پس پردہ

طاہرہ نقوی

ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ گو ابھی آٹھ بجے تھے مگر گہرے اندھیرے اور سردہواؤں کی وجہ سے سڑکیں سنسان ہوچکی تھیں۔ علی احمد اپنے کشادہ دفتر میں تنہا بیٹھا تھا ابھی تک کام میں مصروف تھا۔ دفتر کا چوکیدار اجازت لے کر کھانے کے لیے گیا ہوا تھا۔ کام کے دوران علی احمد کبھی اپنا سر اٹھاتا، تو اسے روبینہ کا خیال آجاتا۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے وہ اس کے انتظار کی گھڑیاں گننے کی عادی ہوچکی تھی۔ دراصل علی احمد کی کمپنی کے مالک نے اس کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اسے جنرل مینجرکے عہدے پر ترقی دینے کا وعدہ کررکھا تھا۔ اسی لیے وہ دفتر میں اپنی اس نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ تندہی سے کام کرتا رہتا تھا۔ روبینہ کو البتہ اس کی ہونے والی ترقی سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی، وہ علی احمد کے اس رویے پر جھنجھلاتی رہتی اور یہی چاہتی کہ دفتر کا وقت ختم ہوتے ہی وہ گھر آجائے۔ مگر ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا۔ علی احمد سامنے نظر آنے والی اپنی منزل کو نہیں کھونا چاہتا تھا، اسی لیے اکثر دفتر میں دیر تک بیٹھا کام کرتا رہتا تاکہ اگلے روز مالک کے سامنے اپنا کام رکھ سکے۔ اس ضمن میں اس کے پاس یہی جواز تھا کہ ساری محنت وہ محض روبینہ کی خاطر کررہا تھا لیکن اس کی بیوی اس تسلی سے کبھی مطمئن نہ ہوتی۔

خاموشی کے اس ماحول میں یکایک باہر سے کسی گاڑی کے ہارن کی آواز آنی شروع ہوئی، تو علی احمد پریشان ہونے لگا۔ گھر میں کبھی روبینہ ٹی وی کی آواز اونچی کردیتی یا آس پاس سے اونچے گانوں کی آواز آجاتی تو وہ جھنجھلا اٹھتا۔ وہ ایسی ناگوار آوازوں سے ہمیشہ منتشر ہوجاتا تھا۔ اس وقت ہارن کی آواز سے دھیان ہٹانے کے لیے اس نے اپنا سر جھٹکا اور کام میں دوبارہ مصروف ہونے کی کوشش کی مگر وہ اس طرف دھیان نہ دے سکا۔

ہارن کی ناگوار آواز دوبارہ بلند ہوئی اور پھر وہ مسلسل بجنے لگا۔ وہ بیزاری سے فائلیں بند کرکے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسے یہی بے چینی ہورہی تھی کہ ابھی بہت کام باقی ہے اور اگر کام مکمل نہ ہوا تو صبح مالک کو کیا جواب دے گا۔ وہ اس کے سامنے ہمیشہ سرخرو ہونا چاہتا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ اسی اثناء میں غیر متوقع طور پر ہارن بند ہوا تو اس نے اطمینان کی گہری سانس لی اور فائلیں کھول کر اپنے خیالوں کو یکجا کرنے لگا۔ لیکن اگلے ہی لمحے ہارن اونچی نیچی آواز میں پھر بجنے لگا۔ اس نے فائل میز پر پٹخی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ اس کا ذہن اب ماؤف ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اس پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ شدید غصے کی حالت میں میز پر مکے مارنے لگا۔ پھر اس نے وحشیانہ انداز میں اپنے بال نوچ ڈالے اور دونوں ہاتھوں کے مکے تانے ہوئے باہر کی طرف دوڑا۔

باہر جاکر علی احمد اس گاڑی پر جھپٹا جس میں ایک نوجوان بیٹھا اونچی آواز میں گانے سن رہا تھا۔ اس کی انگلی اب بھی ہارن پر رکھی ہوئی تھی۔ اس نے جاتے ہی چیختے ہوئے کہا:

’’یہ کیا جہالت ہے؟‘‘

نوجوان نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ علی احمد نے دانت پیستے ہوئے دوبارہ کہا:

’’تمہیں لوگوں کا ذرا خیال نہیں۔‘‘

’’کون سے لوگ؟‘‘ نوجوان نے طنز کیا۔

علی احمد اس کی بے حسی پر تلملا کر رہ گیا۔

چیونگم چباتے ہوئے نوجوان نے بے نیازی سے کہا: ’’میں اوپر والے فلیٹ سے اپنے دوست کو بلانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’کسی کو بلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ خود جاکر کیوں نہیں بلا لاتے؟‘‘

نوجوان نے لا ابالی پن سے علی احمد پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے جواب دیا:

’’چاروں طرف آوازوں کا یہ طوفان اب عام سی بات ہے، آپ صرف ہارن سے پریشان ہوگئے۔‘‘

علی احمد اس کے اس رویے سے بپھر گیا اور اسے گاڑی سے باہر کھینچنے لگا۔ اب نوجوان بھی غصہ سے بے قابو ہوکر گاڑی سے باہر نکلا اور علی احمد پر جھپٹ پڑا۔ دونوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔ علی احمد غصے میں آپے سے باہر ہوچکا تھا، اس پر جنونی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ اس نے پوری طاقت سے نوجوان کے منہ پر گھونسا مارا، نوجوان لڑکھڑا کر دور جاگرا۔ اس نے چند لمحے کوئی حرکت نہ کی تو علی احمد کا سارا غصہ کافور ہوگیا۔ اس نے نوجوان کو دیوانہ وار ٹٹولا۔ فٹ پاتھ سے ٹکرا کر اس کے سر میں شدید چوٹ آئی تھی۔ وہ اب ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ یہ دیکھ کر علی احمد گھبرا گیا۔ وہ اندر ہی اندر خوف کے مارے لرزنے لگا اور لمحے بھر کے لیے آنے والے واقعات اس کے ذہن میں گھوم گئے۔ اس کی بدقسمتی کہ اسی اثنا میں وہاں ایک پولیس وین آگئی اور اس سے پوچھ گچھ کرنے لگی۔ علی احمد نے بوکھلاہٹ میں سب کچھ سچ سچ بتادیا۔ پولیس اسے گرفتار کرکے لے گئی۔

روبینہ کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ دوڑی دوڑی علی احمد سے ملنے گئی۔ وہ جیل میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ روبینہ کے کریدنے پر اس نے تمام صورت حال بتائی تو روبینہ نے اعتماد اور عزم سے بس اتنا کہا:

’’تم گھبرانا مت، میں تمہارے لیے اچھے سے اچھا وکیل کروں گی۔‘‘

علی احمد چپ رہا۔ وہ جانتا تھا کہ حقائق اس کے خلاف ہیں۔ تاہم علی احمد روبینہ کی دی ہوئی تسلیوں کے پیچھے اس کی اصل کیفیت بھانپ چکا تھا۔ اس نے محض بے بسی سے روبینہ کو دیکھا اور بولا: ’’وکیل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

روبینہ، علی احمد سے اپنے آنسو چھپانا چاہتی تھی مگر وہ اپنی چہیتی بیوی کی آنکھوں میں آئے ہوئے سیلاب کو دیکھ چکا تھا۔

علی احمد کے مقدمے کے لیے روبینہ نے شہر کے ایک قابل وکیل سے بات کی۔ پہلے تو اس نے تفصیل معلوم کی پھر علی احمد سے ملاقات کرکے اس سے چند سوالات کیے۔ البتہ علی احمد نے وکیل کے سامنے بھی اپنی مایوسی کا اظہار کردیا۔ لیکن روبینہ اس کے سامنے اپنے آپ کو ہمیشہ مطمئن اور پرامید ظاہر کرتی۔ مقدمہ چلا تو وکیل نے عدالت میں اپنے قانونی نقطے اور موشگافیاں پیش کرتے ہوئے ماحول میں شور کی آلودگی پر زور دیا اور ثابت کرنا چاہا کہ علی احمد اپنے اعصاب پر قابو نہ پاسکا اور یہ قتل غیر ارادی تھا۔ مگر مخالف وکیل نے یہ دلیل خوبصورت الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دے کر رد کردی۔ یوں مقدمے کی تاریخ ہفتہ بھر کے لیے بڑھ گئی۔

اب روبینہ کے لیے امید کی کوئی کرن باقی نہ رہی تھی۔ البتہ اس نے اپنے اعصاب کو بکھرنے نہیں دیا اور علی احمد کے سامنے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ وہ ہمت ہار گئی ہے۔ علی احمد، روبینہ پر تلخی سے ہنستا رہتا کیونکہ وہ اپنی زندگی سے بالکل بے زار اور مایوس ہوچکا تھا۔ اس پر نہ تو مقدمے کی کارروائی موثر ثابت ہورہی تھی نہ روبینہ کی کوئی تسلی اسے ہر لمحے اپنی نظروں کے سامنے پھانسی کا پھندہ لٹکا ہوا نظر آتا تھا۔ خود روبینہ رات رات بھر روتی رہتی۔ وہ علی احمد کے بغیر زندہ رہنے کے تصور سے بھی کانپ کر رہ جاتی۔ اس کی زندگی کا ہر اگلا لمحہ بے چینی اور اضطراب میں اضافہ کردیتا۔

ایک شام روبینہ اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے جانے لگی، تو اس کے قدم بھاری ہوگئے۔ وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔ علی احمد کی حالت بھی اسی مجرم کی سی تھی جسے پھانسی دی جانے والی ہو۔ داڑھی بڑھی ہوئی اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر روبینہ کا دل ڈوب گیا۔ تاہم حسبِ معمول وہ علی احمد پر اپنی مایوسی ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس پورے عرصے میں اپنی دوہری کیفیت کے سبب روبینہ ہر لمحے نیزے کی انی پر اٹکی رہی۔ اس وقت علی احمد خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ اس نے کسی تاثر اور جذبے سے عاری لہجے میں کہا:

’’روبینہ مجھے یقینا پھانسی ہوجائے گی۔‘‘

روبینہ کوئی جواب نہ دے سکی بلکہ اپنے وجود میں اتھل پتھل محسوس کرتی رہی۔

’’میرے اندر ایسی گھٹن ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔‘‘

یہ کہہ کر علی احمد نے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ گویا اسے دنیا کی کسی شے سے کوئی دلچسپی نہ رہی ہو۔ اس کے گلوگیر لہجے سے روبینہ آبدیدہ ہوگئی اور کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔ مگر اس نے خاموشی سے اپنے آنسو پی لیے۔ علی احمد پھر بڑبڑایا۔

’’ہرنکلنے والے سورج سے مجھے خوف آتا ہے۔‘‘

روبینہ اپنی ناقابل برداشت حالت کی وجہ سے اب بھی چپ رہی تو علی احمد جھنجھلا اٹھا:

’’تم میری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟ کیا تمہیں بھی میرا اعتبار نہیں؟‘‘

روبینہ اپنے آنسو خشک کرکے زبردستی مسکراتے ہوئے بولی: ’’ہمت مت ہارو علی احمد!‘‘

علی احمد کو ایسے الفاظ سے اب چڑ ہوچکی تھی، اس نے روبینہ کی طرف پلٹ کر سپاٹ لہجے میں جواب دیا: ’’میں امیدوں کے اندھے ہاتھوں سے زندگی کے اڑتے ہوئے پرندے نہیں پکڑ سکتا۔‘‘

روبینہ اپنے آپ پر قابو نہ پاسکی، اس کا وجود ڈھے چکا تھا۔ وہ گلو گیر آواز میں بولی: ’’ایسا مت کہو، اب مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔‘‘

’’میں کسی فضول خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہتا۔‘‘ علی احمد نے خلاؤں میں تکتے ہوئے کہا۔

’’قانون سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ روبینہ نے پھر تسلی دی۔

قانون کا نام سن کر علی احمد نے نفرت سے ہنکاری بھری ’’اونہہ، قانون تو اندھا ہوتا ہے۔‘‘

’’مگر وہ مایوسی کے اندھیرے میں بھی دیکھ لیتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر روبینہ اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کے سیلاب کو روک نہ سکی اور تیزی سے واپس چلی گئی۔ علی احمد کے پاگلوں کے سے قہقہے دور تک اس کا پیچھا کرتے رہے۔

آخر وہ فیصلہ کن لمحہ بھی آگیا۔ عدالت کے فیصلے کے وقت جب علی احمد کو کٹہرے میں لایا گیا تو اس نے اپنی نظریں مسلسل جھکائے رکھیں۔ اسے کسی کی طرف دیکھنے کی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ اس کے دل میں اب کسی قسم کا وسوسہ تھا۔ عدالت میں سناٹا چھایا ہوا اور سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی اور موت کے درمیان لمحے بھر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اس پر اسرار فضا میں جج نے غیر متوقع طور پر علی احمد کے حق میں اپنا فیصلہ دے کر اسے باعزت طور پر بری کردیا۔ علی احمد کو اپنے کانوں پر قطعی اعتبار نہیں آیا۔ اس نے بے یقینی سے جج کو دیکھا۔ اسے فیصلے کا اسی وقت یقین آیا جب وکیل نے آکر اسے مبارک باد دی۔

اب یکایک علی احمد کی کیفیت برعکس ہوگئی، اس کے اندر زندگی کی ہمک لوٹ آئی، تو اس کی نظریں روبینہ کو تلاش کرنے لگیں، مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ اس کے وکیل نے بھی یہی بتایا کہ اس نے روبینہ کو نہیں دیکھا۔ علی احمد کو جتنی حیرت اپنے بری ہونے کی ہوئی تھی اتنی ہی روبینہ کے موجود نہ ہونے پر ہوئی، اس نے اس بات کو روبینہ کی بے وفائی پر محمول کیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد اس نے تہیہ کرلیا کہ گھر پہنچتے ہی وہ روبینہ کو اس کی اس حرکت کا مزہ چکھائے گا چنانچہ گھر پہنچ کر اس نے تلملاتے ہوئے بغیر وقفے کے مسلسل گھنٹی بجائی لیکن دروازہ نہ کھلا۔ آخر اس نے طیش میں آکر زور زور سے دستک بھی دی اور کھڑا پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دروازہ کھلا تو پتا چلا کہ روبینہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی، یہ دیکھ کر علی احمد کے غصے کی آگ مزید بھڑ ک اٹھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بڑھ کر اس کا گلا دبا دے۔ اس نے تلخی سے پوچھا:

’’تم عدالت میں موجود کیوں نہیں تھیں؟‘‘

روبینہ نے علی احمد کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا، تو علی احمد نفرت سے دہاڑا۔

’’لگتا ہے تمہیں میری رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں جو یوں پڑی سورہی ہو۔‘‘

’’یہ بات نہیں علی احمد!‘‘ روبینہ بوجھل آنکھوں اور خوابیدہ لہجے میں بولی: ’’دراصل میں ساری رات جج کے گھر کے باہر ہارن بجاتی رہی ہوں۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں