘‘
اورلیجیے،بھابی جان تشریف لے آئیں۔
’’السلام علیکم آپاجان کہاں ہیں آپ!‘‘یہ بھابی جان تھیں جو بے تکلف چلی آرہی تھیں۔‘‘
’’او،ماشاء اللہ،وہ آئیںگھرمیںہمارے خدا کی قدرت ہے۔کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔‘‘یہ تھیں آپاجان جو بھابی کی آمد پر شعرپڑھ رہی تھیں۔
’’اے ہے آپاجان!میںکوئی بڑی شخصیت تھوڑی ہوں۔کیوںمجھے کانٹوں میںگھسیٹ رہی ہیں آپ!‘‘
’’دُلہن بی!دیکھو،بڑاآدمی کوئی پیسے سے نہیں بنتا۔میںتوجس میںاچھے گن دیکھتی ہوں، اسی کو بڑا سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اے ہے!مجھ میںآپ نے کیاخوبی دیکھی۔ میں تواپنے میں کچھ بھی نہیںپاتی۔‘‘
’’یہی توبڑپن کی نشانی ہے جواپنے منہ سے بڑابنے وہ تھوڑی بڑاآدمی ہوتاہے۔‘‘
’’اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے سے تولوگ بیزارہوجاتے ہیں۔‘‘
’’دُلہن بی لوگ!لوگ توہوہی جاتے ہیں۔ اللہ میاں اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ شیطان اسی لیے تولعنتی ہوگیا کہ اس نے اپنے آپ کو آدم سے بڑاسمجھا۔
یہ جو آپا جان نے کہاتومیں نے دیکھا،بھابی جان نے ایک جھرجھری لی۔اپنے ہاتھوں سے اپنے گال تھپتھپائے اوران کی زبان سے نکلا۔
’’توبہ!‘‘
’’ابے بی دُلہن!یہ دوسری خوبی آپ میں دیکھی۔قرآن شریف میںہے کہ توبہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔‘‘
’’مگرآپاجان توبہ جیسی توبہ ہوتو۔یہ نہیں کہ زبان پر لفظ توبہ اورعملاًبرے کام دُہراتے جائیں۔یہ توتوبہ سے کھیل ہوا۔‘‘
’’دُلہن بی!سچ بتائیے کیاآپ نے قرآن پڑھاہے؟‘‘
’’نہیں،میں نے قرآن نہیںپڑھا۔‘‘ اور بھابی جیسے جھینپ سی گئیں۔
’’مگربات توآپ نے قرآن کی کہی۔توبہ کے بارے میں قرآن کے اندریہی ہے جو آپ نے فرمایا۔‘‘
’’آپا جان!میں توایسی نمازیوں کونمازی نہیں سمجھتی جو ایک طرف تونماز پڑھتی ہیں اوردوسری طرف ساری برائیاں بھی کرتی ہیں۔‘‘
’’ارے واہ!نجمہ اپنی بھابی کی باتیں سن رہی ہے۔کہتی ہیں کہ قرآن نہیں پڑھاہے لیکن قرآن کی باتیں زبان پرہیں۔اُس دن تونے وہ جو آیت پڑھی کیاتھی۔ذرا ترجمہ سناتو۔
میں نے اُبلتے ہوئے پانی میں چائے ڈالتے ہوئے پڑھا۔’’اِن الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر‘‘بے شک نماز بے حیائی اوربری باتوں سے روک دیتی ہے۔
’’دیکھادُلہن بی!آپ کی فطرت قرآن سے ملتی جلتی ہے۔ میرااندازہ یہ ہے کہ اگرآپ قرآن پڑھیں اورترجمہ دیکھیںتو بہت سی باتیںاپنی فطرت کے مطابق پائیں گی۔آپ پڑھتی جائیں گی اورکہتی جائیںگی کہ یہ تومیرے دل کی آواز ہے۔سچی بات ہے کہ قرآن ہے بھی اِنسان کی فطرت کے مطابق۔ لابھئی نجمہ!چائے لے آ۔‘‘
میں نے چائے میزپررکھ دی۔ہم سب چائے پی رہے تھے۔اس وقت بھابی جان کسی سوچ میںتھیں۔آپاجان نے چپ سادھ لی تھی اورمیں تو خاموش تھی ہی۔دل ہی دل میںسوچ رہی تھی کہ آج آپا جان نے اِتنی کڑی پلائی کہ…
سچ مچ بھابی جان قرآن کے بارے میںسوچ رہی تھیں۔میراقیاس ٹھیک نکلا۔بھابی جان جب چلنے لگیں تومیرے کان میںکہا۔
’’نجمہ!تیرے پاس ترجمہ والاقرآن ہے؟‘‘
میںنے ہاںکہہ کرسرہلادیاتوآپاجان نے پوچھا: ’’یہ نندسے کیا کانا پھوسی ہو رہی ہے؟‘‘
بھابی جان نے ’’کچھ نہیں‘‘کہہ کر ٹالنا چاہا لیکن میں نے بتادیاتوآپاجان بہت خوش ہوئیں اور اُنھوںنے اپنابہترین ترجمہ والا قرآن بھابی جان کے ہاتھوں میںدے دیا۔
——