پسندیدہ ماحول کیسے بنائیں!

خوش نصیب، ددھیڑو کلاں

ہمارے گھر کا ماحول ہماری زندگی میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہم سبھی ایک پسندیدہ ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ پسندیدہ ماحول کیسا ہو؟ یہ ہر فرد کی الگ سوچ، پسند اور زندگی گزارنے کے طریقے اور زندگی کی ترجیحات اور فکر سے معلوم ہوتا ہے۔ بعض لوگ اپنے لیے مغربی طرز کے ماحول کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لباس، ان کے گھر کے معمولات اور رہنے سہنے کے انداز میں یہ بات جھلکتی ہے کہ وہ کیسا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر کا ماحول لکھنے پڑھنے کا، ایک دوسرے کے ادب و احترام کا نمازوں کی پابندی کا اور پیار ومحبت کا بنانا چاہتے ہیں تو آپ کا طرز فکر اور طرزِ عمل مختلف ہوگا۔ نماز کے وقت آپ کی کوشش ہوگی کہ ٹی وی بند ہوجائے۔ بچے اور بڑے مرد نماز باجماعت کے لیے مسجد جائیں اور گھر کی خواتین بھی پوری تیاری کرکے نماز ادا کریں۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہیں چاہتا تو اسے اس بات کی ہرگز فکر نہ ہوگی کہ کب اذان ہوئی اور کب جماعت ہوگی۔

ہمارا پسندیدہ ماحول وہ ہے جس میں ہمدردی، دین داری، آپسی پیار، محبت اور ایک دوسرے کے لیے شفقت و احترام پایاجائے۔ لیکن اس ماحول کو پیدا کرنا موجودہ معاشرے میں اتنا آسان نہیں، جتنا الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ماحول سازی دراصل ایک جدوجہد اور محنت کا جذبہ چاہتی ہے۔ لگن اور ایثار وقربانی چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ زبردست صبر و استقلال بھی ماحول سازی کے لیے درکار ہے۔

ماحول خواہ وہ کیسا ہی ہو اس کے بنانے میں خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے اور ایک لڑکی جب بہو بن کر کسی دوسرے ماحول میں جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کو نئے ماحول سے سابقہ پڑتا ہے۔ اب یہ اس کی اپنی ذات پر موقوف ہے کہ وہ نئے ماحول میں جاکر اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے یا اس گھر کے ماحول کو اپنے مطابق بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

ایک دین پسند لڑکی سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ نئے ماحول میںجاکر خود کو اس کے رنگ میں رنگنے کے بجائے اس گھر کے ماحول کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی ہے، خواہ اس کوشش میں اسے کتنی ہی محنت و مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے اور خواہ کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے۔

اگر آپ اپنی پسند کا دینی ماحول بنانا چاہتی ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا نظریہ تنقیدی ہو اور آپ یہ دیکھیں کہ گھر کی کیا کیا چیزیں غلط اور دینی مزاج کے خلاف ہیں اور کیا چیزیں قابلِ تبدیلی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ گھر کے افراد کے ذہن و فکر کو بھی سمجھا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ کس کے ساتھ کس انداز کا معاملہ کرنا ہے۔ اگر ان دونوں چیزوں کے سمجھنے میں غلطی ہوئی تو ماحول سازی میں کامیابی مشکل ہوگی۔ اسی طرح اچھی ماحول سازی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ جس طرح کا ماحول چاہتی ہیں خود بھی اسی کی تصویر بن جائیں۔ مثال کے طور پر اگر گھر میں نماز کا ماحول نہیں ہے تو ضروری ہے کہ آپ خود نمازوں کی پابندی کرنے والی ہوں تاکہ لوگ یہ دیکھ سکیں کہ نماز کی پابندی سے کیسے اثرات گھر میں پیدا ہوتے ہیں۔

گھر کی صالح ماحول سازی میں اہم ترین کردار آپ کے انداز کا بھی ہے۔ غلط کاموں پر ٹوکنے کا انداز اگر درست نہ ہوگا تو اہل خانہ آپ کو غلط سمجھیں گے اور آپ کی مخالفت شروع ہوجائے گی۔ اس لیے پیار و محبت،اخلاص اور خیر خواہانہ انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بات بات پر ٹوکتے رہنے کے بجائے خیر خواہانہ انداز میں چیزوں کی وضاحت، اثر قبول کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ چنانچہ اس اصول کا استعمال گھر کے ہر فرد کے لیے کارآمد ہے۔

عورتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ جب جمع ہوتی ہیں تو ایک دوسرے کے سلسلہ میں غیر محتاط انداز گفتگو اختیار کرتی ہیں۔ آپ ایسے موقعوں پر یہ واضح کرسکتی ہیں کہ انسان کس طرح غفلت میں اپنے اعمال نامے کو سیاہ کرتا رہتا ہے اور اسے خبر تک نہیںہوتی۔

ماحول سازی کا کام صبر و برداشت کا جذبہ بھی چاہتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ عفو و درگزر، بڑوں کی خدمت اور چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح لوگوں کے دلوں میں آپ کے اور آپ کی باتوں کے لیے جگہ مل جائے گی اور آپ جو کچھ کہیں گے لوگ نہ صرف یہ کہ اس کا برا نہیں مانیں گے بلکہ آپ کی بات کو قبول بھی کریں گے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں