شمس البارودی مصر کی ایک داعیہ اور فاضلہ خاتون ہیں۔ جو ایک زمانہ میں مشہور اداکارہ رہ چکی ہیں لیکناب سے ۲۳؍سال قبل وہ ادا کاری کی زندگی سے تائب ہوگئیں اور باپردہ زندگی کو اپنا شیوہ بنالیا۔ تقریباً ربع صدی کے اس عرصے میں وہ بہت سی اداکار اور ریڈیو اور ٹی وی پر پروگرام نشر کرنے والی خواتین کو اسلامی زندگی گزارنے کی راہ پر گامزن کر چکی ہیں۔ اداکاری کی زندگی سے باپردہ زندگی کی طرف ان کے سفر کی روداد انھی کی زبانی پیش کی جارہی ہے۔
…………
میری پرورش تعداد کے اعتبار سے ایک بڑے خاندان میں ہوئی۔ میرے چھ بہن بھائی تھے۔ میری والدہ ترکی اور والد شامی تھے۔ والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں جن میں لطف و محبت اور شفقت و رحمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ والد صاحب قاہرہ میں کپڑے کے چھوٹے سے کارخانے کے منیجر تھے۔ میرے بچپن کے زمانہ میں ہی ہم لوگ ’معادی‘ نام کی بستی میں منتقل ہوگئے تھے۔ پانچ سال تک میں اس خوبصورت بستی میں پروان چڑھی۔ یہاں میں نے اپنا بچپن اس کی مکمل رعنائیوں کے ساتھ یہاں کے پارکوں اور درختوں کے درمیان گزارا۔ یہیں کے اسکول میں میں نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم بھی میں نے یہیں حاصل کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں جذبہ وطنیت سے معمور تھی۔ مجھے اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی۔ میں بہت سے ملکی اور اسلامی پروگراموں میں حصہ لیتی تھی۔ ملکی و اسلامی مسائل سے متعلق سرگرمیوں خاص طور سے مسئلہ فلسطین کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی۔ میری کوشش رہتی تھی کہ اپنے وطن کو فائدہ پہنچاؤں لیکن اسلام کے زیر سایہ۔ کیونکہ اسلام ہی وہ دین اور نظام ہے جو تزکیہ کرتا ہے، وطنیت و قومیت کاغیر متنازعہ تصور اور درست مفہوم پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وطنیت یا قومیت کا جذبہ اللہ کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ کسی فرد یا گروہ کے لیے۔
ثانوی تعلیم کے دوران مجھے بہت سی چیزوں کا شوق تھا۔ مثلاً ڈرائنگ کا۔ مجھے اس میں بہت مہارت تھی۔ میں نقشے بہت اچھے بناتی تھی۔ میں جمناسٹک میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ اس کے بعد میں کالج برائے فنون لطیفہ میں آگئی اور فن ڈرامہ کے شعبے سے منسلک ہوگئی اور آخر تک اسی شعبے سے منسلک رہی۔ اس فن کی دنیا میں عملی قدم میں نے اتفاقی طور پر رکھا۔ جب کہ میںنے سیریل ’کڑوا شہد‘ میں پہلی بار کام کیا۔ اس کے ڈائریکٹر ابراہیم شکری تھے۔ ان کی ایک بہن میرے والد کے دوست کے مکان میں رہتی تھی۔ ایک دن انھوں نے مجھے میرے اہل خانہ کے ساتھ ایک پبلک پارک میں دیکھا تو بچوں کے ایک سیریل میں کام کرنے کے لیے کہا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے میرے والد سے بات کی۔ لیکن میں نے انکار کردیا کیونکہ اب میں خود کو بچی نہیں سمجھتی تھی۔ اسی زمانے میں وہ ’کڑوا شہد‘ کے نام سے سیریل بنارہے تھے تو اس میں مجھے ایک چھوٹا سا کردار دے دیا۔ اس میں مجھے ’بیٹی‘ کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس طرح سے ثانوی تعلیم کے سال اول میں ہی میری شہرت کی ابتدا ہوگئی۔ اس کے بعد دورانِ تعلیم ہی مجھے بڑے بڑے کرداروں کی پیش کش ہوئی اور معروف ادا کارہ ہندرستم کے ساتھ فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ شوٹنگ کے لیے باہر جانے پر والد صاحب سے اختلاف بھی ہوجاتا لیکن میں ہند رستم کے ساتھ جانے لگی جو میرے ساتھ بالکل میری والدہ کا سا برتاؤ کرتی تھیں۔ ’راہبہ‘ نام کی فلم میں ہند رستم کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں ایک مشہور فلمی اسٹار بن گئی۔
میری شادی حسن یوسف سے ہوئی۔ شادی سے پہلے ہم دونوں ایک ساتھ دوفلموں میں کام کرچکے تھے۔ لیکن چونکہ وہ تند مزاج آدمی تھے اس لیے ہمارے درمیان جھگڑا ہوگیا۔پھر ان کے ساتھ تیسری فلم ’سفر محبت‘ کرنے کے بعد ان کا تعارف میرے اہل خانہ، چچا کے لڑکوں اور والد و والدین سے ہوا تو انھوں نے میرے والد سے مجھ سے شادی کی پیش کش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں سچی محبت ڈال دی اور والد صاحب کے حج سے واپس آنے کے بعد ہماری شادی ہوگئی۔ الحمدللہ ہماری ۳۳ سالہ ازدواجی زندگی میں یہ سچی محبت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہر روز ہم ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے ہیں۔ اس دین سے محبت،اس کے لیے کام کرنے کی لگن اور لوگوں کی ہدایت و خیر خواہی کے جذبے نے ہمیں ایک دوسرے سے مربوط کررکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے چار بچے عنایت کیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں اور تمام مسلمانوں کی اولاد کو ہدایت نصیب کرے۔
حسن یوسف اعلیٰ اخلاق کے انسان ہیں۔ انتہائی مہذب ہیں۔ اسلام کا فہم بھی خوب رکھتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی زندگی سے وہ اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ علم کے میدان میں بھی آگے ہیں۔ انھوں نے بہت سی ڈگریاں لے رکھی ہیں۔ ۱۹۵۵ء میں علم تجارت میں گریجویشن کیا۔ ۱۹۵۹ء میں جسمانی تربیت میں گریجویشن کیا۔ اور ۱۹۶۲ء میں فن ڈرامہ میں ایڈوانس ڈپلوما کیا۔ وہ ایک بہت اچھے کھلاڑی بھی ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ بہت سی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں جو انھیں وسیع الافق مسلمان بنادیتی ہیں جو اپنے دعوتی و اسلامی مشن کا بہت اچھا شعور رکھتا ہے۔
مجھے مطالعہ کتب، خاص طور سے اسلامی کتابوں کے مطالعے کا شوق ہے اور ایسی کتابیں بھی دلچسپی سے پڑھتی ہوں جو انسان کی نفسیات سے گفتگو کرتی ہیں۔ اسلام کے بنیادی علوم مثلاً فقہ، تفسیر، حدیث اور سیرت کا مطالعہ کرتی ہوں۔ اسی طرح اسلامی افکار پر لکھی جانے والی کتابوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہوں۔ اسلام اور مسلمانوں کے مسائل خواہ ملک کے اندر ہوں یا ملک سے باہر ان پر بھی نظر رکھتی ہوں۔
مجھے عمرہ کرنے کا بے پناہ شوق اور انتہا درجے کی حسرت تھی۔ لیکن خود کی حالت دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ میں عمرہ کرنے کیسے جاؤں جب کہ میں نہ تو اسلامی لباس پہنتی ہوں اور نہ ہی باپردہ رہتی ہوں؟ ۱۹۸۲ء کی بات ہے کہ اس سال میرے محبوب شوہر حسن یوسف تنہا عمرہ کرکے آئے۔ جس وقت میرے شوہر عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے، میں اور میرے بچے سخت انفلوئنزا کا شکار ہوگئے۔ اس بیماری نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا یہ اللہ کی طرف سے بیت اللہ نہ جانے اور زیارت مصطفی میں پیچھے رہ جانے کی سزا تھی۔
چنانچہ میں آئندہ سال ۱۹۸۳ء میں اپنے والد اور شوہر کی معیت میں عمرہ کے لیے گئی۔ ساتھ میں میرے ماموں بھی تھے۔ جب ہم عمرہ کے لیے جانے کی تیاری کر رہے تھے تو میں نے پہلی بار ڈھیلا ڈھالا سفید لباس پہنا اور چہرے پر نقاب لگایا۔ اس کے علاوہ میں نے کوئی میک اپ استعمال نہیں کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس لباس میں اس نے مجھ کو خود میری نظر میں انتہائی حسین بنادیا۔ اس کے بعد ہم عمرہ کے لیے گئے۔ عمرہ کے دوران مجھے اندر سے یہخیال ہوا کہ میں حرمین شریفین میں ایک قرآن مکمل کروں۔ اس دوران میں تلاوت کے دوران قرآن کو اچھی سے طرح پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ قرآن کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ایک روز عمرہ ہی کے دوران میرے ماموں نے حرم شریف میں مجھ سے عجیب و غریب سوال کیا کہ ’’کیا تم پر ہمارے رب نے رحمت نازل کی؟‘‘ میں سمجھ نہیں پائی کہ انھوں نے یہ سوال مجھ ہی سے کیوں کیا۔ لیکن میں جلد ہی ان کا مقصد سمجھ گئی جب انھوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تم اللہ کے اس محترم گھر میں روئیں یا نہیں؟ اس کے بعد مجھے اپنے جذبات بیدار ہوتے محسوس ہوئے۔ میں قرآن کا جو حصہ پڑھتی اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ میرے اندر اللہ کی ذات سے محبت اور فریفتگی کی کیفیت بیدار ہوگئی۔
ماموں کے سوال کو دو روز گزر چکے تھے۔ اس کے بعد ہم مدینہ منورہ چلے گئے۔ روضہ مبارک کی زیارت کے وقت مجھے احساس ہوا کہ میں امام المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکت کے سامنے کھڑی ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہے ہیں وہ مجھے اپنی نظر شفقت و محبت سے نواز رہے ہیں۔ میرے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مجھ پر غیر ارادی کیفیت چھا گئی۔ صدق و محبت سے معمور ہوکر میری زبان سے یہ الفاظ خود بہ خود جاری ہونے لگے ’’یا حبیبی یا رسول اللہ، یا حبیبی یا رسول اللہ‘‘ اسی کے ساتھ میرا جسم کانپنے لگا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی اور مجھے اپنے اندر دنیا کی آلودگی سے پاکیزگی و شفقت کا ایسا احساس ہونے لگا جس کا میں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے زیارت مکمل کی اور واپس مکہ آگئے۔حجاب کا خیال صدق و خلوص کے ساتھ میرے دل میں جگہ بنانے لگا تھا۔ لیکن جب بہت سی خواتین مجھ سے سوال کرتیں کہ کیا تم اب حجاب کا التزام کروگی؟ تو میں انھیں صرف اتنا جواب دیتی کہ میں اس سلسلے میں اپنے شوہر سے پوچھوں گی۔ البتہ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد مجھے ایک اسلامی بہن ملیں۔ یہ بہن مصری تھیں اور کویت میں رہتی تھیں۔ انھوں نے میری بہت مدد کی، مجھے میرے اس فیصلے پر ثابت قدم کیا اور اپنی بعض اچھی باتوں سے میرا حوصلہ بڑھایا۔ اس کے بعد میں نے اپنی والدہ مرحومہ کی جانب سے طواف عمرہ کیا اور ہوٹل واپس آگئی۔ لیکن یہ رات مجھ پر بہت بھاری ہوگئی اور میں ساری رات جاگتی رہی۔ میرے والد نے میری یہ حالت دیکھی تو پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کہا میں حرم شریف جانا چاہتی ہوں۔ چنانچہ وہ میرے ساتھ حرم شریف آئے، میں نے تحیۃ الطواف کیا اور مقام ابراہیم پر نماز پڑھی۔ نماز کے دوران میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا۔ مجھے ایسا لگا گویا میں یہ سورہ پہلی بار پڑھ رہی ہوں۔ اللہ کا نور میرے دل میں داخل ہونے لگا اور ایک قسم کی سکینت اور خوشگواری نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس کے بعد میں نے نماز فجر ادا کی۔ نماز کے بعد مجھ سے ایک بہن نے سوال کیا کہ کیا تم آئندہ حجاب استعمال کروگی؟ میں نے جواب دیا ’’انشاء اللہ۔‘‘ اور اللہ کا شکر ہے کہ اس دن سے میں حجاب استعمال کررہی ہوں اور اللہ کے فضل، اس کے کرم اور احسان سے مالا مال ہوں۔ اللہ تعالیٰ جودوکرم والا ہے۔ احسان کرنے والا اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔ اس دن کے بعد سے میں نے حجاب کو نہیں اتارا اور نہ ہی انشاء اللہ کبھی اتاروں گی۔
آخر میں ایک بات اور میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام وسطیت اور اعتدال کا دین ہے۔ وہ ہر چیز میں اعتدال کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ میں متشدد نہیں ہوں۔ میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہوں اور ٹی وی پر سماجی اور بامقصد پروگرام بھی دیکھتی ہوں۔ مریضوں کی عیادت بھی کرتی ہوں۔ بعض رفاہی کام بھی انجام دے لیتی ہوں۔ ٹیلیفون پر اپنی بہنوں سے بات کرتی ہوں، عورتوں کے جمنازیم میں جاکر ورزش بھی کراتی ہوں۔ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ تفریح بھی کرتی ہوں۔ کبھی کبھی اپنے شوہر کے ساتھ شام کا کھانا کھانے کسی ہوٹل میں بھی جاتی ہوں۔ پالتو جانور بھی مجھے پسند ہیں۔ میرح پاس ایک خوبصورت بلّی ہے جو مجھے میری بیٹی نے تحفے میں لاکر دی ہے۔ میں اپنی زندگی بالکل فطری انداز میں گزارتی ہوں۔ یعنی ایک مسلم عورت کی طرح جو اپنے گھر، شوہر، اولاد، دین اور امت سب کی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے۔
یہی میری مختصر سوانح اور زندگی ہے۔ میں نے اس سے نصیحت، عبرت اور سبق کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا اور وہ یہ ہے کہ:’’پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اس کے، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘