گرم کپڑوںکو دھوپ میں پھیلاتے ہوئے میرا دل بوجھل ہورہاتھا۔ سوٹ کیس کو کھولتے ہی جس شے پر سب سے پہلے نظر پڑی وہ آپا جان کی شال تھی۔ جسم میں جھر جھری سی پیداہوئی۔ کس قدر شوق اور احتیاط سے اوڑھتی تھیں اسے آپا جان۔ میں نے ہاتھوں میں لے کر اس کی کشیدہ کاری پر نظر ڈالی تو کاریگر کی ہنرمندی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ باریکی اور صفائی سے لگے ہوئے ٹانکوں میں رنگوں کی دلکش لہریں قوس وقزح کا منظر پیش کررہی تھیں۔ پشمینہ بھی انتہائی نفیس… چھوتے ہوئے بے وزن ریشم کے لچھوں کا گمان ہورہاتھا۔
مجھے یاد آیا جس روز آپا جان راولپنڈی والے ماموں کے گھر سے واپس آئی تھیں، اسی شام محلے میںحلیمہ آپا کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ شام اور وہ بھی اسلام آباد میںنومبرکے آخری دنوں کی، سردی شدید تھی۔ جب ہم سب تیار ہورہے تھے تو آپاجان نے اپنے سوٹ کیس سے یہ شال نکال کر اوڑھی۔ شال کیاتھی۔ جیسے جڑائو زیور پہن لیاہو۔ اس قدر خوب صورت کہ بے اختیار تعریف کرنے کو جی چاہے ۔
’’آپا جان یہ تو بے حد خوب صورت شال ہے اور قیمتی بھی لگتی ہے۔‘‘
وہ بڑی بے نیازی سے بولیں ’’بھائی نے دی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ تو بہت مہنگی لگتی ہے۔‘‘ میں نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’لومیرابھائی کچھ ایسا بے حیثیت بھی نہیں ہے کہ بہن کو ایک شال بھی لے کر نہ دے سکے۔‘‘ انھوںنے کچھ بے زاری سے کہا۔
میں خاموش ہوگئی لیکن ذہن میں کئی سوال ابھرے تھے۔ ماموں ایک ایماندار سرکاری ملازم تھے۔ گھر داری کو باعزت طریقے پر چلانے کے لیے ممانی کافی محنت کرتی تھیں۔ سلائی کڑھائی کا شوق ایک معقول آمدنی کا ذریعہ بھی تھا، خاص طور پر رفوتووہ ایسا کرتی تھیں کہ کوئی بتا نہیں سکتاتھا کہ کپڑا کہاں سے گھسا یا پھٹا ہواتھا۔۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے اکثر جاننے والے اپنے قیمتی کپڑوںکا رفو ان ہی سے کرواتے۔ انہیں رفو کرتے ہوئے یکھنا بھی ایک دل چسپ نظارہ ہوتا۔ وہ کپڑے کو نہایت نرمی اور محبت سے ہاتھوں میں یوں لیتیں جیسے کوئی فنکار اپنے بہترین شاہکار پر بڑے انہماک سے کام کررہاہو۔ اُس وقت ان کے چہرے پر عجب نور ہوتا۔ ان کی یہی لگن ان کے کام کو بے مثال بنادیتی تھی۔
آپاجان کو ماموں جان کے گھر سے آئے ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ اطلاع ملی ممانی بہت بیمار ہیں۔ ماموں جان نے آپاجان کو بلوایاتھا۔ لیکن وہ جانے پر رضامند نہ ہوئیں۔ ناچار مجھ ہی کو جانا پڑا۔ ممانی واقعی بیمار اور کمزور لگ رہی تھیں۔ سارا گھر اوندھا پڑاتھا۔ تین بیٹے وہ بھی دس، بارہ اور پندرہ برس کے۔ بیٹی ہوتی تو شاید گھر سنبھال لیتی۔
ماموں جان نوکری اور گھر داری کو نبھاتے نبھاتے نڈھال ہورہے تھے۔ خیرمیرے جانے سے گھر کے حالات کچھ معمول پرآگئے۔ ممانی کی طبیعت بھی جلد ہی سنبھل گئی،لیکن ان کے چہرے پر گہری اداسی کی چھاپ تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں تو ممانی کے مسکراتے چہرے کی عادی تھی۔ بات بات پر الحمدللہ اور ماشاء اللہ ا ن کی شخصیت کاجزو تھا۔ انتھک انداز میں ہر کام خوش اسلوبی سے سرانجام دینا ان کی شخصیت کاخاصا تھا۔ مسکراہٹ تو اب بھی ان کے چہرے پر سجی ہوئی تھی لیکن کسی دکھ کی پرچھائیں سی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔
دو ہفتے میں ان کے ساتھ رہی۔ اب وہ کافی بہتر ہوگئی تھیں۔ زندگی معمول پر آگئی تو میں نے واپسی کاارادہ کیا۔ اسی دوپہر ممانی کی ایک ہمسائی ملنے کے لیے آئیں۔ ممانی کو صحت یاب دیکھ کر خوش ہوئیں۔ چلتے وقت انہوںنے ممانی سے پوچھا ’’کچھ پتاچلا؟‘‘ ممانی نے افسردگی سے انکار میں سر ہلادیا۔
’’اللہ پوچھے اس کو جس نے یہ ظلم کیاہے۔‘‘ ممانی نے جلدی سے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’نہ بہن کسی کے لیے برا کلمہ نہ کہو۔ اللہ خیر کرے گا۔‘‘ جب وہ صاحبہ چلی گئیں تومیں نے ممانی سے پوچھا ’’ممانی یہ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ تو انہوںنے فقط اتنا بتایاکہ ’’کچھ کھوگیاتھا، اس کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔‘‘
جب میں واپس آئی تو اگلے ہی روز آپاجان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ پتّے کا شدید درد اٹھاتھا۔ڈاکٹر نے فوری آپریشن بتایا۔ لیکن آپاجان کسی طورپر آپریشن کے لیے راضی نہ ہوتی تھیں۔ سب نے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بضد رہیں کہ آپریشن تو ہرگز نہ کروائوںگی۔ بہت حالت خراب ہونے پراسپتال لے کر گئے مگر آپریشن سے پہلے ہی وہ چل بسیں۔
اس اچانک حادثے سے ہم سب بہت پریشان ہوگئے۔
وقت کتنی جلدی گزرجاتاہے۔ وہ آپاجان جو پورے گھرپر حکومت کرتی تھیں، کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکے، منوں مٹی کے نیچے جاسوئیں۔
سردیوں کی آمد آمد تھی، گرم کپڑوں کو دھوپ میں پھیلاتے ہوئے میں اس شال کو دیکھ رہی تھی کہ معاً یہ خیال آیا: کہیں یہ شال ممانی کی تو نہیںجو آپاجان کے کہنے پر ماموں جان نے زبردستی انہیں دے دی ہو۔ یہ خیال آتے ہی میں نے سوچا: ان شاء اللہ کل ہی یہ شال میں ممانی کو پہنچادوںگی۔ دوسرے دن بڑی احتیاط سے میں نے شال کو بیگ میں رکھا۔ماموں کے پاں پہنچیں تو ممانی حسبِ معمول کاموں میں مصروف تھیں۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں میں نے بیگ میں سے چادر نکال کر انہیں دی تو وہ حیرت زدہ سی میری صورت دیکھتی رہ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پھر خودکلامی کے انداز میں گویا ہوئیں: ’’یہ ایک سال کتنی مشکل کاسال رہا، جنرل صاحب کی بیگم کی شال کا گم ہونا قیامت سے کم نہیں تھا… پچاس ہزار کی چادر کا تاوان ابھی تو آدھا بھی ادا نہیں کرپائی۔‘‘
میں دم بخود ان کی صورت دیکھ رہی تھی۔ دل بے حد اداس ہوگیا۔ اللہ کریم ہم سب کومعاف فرمائے اور آپاجان کی مغفرت کرے۔ آمین۔
——