پسند کی شادی – ایک سماجی ضرورت

ڈاکٹر محمد شکیل اوج

ہر عاقل و بالغ فرد کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ شادی میں اس کی پسند کا لحاظ رکھا جائے۔ انسان کے بنیادی حقوق میں یہ انتہائی اہم حق ہے۔ مگر افسوس کے ہمارے معاشرے میں اس کا چلن پسندیدہ قرار نہیں دیا جاتا۔ بالخصوص خواتین اس زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں بعض خاندانی مجبوریوں اور رسم و رواج کے تحت اس ظلم کا شکار کیا جاتا ہے۔ اور اگر کبھی وہ اپنے اس حق کو استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں تو بطورِ سزا پورے خاندان سے کاٹ دی جاتی ہیں۔ انہیں نکّو کردیا جاتا ہے۔ بعض حالات میں تویہ بھی ہوتا ہے کہ خود ان کا باپ یا بھائی یا کوئی رشتہ دار ان کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور اس طرح وہ اپنی تمام عمر، خوف اور بے گانگی کے سائے میں بسر کرتی ہیں۔ پسند کی شادی چونکہ انسان کی حریتِ فکر و عمل کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس لیے جس معاشرے میں لوگوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہ ہو اسے آزاد اسلامی معاشرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قرآن مجید نے مردوں کو پسند کی شادی کا حکم دیا ہے:

’’پس ان عورتوں سے شادی کرو جو تمھیں اچھی لگیں۔‘‘ (النساء:۳)

طاب کے معنیٰ کسی چیز کے عمدہ اور پاکیزہ ہونے کے ہیں۔ (لسان العرب) اسی سے طیب بنا ہے۔ طیب وہ چیز ہے جس سے حواس اور نفس دونوں کو مسرت حاصل ہو۔ اس لیے ماطاب لکم سے مراد وہ عورتیں ہوں گی جن کی عمدگی اور پاکیزگی کی طرف انسانی نفس اس طرح مائل ہو کہ ان سے حصول مسرت کا طالب نظر آئے۔

ما طاب لکم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے لیے پسندیدگی شرط ہے۔ اور ظاہر ہے کہ پسندیدگی کے لیے دیکھنا بھی لازمی ہے۔ اس لیے اسلامی شریعت کی رو سے شادی کے لیے عورت کو نہ صرف دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ آپ نے ایک انصاری صحابی کو باقاعدہ دیکھنے کا حکم دیا تھا۔ (مسلم، ح:۳۳۸۱) حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! میں مدینہ کی ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اس لڑکی کو دیکھ لیا ہے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جی نہیں، یا رسول اللہﷺ! اس پر آپؐ نے فرمایا: شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لو۔ کیونکہ یہ اس سے بہتر ہے کہ بعد میں پچھتاوا ہو۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے ایک اور صحابی نے خود اپنا واقعہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ اس نے ایک لڑکی کو علم ہوئے بغیر چوری چھپے دیکھا اور پھر اسے شادی کی پیش کش کی۔

اسی لیے علمائے جمہور نے نکاح سے پہلے عورت کو دیکھنے کے جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ دیکھنا عورت کی رضا مندی سے ہونا چاہیے یا بغیر رضا مندی کے۔ مگر اس اختلاف سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس سے یہ مسئلہ ضرور مستنبط ہوتا ہے کہ اگر عورت کو اس کی رضا مندی کے ساتھ دیکھا جائے گا تو یہ ناممکن ہے کہ مرد کا دیکھنا یک طرفہ ہو۔ یقینا یہ دیکھنا دو طرفہ ہوگا۔ ہمارے خیال میں جس طرح مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے اسی طرح عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔ مگر ہمارے اکثر مذہبی گھرانوں میں اس پر عمل نہیں ہوتا۔ نکاح عموماً مرد یا عورت کو دیکھے بغیر ہوجاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ، شادی کے بعد باہمی اختلافات کی صورت میں نظر آتا ہے۔

پسند کی شادی جس طرح مرد کا حق ہے، وہیں مرد کی پسند پر قبولیت اور عدمِ قبولیت کا انحصار بہرحال عورتوں کی آزاد مرضی پر منحصر ہے۔

’’تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ عورتوں پر زبردستی قبضہ کرلو۔ اور نہ انہیں جبراً اس غرض کے لیے روک رکھو کہ جو کچھ تم نے انہیں دیاہے اس میں سے کچھ واپس مل جائے۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔‘‘ (النساء:۱۹)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی میں مرد کی پسند کے ساتھ ساتھ عورت کی پسند کا لحاظ رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا مرد کی پسند کا خیال رکھنا۔ مگر ہمارے معاشرے میں عورت کی پسند اور ناپسندکو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا جاتا۔ صرف مردوں کی پسند کا اعتبار کیا جاتا ہے۔

شوہروں کے انتخاب میں عورتوں کی پسند کی اہمیت کااندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتا ہے، جن میںآپؐ نے نکاح کو لڑکی کی اجازت پر موقوف کیا ہے۔

والبکر تستاذن فی نفسہا واذنہا صماتہا۔ (مسلم)

’’اور کنواری سے اس کے نکاح کے بارے میں اجازت لینی چاہیے اور اس کی خاموشی کو اجازت پر محمول کرنا چاہیے۔‘‘

اسی طرح آپ نے لڑکیوں کے باپوں کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ باپ ہونے کا فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ نکاح کے سلسلے میں اپنی بیٹیوں کی پسند کا پورا پورا لحاظ رکھیں۔

حضرت خنساء بنت حزام انصاریؓ بیان کرتی ہیں کہ ان کے والد نے ان کی مرضی کے خلاف کہیں اور نکاح کردیا تھا۔ وہ شوہر دیدہ تھیں۔ اور انہیں یہ نکاح پسند نہ تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپؐ نے وہ نکاح رد فرمادیا۔ (مسلم)

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمنؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے دیور نے مجھے نکاح کا پیغام دیا تھا۔ جسے میرے باپ نے مسترد کردیا ہے۔ اور میرا نکاح وہاں کردیا ہے جہاں مجھے پسند نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے والد کو بلوایا اور اس سے صورتحال معلوم کی۔ عورت کے باپ نے کہا کہ میں نے اس کے نکاح میں کسی اچھائی کو ترک نہیںکیا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ نکاح نہیں ہوا۔ اور (عورت سے فرمایا) جاؤ، جس سے چاہو، نکاح کرلو۔

اگر کوئی نکاح، لڑکی کی مرضی کے مطابق ہوا ہو، اور اس نکاح میں لڑکی کے باپ کامشورہ شامل نہ ہو، تب بھی اس نکاح کو نکاحِ صحیح سمجھا جائے گا۔ اس مسئلہ کو درج ذیل روایت کی روشنی میں دیکھیے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عبدالرحمن بن ابی بکر کی بیٹی(یعنی اپنی بھتیجی) کا نکاح منذر بن الزبیر سے کردیا۔ اس وقت عبدالرحمن موجود نہیں تھے۔ جب وہ آئے تو انھوں نے ناراض ہوکر کہا کہ اے خدا کے بندو! کیا مجھ ایسے شخص کی بیٹی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ اس پر حضرت عائشہؓ نے خفگی کے لہجے میں فرمایا کیا تمہیں منذر پسند نہیں؟

مذکورہ بالا روایت میں جس طرح لڑکی کی مرضی کا لحاظ کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے لڑکی کا نکاح فرمایا، اس طرح ایک ماں نے بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر کردیا تھا، جسے حضرت علیؓ نے درست قرار دیا۔ ذیل میں وہ روایت ملاحظہ کیجیے:

عن علی انہ اجاز نکاح امراۃ بغیر ولی انکحتہا امہا برضاہا۔

’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک ایسی عورت کے نکاح کو جائز قرار دیا جس کا نکاح بغیر اذن ولی کے اس کی ماں نے اس کی مرضی سے کردیا تھا۔‘‘

ان تمام روایات میں جو چیز مشترک ہے، وہ لڑکی کی پسند اور مرضی ہے جسے ہر حال میں اولیت دی گئی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ چیز اجنبی بن کر رہ گئی ہے۔ اس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

نکاح میں ’’ایجاب و قبول‘‘ کے صیغے اس امر کی شہادت کے لیے کافی ہیں کہ مرد و عورت دونوں اپنی اپنی پسند میں کاملاً خود مختار بنائے گئے ہیں۔ مگر ہمارے غیر اسلامی کلچر نے نکاح کی جوہریت کو فنا کرکے رکھ دیا ہے۔ کتنی خواتین ایسی ہیں، جو بھیڑ بکریوں کی طرح، کسی بھی کھونٹے سے باندھ دی جاتی ہیں۔ اور جو اس طرح نہیں بندھنا چاہتیں انہیں بے حیا، بدچلن اور آوارہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

باب نکاح میں عورت کے انتخاب کا مسئلہ بھی اتنا ہی زیادہ اہم ہے جتنا مرد کے انتخاب کا۔ قرآن نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ (البقرۃ:۱۸۷) لباس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کے مطابق ہو اور جو لباس بدن کے مطابق نہ ہو، اُسے نہیں پہنتے۔ تاکہ شخصیت غیر متوازن نہ ہو۔ ’’ہن لباس لکم‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ عورتیں مردوں کا ذوقِ انتخاب ہیں۔ اور ’’انتم لباس لہن‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مرد، عورتوں کا ذوقِ انتخاب ہیں۔ یوں مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کی پسند ہوتے ہیں۔ چاہتوں کے اٹوٹ انگ بن کر تمام زندگی محبتیں بکھیرتے رہتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے لیے دلچسپی کا سامان بنے رہتے ہیں۔ ذہنی آسودگی کا یہ سفر دونوں کو تا زیست خوش و خرم رکھتا ہے۔ میاں بیوی کی یہ محبتیں اور پسندیدگیاں ان کے بچوں میںمنتقل ہوتی ہیں۔ ایسے جوڑوں کے بچے کسی نفسیاتی اور اخلاقی الجھنوں میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وہ غربتوں میں بھی خوشحال نظر آتے ہیں۔ مقابلتاً ان جوڑوں کے، جو مارے باندھے کے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ باوجود مالدار ہونے کے بیمار اور پریشان نظر آتے ہیں۔ باہمی نفرتوں اور عدم محبتوں میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ وقت سے پہلے بوڑھے اور مضمحل ہوجاتے ہیں۔ ان کی عائلی زندگی کا زہر، ان کے بچوں میں تلخیاں گھول دیتا ہے، وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر اخلاقی و نفسیاتی مفاسد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر ظاہر ہے کہ اس طرح کے جوڑے، معاشرے کو اچھی پروڈکشن دینے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے دو طرفہ پسند کی شادی ، صرف مرد و عورت کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے سماج کی بھی ضرور ت ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146