پوتر گنگا

روشن سبطین

ٹھاکر رگھبیر اشنان سے فارغ ہوکر اشلوک پڑھتے ہوئے اس محلے کی طرف بڑھنے لگا جہاں رات کو ہندو مسلم فساد ہوا تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ وکیل تھا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ کورٹ تو جانا نہیں تھا، اس نے سوچا ذرا جائزہ لے ہی لوں۔ اس کا دل رات بھر کڑھتا رہا۔ رات کے سناٹے میںگولیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں، چیخیں سنائی دے رہی تھیں لیکن محلے کے سارے لوگ دم سادھے پڑے تھے۔ جیسے وہ سب سوگئے ہوں، مرگئے ہوں لیکن رگھبیر کو معلوم تھا ان کی طرح اور بھی کئی درد مند دل تڑپ رہے ہوں گے۔

رگھبیر کا دماغ عجیب سی کیفیتوں کا شکار تھا، جن میں رحم، غصہ، دکھ ہر جذبہ خلط ملط ہوگیا تھا۔ وہ کوئی تجزیہ نہیں کرپا رہا تھا کہ ذہن پر کون سا جذبہ زیادہ غالب ہے۔ اچانک ایک مہین سی چیخ نے اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس نے دائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو سکتے میں رہ گیا۔ گلی لاشوں سے پٹی پڑی تھی۔ اس کے سامنے والے دروازے پر ایک عورت کی لاش پڑی تھی۔ قریب ہی خون کا ایک چھوٹا سا منجمد تالاب بن گیا تھا جو کلیجی کے لوتھڑے کی طرح نظر آرہا تھا۔عورت دروازے کی سیڑھیوں پر پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھٹی ہوئی تھیں۔ ایک بازو میں ننھی سی بچی بھینچی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ لاش کے اکڑنے کی وجہ سے بازو کی گرفت اور مضبوط ہوگئی تھی۔ بچی بھوک اور گھٹن سے بلبلارہی تھی۔

رگھبیر نے گلی کے دوسرے سرے پر نگاہ ڈالی۔ وہاں کچھ جلے ہوئے مکانوں سے اب تک دھواں نکل رہا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا تھا۔ پولیس یا فوج کی گاڑیوں کا کہیں پتا نہ تھا۔شاید اس قبرستان میں داخل ہونے والا وہ پہلا انسان تھا۔ چند سیکنڈ اس نے ماحول کا جائزہ لیا۔ پھر لپک کر عورت کے اکڑے ہوئے بازو بمشکل علیحدہ کرکے بچی کو نکالا، اپنی چادر میں چھپایا اور تیزی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے صرف انسانیت کے اٹوٹ رشتے کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ یہ پاپ تھا یا پُن، اس نے اس کے بارے میں غور ہی نہ کیا تھا۔ اس وقت اس کو صرف اتنا یاد تھا کہ ایک بھوکی جان کو دودھ چاہیے۔ وہ کون ہے، کیا ہے؟ اس سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔

دھرتی اپنے شریر سے کالی چادر اتار کر سرمئی چادر اوڑھے تھی اور وہ سرمئی چادر اب اپنا رنگ بدل کر سفید ہورہی تھی۔ لپے پتے کچے صحن میں باہر دروازے کے سامنے لگے لیموں کے درخت پر چڑیوں نے اپنا راگ الاپنا شروع کردیا تھا۔ گرمیوں کے دن تھے لیکن صبح بڑی خوشگوار تھی۔ لیموں کے درخت کے ساتھ ہی تلسی کا پودا لگا ہوا تھا جس میں بھگتو پانی دے رہا تھا۔ سامنے کی طرف ایک کشادہ برآمدہ تھا جس میں کمروں کے دروازے کھلتے تھے۔ برآمدے میں جانے کے لیے صحن میں سیڑھیاں تھیں۔ اس برآمدے کے بائیں جانب جو برآمدہ صحن کے ساتھ ساتھ چلا گیا تھا اس کی سطح اونچی نہ تھی۔ اس میں اگر اوپری برآمدے سے اتر کر آیا جائے تو پہلے سندھیا کا کمرہ آتا تھا۔ اس کے بعد گودام، رسوئی اور سب سے آخر میں ایک کشادہ غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ رسوئی کے سامنے صحن کا جو حصہ برآمدے سے ملتا تھا۔ وہاں ایک چھوٹا سا بانس گڑا ہوا تھا جس سے ایک مٹکا بندھا تھا۔ قریب ہی دہی کی ہانڈی اور متھنی رکھی ہوئی تھی۔ مٹکے کے قریب تین چار پیڑھیاں بھی ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ رام دئی رسوئی میں ناشتہ تیار کررہی تھی۔ وہ ٹھکرائن کے میکے سے انہی کے ساتھ آئی تھی۔ دوسرا ملازم بھگتو تھا یہ سترہ اٹھارہ سال کا محنتی لڑکا تھا اور اس کے سپرد اوپر کے کام، صفائی، ستھرائی اور بھینسوں کو چارہ دینا تھا۔

کمرے کا دروازہ کھلا۔ کانتا کھڑاؤں پہنے کھٹ کھٹ کرتی برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر صحن میں آئی۔ اس نے اپنے سیاہ لمبے بال کمر پر پھیلا دیے۔ وہ قدرے بھرے بھرے جسم کی چھبیس سالہ عورت تھی۔ قد اونچا ہونے کی وجہ سے بھدی نہیں لگتی تھی۔ گندمی رنگت، گول چہرہ، بڑی بڑی سیاہ کاجل سے بھری آنکھیں، ماتھے پر چمکتی ہوئی بندیا اور سیندور سے بھری مانگ کے ساتھ دیوی لگ رہی تھی۔ گیلے بالوں نے پیچھے سے اس کی دھانی ساری بالکل بھگودی تھی۔ کانتا کا معمول تھا کہ صبح اٹھ کر پہلے نہاتی اور پوجا پاٹ کرتی، پھر صحن میں آکر دہی بلوتی اور مکھن نکالتی۔ یہ کام وہ بھگتو یا رام دئی سے نہیں لیتی تھی۔ کانتا نے مٹکے کے سامنے پیڑھی سرکاتے ہوئے لمبی سانس لی۔ لیموں کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو اس کے نتھنوں میں گھستی چلی گئی۔ اسے بڑا سرور محسوس ہوا۔

’’رام دئی! ذرا دیکھ، بچے اٹھ گئے ہوں تو منہ دھلوا کر ناشتہ دے دے۔‘‘

’’اچھا ٹھکرائن!‘‘ یہ کہتے ہوئے رام دئی بچوں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اسی وقت سندھیا کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ وہ بھی صحن میں آکر کانتا کے پاس بیٹھ گئی۔

سندھیا کانتا کی دور کی رشتے کی بہن تھی۔ بیچاری بہت دکھیاری تھی۔ بچپن میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہوگئی۔ ماما نے پرورش کی۔ وہ تھوڑی بہت ڈھکی چھپی محبت بھی کرتا تھا مگر مامی بڑی دبنگ تھی۔ اس نے سندھیا کے ساتھ سوتیلی ماؤں جیسا سلوک کیا اور ہمیشہ اسے اپنے بچوں سے کمتر سمجھا۔ سندھیا نے ماما کے بل بوتے پر مڈل پاس کیا اور جب اس نے اگلی جماعت میں داخلے کی ضد کی تو مامی الف ہوگئی۔ ہزاروں خرافاتیں سنائیں۔ ماما بیچارے کان دبا کر باہر نکل گئے۔ گاؤں کا اسکول مڈل ہی تک تھا ورنہ وہ شاید مامی سے آخری بار ضرور التجا کرتے۔

’’شری متی جی! زیادہ گیانی بننے کی کوشش مت کر اور گھر بیٹھ۔ میں تیرا گونا کررہی ہوں۔‘‘

سندھیا مامی کے اس الٹی میٹم پر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ ’’اب دیکھو کون سے نرک میں مجھے جھونکتی ہے۔‘‘ وہ مامی کی حاسد طبیعت کو خوب سمجھتی تھی اور مامی نے ایسا ہی کیا۔ اپنے دور کے رشتے کے چاچا کو بلوایا اور اس کے لڑکے سے رشتہ طے کردیا۔ ماما چیختا ہی رہ گیا کہ وہ لڑکے کو دیکھے گا۔ لیکن مامی کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور سندھیا سسرال پہنچا دی گئی۔ وہیں اس کے سات پھیرے کروائے گئے اور اس کا آنچل اس کے شوہر کی پگڑی سے باندھ دیا گیا۔

حجلہ عروسی میں پھولوں اور عطر کی خوشبوؤں کے بجائے دواؤں کے بھبکوں نے اس کا استقبال کیا۔ پتی دیو کی عمر اور کچھ نہیں پینتیس سال تو رہی ہوگی جبکہ سندھیا پندرہ سال کی سانولی سلونی کھڑے نین نقش کی لڑکی تھی۔ پتی دیو دن رات کھانستا رہتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی پتنی کی ناز برداری کرتا، الٹے سندھیا کو اس کی تیمار داری کرنی پڑی۔ وہ بستر پر لیٹا لیٹا حسرت سے بیوی کو تکا کرتا۔ اس کی آنکھوں میں سندھیا کے لیے ہمدردی اور دکھ کے ساگر لہرایا کرتے۔ اس نے اپنی ماں کو بہت منع کیاتھا کہ کیوں کسی کی زندگی برباد کرتی ہو، میں نہیں بچوں گا لیکن وہ ضدی بڑھیا نہیں مانی اور بڑی دھوم دھام سے سندھیا کو بیاہ لائی۔ اب یہ حکم بھی تھا کہ استری کو زیادہ سر نہ چڑھانا۔ سندھیا یتیمی کا دکھ بھول چکی تھی۔ دنیا کے سرد و گرم سے اچھی طرح واقف تھی۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ ہی بردبار تھی لیکن کبھی کبھی اس کا پتی جب کوئی ہنسی کی بات کرتا وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی، تب اس کی ساس جل کر مرنڈا ہوجاتی۔ جب سندھیا کمرے سے باہر آتی تو ساس چٹکیاں لے لے کر اس کے بازوؤں پر نیل ڈال دیتی۔ طعنے دے دے کر اس کے کانوں کے پردے پھاڑ دیتی۔

سندھیا صرف آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتی۔ اس کے حلق میں کوئی چیز پھنسنے لگتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ اپنے پتی کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی چبھن کم ہوجائے۔ اسے اپنے ماموں زاد بھائی کی بیوی یاد آتی۔ جب مامی اس پر برستی تو وہ اپنا غبار ہلکا کرنے کو بھیا کے سینے سے لگ کر آنسو بہایا کرتی۔ بھیا اپنی لانبی لانبی مضبوط انگلیاں اس کے بالوں میں پھیرتا، بالوں کو چومتا اور کبھی کبھی شرارت سے بھابی کو زور سے بھینچ بھی لیتا۔ بھابی ہلکے سے چیخ پڑتی، پھر باہر بھاگ جاتی اور جب وہ باہر آتی تو اس کی گلابی آنکھیں چمکنے لگتیں اور ہونٹوں پر پھولوں جیسی مسکان ہوتی۔ اس کے بعد مامی چاہے اسے کچھ بھی کہتی رہتی مگر وہ آنچل سے منہ چھپائے چپکے چپکے ہنسے ہی جاتی۔ کتنا فراخ تھا اس کے بھیا کا سینہ جس میں بھابی کا ہر دکھ سما جاتا تھا۔ کبھی کبھی جب بھابی رسوئی میں کام کرتی ہوتی، بھیادونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھے مسکرایا کرتا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی شرارت ناچتی جسے فقط بھابی ہی سمجھ پاتی۔ وہ کبھی شرماتی، کبھی مسکراتی کتنی پیاری لگتی تھی۔ سندھیا ان کی یہ خاموش گفتگو سنتی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔

اب شادی کے بعد سندھیا کا بھی جی چاہتا تھا کہ اس کا پتی بھی اسے اپنے سینے میں سمولے لیکن اس مدقوق سے آدمی کا دھنسا ہوا سینہ اور کھپچی جیسے بازو اسے کیا سکون دیتے؟ اس کے ٹھنڈے وجود میں محبت کی گرمی پتہ نہیں کب کی ختم ہوگئی تھی اور شادی کے تین ماہ بعد ایک دن وہ مرگیا۔ ساس نے اسے بری طرح کوٹا، ہاتھوں کی چوڑیاں پتھر مار کر توڑیں۔ مانگ کا سیندور رگڑ رگڑ کر اس طرح صاف کیا کہ اس کی مانگ سے خون رسنے لگا، بال جڑوں سے اکھڑگئے۔

ارتھی شمشان گھاٹ پر لائی گئی۔ جب چتا میں آگ لگائی گئی تو وہ بالکل گم سم کھڑی تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی ناٹک کھیلا جارہا ہو، جس میں اس کاکردار کچھ بھی نہ ہو۔ وہ صرف تماشائی تھی۔ اچانک اس کی ساس نے اس کا پورا جھونٹا پکڑ کر ہلادیا اور دونوں ہاتھوں سے اسے کوٹنے لگی۔ سندھیا بت بنی پٹتی رہی جیسے یہ سب کیا دھرا اسی کا ہو۔

’’ہائے میری میا! جب سے یہ ڈائن گھر میں آئی، میرے پوت کی حالت بگڑتی گئی۔ اے کلموہی! نکل میرے گھر سے۔ ناگن! اب مجھے ڈسے گی کیا؟‘‘ پڑوسن نے سندھیا کو ساس کی مارکٹائی سے بچایا۔ سندھیا ادھ موئی ہوگئی تھی، لیکن ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوگیا۔ اب کوئی سوچ تھی نہ غم، جیسے ایک سین ختم ہونے کے بعد انسان دوسرے سین کا انتظار کرتا ہے۔ اسے تو دکھ سہنے کی عادت تھی۔ اگلے سین کو کیا سوچتی، سب سامنے تھا۔ اسے اب کسی چیز کا تجسس یا انتظار نہ تھا۔

’’اے بہن کرپا کر۔ تو اسے اپنے گھر لے جا ورنہ میں اس کا کھون کردوں گی۔‘‘ اس کی ساس پھر مارنے کو لپکی۔ پڑوسن نے اسے اپنے سینے سے لگالیا۔ وہ بھی جوان بیٹیوں کی ماں تھی۔

’’اے موسی! تو خواہ مخواہ مارے جارہی ہے اسے۔ اس کا کیا دوش۔ وہ آپ ہی مرنے جو گاتھا۔ تو نے شادی کرکے اس بیچاری کی جندگی کھراب کی۔‘‘ پڑوسن اسے اپنے گھر لے آئی۔ ساس نے دروازے بند کرلیے کہ اب اس سسرال سے ناتا ٹوٹ گیا۔ مامی کے پاس کیا جاتی۔ اسے کانتا یاد آئی جو اس سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب کبھی گاؤں آتی اس کے لیے شہر سے کچھ نہ کچھ ضرور لاتی۔ اکثر کانتا نے اسے اپنے ساتھ شہر بھی لے جانے کی بات مامی سے کی تھی لیکن مامی نے اپنی بدنامی کے خیال سے نہ بھیجا کہ لوگ سمجھیں گے وہ اب رکھنا نہیں چاہتی۔

’’چاچی! تو مجھے کانتا دیدی کے پاس شہر بھجوا دے۔ تیری بڑی کرپا ہوگی۔‘‘ اس نے اتنی لجاجت سے ہاتھ جوڑ کر یہ الفاظ کہے کہ پڑوسن (چاچی) بھی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اسے اس معصوم لڑکی کی بپتا پر اپنا دل پھٹتا محسوس ہوا۔ چاچی سندھیا کی ساس کی وجہ سے اسے اپنے پاس نہ رکھ سکتی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے پتی کے ساتھ اسے شہر بھیج دیا کانتا کے پاس۔ کانتا (ٹھکرائن) سندھیا کی دور کی رشتے سے بہن ہوتی تھی لیکن سندھیا کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی، اسے اپنے سینے سے لگا کر اس درد سے روئی کہ کوئی سگی بہن بھی اس طرح اسے سینے سے نہ لگاتی۔ دونوں ایک دوسرے سے چمٹی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہیں۔ سندھیا کے سینے میں صرف ایک حسرت کروٹیں لے رہی تھی کہ وہ اپنے پتی کے سینے سے لگ کر کبھی رو بھی نہ سکی۔ اس کے ناپختہ ذہن میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کنیا کیا ہوتی ہے، سہاگن کون اور بدھوا کیسی؟ اس کے جسم پر ایک میلی سی دھوتی تھی۔ سر پر اجڑے بالوں کا بڑا سا گچھا، زخمی کلائیاں، نوچی کھسوٹی اجڑی مانگ جو اب کبھی سیندور سے نہیں بھری جاسکے گی۔

کانتا خود میٹرک تک پڑھی تھی، تعلیم کی اہمیت کو سمجھتی تھی، لہٰذا اس نے سندھیا کو نویں کلاس میں داخل کروادیا۔ سندھیا میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی۔ ایک دفعہ ماما، مامی دکھاوے کے اسے لینے بھی آئے۔ ایک تو وہ خود جانے پر راضی نہیں تھی۔ دوسرے کانتا بھی اسے بھیجنا نہیں چاہتی تھی۔ ماما مامی گاؤں واپس چلے گئے۔ پھر انھوں نے خبر بھی نہ لی کہ سندھیا زندہ ہے یا مرگئی۔

سندھیا نے انٹر کا امتحان نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کرلیا تھا۔ وہ کانتا کی دونو ںبیٹیوں دس سالہ کملا اور آٹھ سالہ بملا کو بھی پڑھاتی تھی۔ کانتا کا بیٹا رندھیر ابھی پانچ سال کا تھا۔ وہ تو سندھیا موسی کی گود ہی میں پلا تھا اور اب اسی کی گود میں بیٹھ کر پڑھتا تھا۔

’’دیدی! جیجا جی ابھی تک اشنان کرکے نہیں لوٹے۔‘‘ سندھیا نے کانتا سے سوال کیا۔

’’شاید وہ مسلمانوں کے محلے کی طرف نکل گئے ہوں جہاں رات فساد ہوا تھا۔‘‘

’’ہاں رات کو تو میں بھی بالکل نہیں سوئی۔ گولیوں کی آواز اور چیخ پکار دل ہلا رہی تھی۔ میں نے اپنی کھڑکی سے دیکھا تھا شاید آگ بھی لگی ہے۔‘‘

’’رام جانے کیا ہوا۔‘‘ کانتا نے دہی بلوتے ہوئے کہا۔

’’پتہ نہیں یہ سب کیسے ہوا کیوں ہوا؟ کون نردوشی ہے، کون پاپی؟‘‘ سندھیا نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’چنگاری کہیں نہ کہیں سے اڑ کر کھلیان پر گری۔ پورا کھلیان جل گیا کون دوشی ہے کون نردوشی بھگوان جانے۔ سامنے والے گھر میں جو سیالکوٹی آئے ہیں ان کی بڈھی کو دیکھا ہے کیسا کلپ کلپ کر روتی ہے۔ ‘‘ کانتا نے مٹکے سے مکھن اتارا اور لوئی بناکر تھالی میں رکھا۔ اسی وقت صحن کا دروازہ چرچرا کر کھل گیا اور ٹھاکر رگھبیر تیزی سے اندر داخل ہوا۔ اس کی چادر کے اندر چھپی کندھے پر کوئی چیز کلبلا رہی تھی۔ ٹھکرائن اور سندھیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹھاکر کو دیکھنے لگیں۔ ٹھاکر کے چہرے پر کرختگی تھی۔ یہ اس وقت اس کے چہرے پر آتی تھی جب وہ کوئی اٹل فیصلہ کرتا تھا۔ ویسے تو سارا حکم کانتا ہی کا چلتا تھا لیکن ایسے وقت میں وہ ہتھیار ڈال دیتی تھی۔ کانتا کے چہرے سے رعب اور تمکنت غائب ہوچکی تھی۔ صرف وسوسہ اور تجسس تھا۔ وہ بچوں کی سی معصومیت لیے ڈری سہمی سی ٹھاکر کو دیکھ رہی تھی۔ کوئی دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ وہ تین بچوں کی ماں نہیں خود بچی ہے۔ ٹھاکر کانتا کے نزدیک آگیا۔ وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے برابر ہی سندھیا، بچے اور دونوں ملازم بھی کھڑے تھے۔ ٹھاکر نے اپنے ہاتھ پر سے چادر اٹھائی تو وہ کلبلاتی شے سامنے آگئی۔ اس نے بچی کو کانتا کی گود میں دینا چاہا جو مکھن سے بھرے ہاتھ پیچھے کیے کھڑی تھی۔

’’رام، رام نہیں نہیں، یہ یہ۔ دھرم بھرشٹ ہوجائے گا۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ نفی میں ہلاتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ لیکن اس کی نظریں بدستور بچی پر جمی تھیں۔ بچی خون میں بری طرح لتھڑی ہوئی تھی۔ اس کی ننھی سی فراک خون خشک ہونے سے کلف کی طرح اکڑگئی تھی۔ بچی بھی سرموڑے سب کا جائزہ لے رہی تھی۔ وہ خاصی تندرست اور سرخ و سپید تھی۔ نرگسی آنکھیں، چھوٹا سا گلابی دہانہ، ستواں ناک، آنکھوں پر گھنیری پلکوں کا سایہ تھا۔ بال بھی خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں چہرہ کس طرح بچ گیا تھا۔ کملا کو ابکائی سی آنے لگی۔

’’پتا جی! یہ کیا ہے؟‘‘ کملا نے باپ سے سوال کیا، لیکن ٹھاکر بدستور ٹھکرائن پر نگاہیں جمائے کھڑا تھا۔

’’کمل کی ماں! اتنی کٹھور نہ بنو۔ اسے لینے سے تمہارا دھرم بھرشٹ نہیں ہوگا بلکہ جیون سپھل ہوجائے گا۔‘‘ ٹھاکر نے کانتا کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ سندھیا جانتی تھی کہ کانتا مرکر بھی اس بچی کو نہیں اٹھائے گی اور یہ بات کہیں بڑھ نہ جائے۔ اسے ٹھاکر کا مان رکھنا ہی تھا۔ وہ آگے بڑھی۔

’’جیجا جی! اسے مجھے دے دیں۔‘‘ سندھیا نے سر پر ساری درست کی اور ہاتھ آگے بڑھا دیے۔ دوسرے ہی لمحے بچی سندھیا کی گود میں تھی اور ٹھاکر کے سر کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا۔

سندھیا نے بچی کا نام سیتا رکھ دیا۔ سیتا جی کو بھی بن باس ملا تھا اور اس بچی کو بھی بن باس مل گیا تھا۔ سندھیا کو بی اے کرنے کے بعد ایک اسکول میں ملازمت مل گئی۔ وہ سیتا کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتی۔ سیتا کو اب تک رسوئی میں یا پوجا پاٹھ کی جگہ جانے کی اجازت نہ تھی۔ وہ کانتا کے لیے اب بھی اچھوت تھی۔ ایک دن غلطی سے سیتا اس کے پوجا کے کمرے میں چلی گئی، اور ایک مورتی کو چھولیا تو کانتا نے اس پانچ سالہ بچی کو بے تحاشا پیٹا تھا، اگر رام دئی نہ چھڑاتی تو سیتا کا خون ہوجاتا۔

’’ٹھکرائن! ایکا ماپھ کردئیو، اس دکھیا کا کیا پتہ؟‘‘ رام دئی نے سیتا کو اپنے آپ سے چمٹاتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔

’’ہے رام دیا کرنا، اس ناگن نے میرا دھرم لے لیا۔‘‘ کبھی کانتا مورتیوں کے آگے ہاتھ باندھ کر معافی مانگتی اور کبھی خونخوار نظروں سے سیتا کو گھورتی۔ سندھیا دور کھڑی یہ تماشا دیکھتی رہی۔ رام دئی نے تمام کمرہ اور مورتیاں گنگا جل سے دھوئیں، لوبان سلگائی، تب بھی ٹھکرائن کا وہم دور نہ ہوا۔ وہ کبیدہ نظروں سے سیتا کو دیکھتی ہی رہی۔ سندھیا نے سیتا کو وہاں سے لے جاکر اپنے کمرے میں بند کرلیا۔ دونوں اپنے اپنے دکھوں پر گھنٹوں روتی رہی تھیں۔

اب سیتا کو بھی ہوش آنے لگا تھا۔ وہ عجیب عجیب سے سوالات سندھیا سے کرتی۔ مثلاً یہ کہ وہ ٹھاکر اور ٹھکرائن کو کملا، بملا اور رندھیر کی طرح پتا جی اور ماتا جی کیوں نہیں پکار سکتی؟ ٹھکرائن اس سے اتنی بے زار کیوں ہے؟ ٹھاکر اس کی طرف اس طرح توجہ کیوں نہیں دیتا جیسی کملا کو دیتا ہے۔ سندھیا اسے سمجھاتی تو خیر کیا، بہلایا کرتی تھی، لیکن سیتا اپنے اور موسی کے مقام کا تعین کرتی اور الجھتی رہتی۔

ٹھاکر کی بڑی بیٹی نے میٹرک پاس کرلیا۔ صورت شکل کی کملا بہت اچھی تھی۔ ایک تو ٹھاکر کی ساکھ، دوسرے کملا کا حسن، ہر طرف سے رشتوں کا تانتا بندھ گیا۔ ٹھاکر کو بھی کونسی لڑکی کو نوکرانی کرانی تھی۔ پھر کملا بھی یوں ہی پڑھ رہی تھی، اسے کوئی خاص شوق نہ تھا، تعلیم حاصل کرنے یا کچھ بننے کا۔ عورت کا صرف ایک ہی پہلو اس کے سامنے تھا، ایک ہی تصور تھا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھی یعنی بیوی اور ماں۔

ٹھاکر کا گھر بجلی کے تاروں کی ڈوریوں میں پروئے قمقموں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ ہر طرف خوشیوں کے فوارے ابل رہے تھے۔ صحن میں دلہن کو منڈپ میں بٹھا کر سہاگن رسمیں کرائی جارہی تھیں۔ سندھیا اور سیتا اپنے کمرے کی کھڑکی کے پردے سے جھانک کر چوری چوری یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ حالانکہ سیتا کا دل بہت مچلا تھا کہ وہ اچھے اچھے کپڑے پہن کر مہمانوں میں گھومتی پھرے، لیکن سندھیا نے اسے اپنے پاس روک لیا تھا۔ سیتا نے کپڑے بہت پیارے پہنے تھے۔ یہ گول مٹول سی گڑیا سندھیا کو بہت عزیز تھی جس نے اسے جینے کا چلن بتادیا تھا لیکن یہ گڑیا باہر نہیں جاسکتی تھی۔ اتنی من موہنی ہونے پر بھی پتہ نہیں کانتا کے دل میں اس کے لیے پیار کیوں نہیں تھا؟ سب سندھیا کے وجود سے باخبر تھے، لیکن کسی عورت کی اتنی ہمت نہ تھی کہ سندھیا کا نام بھی لے سکے۔ ویسے تو کانتا سندھیا کو بہت چاہتی تھی لیکن اس شگون کے موقع پر وہ بخوبی جانتی تھی کہ معاشرے میں بدھوا عورت کتنی منحوس سمجھی جاتی ہے۔ یہی بہت بڑا احسان تھا کہ کانتا نے اسے اپنے گھر میں پناہ دے دی ورنہ نہ جانے وہ کہاں در بدر خاک چھانتی پھرتی۔

سیتا اس بن باس میں کانٹے ہٹاتی، جھاڑیوں سے الجھتی، سندھیا کا ہاتھ تھامے راستے تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ سندھیا نے اسے دھیرے دھیرے سب کچھ بتادیا تھا۔ سیتا اکثر سوچتی اگر میں مسلمان کی بیٹی ہوں تو مجھے مسلمان ہونا چاہیے، لیکن کیسے؟ کیوںکر؟ کیا پھر ٹھاکر کے گھر اسے پناہ ملے گی؟ پھر وہ کہاں جائے؟ کسی اناتھ آشرم میں؟ ’نہیں، نہیں‘‘ وہ گھبرا جاتی۔ ’’ہے بھگوان! تو میری سہائتا کر۔‘‘ وہ بھگوان کے آگے گڑگڑاتی۔

میٹرک کے امتحانات ختم ہوتے ہی سیتا بیمار پڑگئی۔ شروع میں تو معمولی بخار ہی تھا، پھر اس نے ٹائیفائڈ کی شکل اختیار کرلی۔ ٹھاکر بھی پریشان ہوگیا۔ سندھیا تو دن رات روتی رہتی۔ اسے دکھ کا صحیح ادراک سیتا کے بیمار ہونے ہی پر ہوا تھا۔ ماں باپ جب مرے تھے، وہ بالکل نا سمجھ تھی۔ وہ یہ بھی نہ سمجھتی تھی کہ ماں باپ کیاہوتے ہیں۔ پتی سے اسے کوئی محبت ملی ہی نہ تھی۔ کل تین ماہ کا ساتھ، وہ بھی بھولا بسرا سپنا بن گیا تھا۔ پھر اس کی عمر کا تقاضا تھا، لیکن سیتا کی بیماری نے جو قلبی اذیت اسے دی اس نے سندھیا کو نیم پاگل سا کردیا۔ اس کی کل کائنات اور زندگی کا محور اب سیتا تھی۔

شام کا وقت تھا۔ ٹھاکر رگھبیر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ صحن میں بیٹھا تھا۔ سب خاموش بت بنے اپنی کرسیوں میں چسپاں سے لگ رہے تھے۔ ٹھاکر سیتا کی زندگی کی طرف سے مایوس ہوگیا تھا، مسئلہ کریا کرم کا تھا۔ ایک مسجد کے مولوی بلائے گئے تھے۔ ٹھاکر کے دوستوں کا خیال تھا کہ ایک مسلمان کو ہندو پنڈت چتا پر نہیںرکھے گا۔

’’اس لڑکی کی عمر کیا ہے؟‘‘ مولوی نے ٹھاکر سے سوال کیا۔

’’سولہ سال۔‘‘ ٹھاکر نے مختصر سا جواب دیا۔

’’نام؟‘‘

’’سیتا‘‘

’’اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندو ہی ہے۔‘‘ مولوی نے کہا۔

’’مولوی صاحب! آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس نے ایک مسلمان کے گھر میں جنم لیا تھا۔‘‘

’’ٹھاکر صاحب! آپ یہ کیوں بھولتے ہیں کہ اس نے ایک ہندو گھرانے میں پرورش پائی۔ آپ بتاتے ہیں جب وہ آپ کو ملی تو صرف چھ ماہ کی تھی، آپ کے اندازے کے مطابق۔ پھر اس نے وہی طور طریقے اپنائے جو ہندو مذہب میں رائج ہیں۔ اس کا نام سیتا ہے۔ آپ پھر بھی مصر ہیں کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘

’’بھئی ایک بچہ جس مذہب کے ماں باپ سے پیدا ہوتاہے، اسی مذہب سے پکارا جاتا ہے۔‘‘ ٹھاکر نے کہا۔

’’چاہے خود وہ بچہ بڑاہوکر کوئی بھی مذہب اختیار کرلے؟‘‘ مولوی نے پوچھا۔ ٹھاکر کے دوست اور وہ خود الجھ سے گئے۔

’’آپ کے یہاں تو ذرا کم عمری ہی میں لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ آپ نے سیتا کی شادی کیوں نہیں کی؟‘‘ مولوی نے دوسرا سوال ٹھونک دیا۔

’’کسی مسلمان کا اچھا رشتہ آتا تو میں کردیتا۔‘‘

’’آپ نے اس لڑکی کو مذہبِ اسلام کی تعلیم دی ہے کیا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تو پھر یہ کیسے ظاہر ہو کہ وہ مسلمان ہے جبکہ اس کے تمام طور ہندوانہ ہیں۔ آپ کو اس سے بڑی ہمدردی معلوم ہوتی ہے؟‘‘ مولوی نے دوسرا داؤ چلایا۔

’’مولوی صاحب! یہاں مسئلہ اس کے کریا کرم کا ہے، شادی کا نہیں۔‘‘ رام نارائن نے تنگ آکر کہا۔

’’آپ کا ایک لڑکا ہے۔ آپ نے اس سے سیتا کی شادی کیوں نہیں کردی؟‘‘ مولوی پھر اسی موضوع پر آگیا اور اس نے ٹھاکر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ٹھاکر نے خود یہ سولہ سال کرب کے عالم میں گزارے تھے۔ اس کا ضمیر جو کچھ کہتا تھا اس پر عمل کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔ وہ اپنے ضمیر کے ساتھ تنہا تھا، کوئی اس کا ساتھی نہ بنتا، اسے ذات برادری سے الگ کردیا جاتا۔ خود اس کے بیوی بچے اس کے ہمنوا نہ ہوسکتے۔

’’اچھا مولوی صاحب! آپ مجھے بتائیں۔‘‘ ٹھاکر نے ضمیر کو سلادیا۔ وہ پھر دنیا کی بات کررہا تھا۔ اس دنیا کی اس معاشرے کی، جہاں سانس لینے کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہے، ان غلطیوں سے معاہدے کرنے ہی میں فلاح ہے، دنیاوی نجات ہے جہاں بہت سے ’’ہاں‘‘ ہوں، وہاں ایک سچ ’’نہیں‘‘ پر کون توجہ دیتا ہے۔

’’پوچھئے، پوچھئے۔‘‘ مولوی نے خود اعتمادی سے کہا۔

’’اگر آپ اہیر کا بچہ پالیں اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کریں اور جب وہ بڑا ہوجائے اور آپ سے آپ کی لڑکی کا رشتہ مانگے تو کیا آپ اپنی لڑکی اس کے ساتھ بیاہ دیں گے؟‘‘

مولوی کی تمام خود اعتمادی غائب ہوگئی۔ وہ گھبرا کر بغلیں جھانکنے لگا۔ ٹھاکر کے دوستوں نے انہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں داد دی۔

’’لاحول ولا قوۃ، لا حول ولا قوۃ۔‘‘ مولوی غصے سے دانت پیسنے لگا۔

’’پھر بتائیں کیا کیا جائے۔‘‘ ٹھاکر نے اپنے مطلب پر آتے ہوئے کہا۔

’’میں تو ایک بات جانتا ہوں اگر اس لڑکی نے کلمہ نہیں پڑھا اور نماز روزہ پر جو اس پرواجب ہے، عمل پیرا نہیں رہی تو اس کی نما زِ جنازہ میں نہیں پڑھ سکتا۔ میرا محدود تجربہ یہی بتاتا ہے۔‘‘ مولوی یہ کہتا ہوا چلا گیا۔

سندھیا نے گیتا پڑھتے پڑھتے زمین پر لیٹی سیتا کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھا۔ وہ جاگ رہی تھی۔ سندھیا ڈرتے ڈرتے سیتا کے قریب آئی۔ اس نے تو اس بچی کو چند گھڑیوں کی مہمان سمجھ کر زمین پر لٹا دیا تھا مگر نبض چل رہی تھی۔ اس نے سیتا کی کلائی پکڑ کر نبض دیکھی۔ رفتار بہت کمزور تھی مگر نبض چل رہی تھی۔ سیتا پسینے میں شرابور تھی۔ سندھیا نے تھرتھراتے ہاتھوں سے میز پر پڑا تھرمامیٹر اٹھاکر اس کا بخار دیکھا۔ خوشی اور حیرت سے تھرمامیٹر اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔

’’موسی! تم چنتا نہ کرو، میں ٹھیک ہوگئی ہوں۔‘‘ سیتا نے کمزوری سے مسکراتے ہوئے کہا اور سندھیا کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس کا بخار تو کب کا اتر چکا تھا۔ اس نے باہر ہونے والی تمام گفتگو لفظ بلفظ سن لی تھی۔ دکھ کی ایک اور مہر اس کے سینے پر داغ دی گئی تھی۔

’’جیجا جی! رہنے دیں۔ سیتا بھگوان کی کرپا سے ٹھیک ہوگئی ہے۔‘‘ سندھیابھی ان مسائل کو سن سن کر تنگ آگئی تھی۔ اب ان سب کا وہاں بیٹھ کر باتیں کرنا اس کے دل میں وہم ڈال رہا تھا۔ اس نے دروازے کی اوٹ سے ٹھاکر کو اطمینان دلا دیا۔ ٹھاکر نے اپنی خوشی دباتے ہوئے اطمینان کی سانس لی۔ رندھیر کی تیمارداری کی محنت بھی وصول ہوگئی تھی۔ اس کا ڈاکٹری کا تیسرا سال تھا۔ رندھیر ہی کے مشورے سے ڈاکٹر بلائے گئے۔ ٹھاکر نے دل کھول کر سیتا کے علاج پر پیسہ خرچ کیا۔ کانتا کی ہمت نہ پڑی کہ بول سکے، حالانکہ وہ بھی سیتا کی موت نہ چاہتی تھی بلکہ اب تو وہ دن میں دو ایک بار اس کا حال چال پوچھ لیتی۔ پیسے کے معاملے میں وہ تھوڑی کنجوس ضرور تھی۔

رندھیر، سیتا کے خاصا قریب آگیا تھا۔ اب اس نے سیتا کے متعلق دوسرے انداز سے سوچنا شروع کردیا تھا۔ چھیڑ چھاڑ اور شرارت کی اسے بچپن ہی سے عادت تھی، اپنی بڑی بہنوں کو بھی ستایا کرتا۔ کملا کا شوہر سی اے کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا تھا۔ کملا بھی شوہر کے ساتھ سدھار گئی تھی۔ تین پیارے پیارے گول مٹول سے بیٹے تھے اس کے۔ بملا کی شادی بیرسٹر سے ہوئی تھی، وہ دوسرے شہر میں پریکٹس کرتا تھا۔ بملا مہمانوں کی طرح سال چھے مہینے میں میکے آتی تو ہر وقت اسے پتی کا خیال ہی ستایا کرتا۔ اس کی بچی موہنی ہر وقت باپ کو یاد کرتی رہتی۔ سو بملا مہینہ بھر مشکل سے رہتی۔ رندھیر موہنی کو بے انتہا چاہتا تھا۔ جب بملا گھر سے رخصت ہوتی تو بڑی لدی پھندی ہوتی، سب کے تحفے اس کے ساتھ ہوتے۔ رندھیر کئی دن موہنی کے لیے اداس پھرتا۔ اب گھر میں صرف سیتا تھی، جس سے وہ کچھ دیر ٹیبل ٹینس کھیل لیتا یا تھوڑا بہت ہنسی مذاق، کالج کے لطیفے سنائے جاتے۔

سیتا کی بیماری نے رندھیر کی سوچ کا رخ بدل دیا تھا۔ وہ بے سہارا تھی۔ اسے کسی کو تو سہارا دینا تھا۔ رندھیر کو ہمیشہ کی یہ لاوارث لڑکی بیماری کے دوران کچھ اور لاوارث نظر آئی۔ اس کا کوئی سہارا نہ تھا۔ ’’میں اسے سہارا دو ںگا۔‘‘ رندھیر نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا۔

بچے کی پیدائش کے سلسلے میں بملا میکے آئی ہوئی تھی۔ اس کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ ٹھکرائن بہت خوش تھی۔ سیتا کو بھی بملا دیدی کا گڈا بہت پسند آیا۔ موہنی اب چھ سال کی ہوگئی تھی، اور سیتا سے اس کی پکی دوستی تھی۔ بملا نے شروع سے سیتا کے ساتھ چھوٹی بہنوں کا سا سلوک کیا تھا۔ البتہ کملا نے اپنی ماں کا سا رویہ ہی اختیار کیا تھا۔

رندھیر کے بدلے ہوئے رویے کو سیتا ہی نے نہیں بملا نے بھی محسوس کیا تھا، لیکن وہ اپنے بچوں میں اس طرح الجھی ہوئی تھی کہ زیادہ دھیان نہ دے سکی۔ اپنی غلط فہمی سمجھ کر نظر انداز کرگئی۔ سیتا اپنے کالج کے داخلے کے سلسلے میں مصروف تھی۔ بملا نے سوچا کالج میں پڑھنے کے لیے اپنی دیکھ بھال کی طرف زیادہ ہی توجہ دینی پڑتی ہے۔ چونکہ لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں، اس لیے اب پہلے کی نسبت اچھی اچھی ساریاں پہن کر کالج جاتی ہے۔ تعلیم کا سارا خرچ ٹھاکر دیتا تھا۔ اس کے علاوہ کپڑے وغیرہ بھی کانتا کے ذریعے اسے مل جاتے۔ سندھیا نے کئی بار ٹھاکر سے کہا بھی کہ اب میں بھی سیتا کا خرچ اٹھا سکتی ہوں لیکن ٹھاکر نہیں مانا۔ اپنی بیٹیوں کو اس نے میٹرک تک پڑھایا اور پھر ان کی شادیاں کردیں، لیکن سیتا کو بغیر کسی مقصد کے گھر بٹھانے کا اس کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ اس کی شادی ٹھاکر کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی تھی۔ اس نے باتو ںہی باتو ںمیں اپنے کئی مسلمان دوستوں کی رائے بھی معلوم کی۔ مشورہ سب دیتے رہے مگر عملی قدم اٹھانے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔

کالج میں سیتا کے ساتھ دو مسلمان لڑکیاں آسیہ اور صباحت بھی داخل ہوئیں۔ ارملا اور شری رما پاٹھ شالاہی سے اس کے ساتھ تھیں، وقت اچھا گزرنے لگا۔ اب سندھیا بھی اس کے لباس کا خاص خیال رکھتی۔ درجنوں ساریاں اس کے لیے لاکر رکھ دی تھیں۔ بیماری کے بعد سیتا پہلے سے زیادہ تندرست اور کھلی کھلی سی ہوگئی تھی۔ رندھیر روز بروز اس کے قریب ہوتا جارہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ سیتا اس کے پیغامات کو سمجھتی نہ ہو لیکن وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی تھی۔ وہ یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس اگنی میں کودنے کا مطلب اپنے شریر کو بھسم کرنے کے مترادف ہوگا لیکن وہ عمر کی اس منزل میں تھی جہا ںمنطق بیکار ہوجاتی ہے، صرف دل دھڑکتا ہے۔

وقت گزرتا گیا، آسیہ بتدریج اس کے قریب آتی گئی۔ سیتا کے تمام حالات اسے معلوم تھے۔ اس نے سیتا کو اردو پڑھائی جو اس نے ایک سال میں سیکھ لی۔ اب وہ اردو کی کتاب پڑھ لیتی تھی۔

سب سے پہلے سیتا کو آسیہ نے مذہبی کتابیں پڑھنے کو دیں اور پھر سیتا الجھتی ہی گئی۔ دعا مانگتے مانگتے وہ گڑبڑا جاتی۔ کبھی اس کے منہ سے بھگوان نکلتا کبھی خدا۔ اسے ڈر رہتا کہیں نام کے ردوبدل سے اس کا داتا ناراض نہ ہوجائے۔ سیکنڈ ائر سائنس کا امتحان اس نے اور آسیہ نے نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا۔ سندھیا کی تمنا تھی کہ سیتا ڈاکٹری پڑھے۔ ادھر سیتا، سندھیا کو ماں سے زیادہ چاہتی تھی، اس کا کہنا کیسے ٹالتی۔ اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ آسیہ کا شروع سے ارادہ میڈیکل کرنے کا تھا، چنانچہ دونوں سکھیاں پھر ساتھ ہوگئیں۔

آسیہ نے آج داخلے کی خوشی میں اپنی اسکول اور کالج کی سہیلیوں کی پارٹی کی تھی۔ سیتا کو بھی بلایا۔ سیتا ویسے بھی اس کی امی سے کئی بار مل چکی تھی۔ وہ آسیہ سے اس کی بڑی تعریف کرتیں اور بہت محبت سے پیش آتیں۔ آسیہ اپنے بھائی جان کے لیے لڑکیاں دیکھ رہی تھی۔ بھائی کو کوئی لڑکی پسند ہی نہ آتی۔ آج آسیہ کا ارادہ بھیا کو سیتا دکھانے کا تھا… اور جب بھائی نے سیتا کو دیکھا تو آسیہ کی پسند کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ آسیہ اپنے بھائی کامران کو سیتا کے تمام حالات مختصراً بتا چکی تھی۔ بھائی کی رضا مندی پاکر وہ بہت خوش ہوئی۔ ماں پہلے ہی سیتا کو پسند کرتی تھی۔

شام کا وقت تھا۔ لان میں کھانے کا سامان میزوں پر سجایا جاچکا تھا۔ لڑکیاں رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حسین لگنے کی کوشش کررہی تھیں۔ سیتا نے چندری کی ساری پر سرخ بلاؤز پہنا ہوا تھا۔ بالوں کا سادہ جوڑا بنالیا تھا۔ جسم پر ہلکا سا زیور تھا۔ اس کا اپنا حسن اتنا بھر پور تھاکہ کسی مصنوعی سجاوٹ کی ضرورت نہ تھی۔ وہ بغیر میک اپ کے بھی حسین اور قدوقامت میں نمایاں نظر آرہی تھی۔ اور کامران انتظام کرتے وقت سوچ رہا تھا کہ خدا کرے ٹھاکر مان جائے۔

رندھیر کامیڈیکل کا آخری سال اختتام پر تھا اور سیتا داخل ہوئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے کچھ اور قریب آگئے۔ اب گھر پر بھی اچھا خاصا وقت ساتھ گزرتا۔ ٹھکرائن اسے پسند تو نہ کرتی تھی لیکن اسے اپنے بیٹے پر پورا بھروسا تھا۔ وہ خاموشی سے دونوں کو نظروں میں رکھے ہوئے تھی۔

سیتا اور رندھیر لان میں ٹینس کھیلتے کھیلتے تھک گئے تو مہندی کی باڑ کے پاس بنے ہوئے پتھر کے بینچ پر سستانے لگے۔

’’اب میں نہیں کھیلوں گی۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تم نے دیکھا نہیں تمہاری ماتا جی ہمیں کس طرح گھورتی ہوئی گزری ہیں۔‘‘ سیتا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں میرے وچن کا وشواس نہیں۔‘‘

’’تمہارے وچن کا وشواس ہے مجھے پر بھاگیہ کا بھروسہ نہیں۔ میں تو سدا کی ابھاگن ہوں۔‘‘

’’میں اس ابھاگن کو اپنی سہاگن بنالوں گا۔ اس کی مانگ میں سیندور بھروں گا۔‘‘ اس نے سیتا کی مانگ میں اپنی انگلیاں پھیریں۔ سیتا گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ دونوں کو احساس ہی نہ ہوا کہ مہندی کی باڑ کے پیچھے کون کھڑا ہے۔

’’دیکھو رندھیر! منش اگر دھرتی سے اچھل کر آکاش کو چھونے کی کوشش کرے تو الٹے منہ دھرتی پر ہی گرتا ہے۔ میں آکاش کو چھونے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘

’’اور اگر آکاش خود نیچے آجائے تو؟‘‘

سیتا کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا وہ ریکٹ ہلاتی اندر بھاگ گئی۔ باڑ کے پیچھے کھڑی ٹھکرائن دانت پیس رہی تھی۔ وہ اپنے بیٹے سے کچھ کہہ کر اسے بدلحاظ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ٹھاکر سے کہنا بھی بیکار تھا۔ بیٹے کی رائے معلوم ہونے پر کوئی بھروسہ نہیں، وہ بھی اس کا ہم نوا بن جائے۔ اسے تو سیتا ہی کی گردن دبانی تھی۔

’’دیکھ سیتا! تو نے اس گھر میں جیون پایا اور جس تھالی میں کھاتے ہیں، اس میں چھید نہیں کرتے۔ رندھیر میرا ایک پتر ہے۔ میں ایسا کبھی نہ ہونے دوں گی۔ چاہے میرے پران جائیں یا تیری ہتھیا کرنی پڑے۔‘‘ ٹھکرائن نے پھنکارتے ہوئے کہا۔

سیتا سہم گئی۔ سندھیا کی جان نکل گئی۔

’’سیتا! تو کیوں پاگل ہورہی ہے۔‘‘ سندھیا نے سمجھایا۔

’’موسی! کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم یہاں سے کہیں اور چلے جائیں؟‘‘

’’آشرم میں؟‘‘ سندھیا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔

’’نہیںموسی! تم اچھی خاصی نوکری کرتی ہو، تمہیں پاٹھ شالا کی طرف سے بھی گھر مل سکتا ہے۔ جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی، حالات اور سدھر جائیں گے۔‘‘

سندھیا کو رونا آگیا۔ وہ بیچاری خود سائے سے محروم تھی، یہاں پر اسے ٹھاکر کی ساکھ کی وجہ سے سایہ ملا ہوا تھا، چھت ملی ہوئی تھی۔ ابھی وہ عمر کے اس دور میں داخل نہ ہوئی تھی جہاں عورت پر کوئی بری نظر نہیں ڈالتا۔ پھر ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ علیحدہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے پورے خاندان سے چھٹ جاتی، اس میں اتنی ہمت نہ تھی۔ کیا پتہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ سیتا اسی کی بیٹی نہ ہو۔ لوگو ںکو باتیں بناتے، افسانے تراشتے دیر کہاں لگتی ہے۔ پھر سندھیا کس کس کا منہ بند کرتی پھرے گی۔ دونوں اس قابل نہ تھیں کہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔

سیتا رات بھر روتی رہی اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی، کناروں کو تلاش کرتی رہی لیکن اس کی ڈونگی بھنور ہی میں چکراتی رہی۔

ٹھکرائن نے سب سے پہلے کملا کو سب حالات لکھے اور زور دیا کہ کسی طرح اپنے پتی سے کہہ کر رندھیر کو بھی امریکہ بلالے۔ کملا نے فوراً ماں کے لکھے پر عمل کرنا شروع کردیا۔ بملا کو بھی کملا کے مضمون سے ملتا جلتا خط گیا۔ وہ تو دل ہی دل میں خوش ہوکر بیٹھ گئی کہ چلو رندھیر یہ شبھ کام کر ہی لے تو اچھا ہے۔ اس نے ماں کو خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ ٹھکرائن بیٹی کی اس بے حسی پر بہت جھنجھلائی لیکن کہہ سن کر بات کو بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ کملا اور ٹھکرائن دونوں رندھیر کو امریکہ پہچانے کی فکر میں تھیں۔ رندھیر بھی ماںکی چال کو نہ سمجھا لیکن ٹھاکر ضرور کچھ سوچ میں پڑگیا۔ رندھیر چلتے چلتے سیتا کو سمجھاتا رہا کہ وہ ضرور اسے اپنا لے گا اور سیتا دکھ سے دل ہی دل میں روتی رہی۔

رندھیر چلا گیا۔ سیتا کی زندگی میں جو تھوڑی سی تبدیلی اور رنگینی آئی تھی وہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ اب وہ بالکل کھوگئی تھی، بیراگن بن گئی تھی جس کے کارن جوگ سادھا، وہی پردیس سدھار گیا تھا۔

آسیہ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ اچانک سیتا اتنی افسرہ کیوں رہنے لگی ہے۔ دو ایک بار اس نے پوچھا بھی تو سیتا ٹال گئی۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ کردیا۔ آسیہ اب اکثر اسے اپنے گھر لے جاتی، اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی۔

آج بھی سیتا، سندھیا سے اجازت لے کر آسیہ کے گھر گئی تھی۔ دونوں سہیلیاں مل کر پڑھتی رہیں، پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں۔ آسیہ کی امی نے اسے کسی کام سے بلایا۔

’’جی امی!‘‘

’’بیٹا! ذرا میں تمہارے بھیا کے لیے ممتاز صاحب کی لڑکی دیکھنے جارہی ہوں۔ سیتا کو گھر چھڑوا دو ڈرائیور سے ورنہ دیر ہوجائے گی اسے۔‘‘

آسیہ نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ ’’امی! بھیا کی پسند تو مجھے معلوم ہوگئی ہے۔ اب آپ کہاں جارہی ہیں؟‘‘

’’کون ہے وہ؟‘‘ امی نے تعجب اور خوشی سے پوچھا۔

’’سیتا۔‘‘ آسیہ نے بے دھڑک کہہ دیا۔ اسے پوری امید تھی کہ بھیا اور اس کی پسند کو امی ہرگز رد نہیں کریں گی۔

’’سیتا؟ سیتا؟ کیا بک رہی ہو تم؟‘‘ امی غصے سے چیخیں۔

’’کیا برائی ہے سیتا میں امی؟‘‘

’’ارے لڑکی! تو کچھ پاگل ہوئی ہے کیا؟ خاندان کو بٹہ لگانے کے لیے میں ہی رہ گئی ہوں۔‘‘ اس کی امی نے غصے سے کہا۔

’’اس میں بٹہ لگنے والی کون سی بات ہے؟‘‘ آسیہ حیران ہوگئی۔

’’زیادہ بقراط بننے کی کوشش مت کرو۔ میں نے تم سے زیادہ دنیا دیکھی ہے۔‘‘ امی نے زندگی کا تمام تجربہ اپنی آنکھوں میں گھولتے ہوئے آسیہ کو گھورا۔

’’امی وہ ایک مسلمان اور بے سہارا لڑکی ہے۔ آپ کو ایک حج کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ آسیہ نے خوشامد کی۔

’’رہنے دو مجھے ایسے ثواب نہیں بٹورنے۔ کیا پتہ یہ ٹھاکر ہی کی کسی غلطی کا نتیجہ ہو۔ وہ فساد کا بہانہ کرکے اسے گھر لے آیا ہو۔‘‘

آسیہ امی کے اس انکشاف پر بھونچکی رہ گئی۔ اس کی زبان سوکھنے لگی۔ بمشکل یہ الفاظ اس کے منہ سے ادا ہوئے: ’’اگر آپ اسے اپنے گھر میںبہو بناکر نہیں لانا چاہتی نہ لائیں، لیکن اس غریب کے دکھوں کی گٹھڑی میں تہمتوں کے پتھر رکھ کر اسے اور بھاری نہ کریں کہ وہ اٹھا ہی نہ سکے۔‘‘

آسیہ اترا اترا سا چہرہ لیے جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سیتا جاچکی تھی۔ اس نے ماں بیٹی کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ آسیہ کھڑی کھڑی پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ ’’کاش! سیتا نے یہ سب نہ سنا ہوتا لیکن اب تو وہ ہوچکا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘

’’سیتا تو بڑی کائر ہے۔‘‘ کبھی کبھی رندھیر سیتا سے کہا کرتا تھا۔ ’’ہاں میں کائر ہوں۔ میں اس وقت کیوں نہ قتل کردی گئی جب میرے ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار مارے گئے؟ اتنی کٹھنائیاں جھیلنے کو میں کیوں زندہ رہ گئی؟ کسی بھی دھرم سے میری وفاداری، مشکوک ہوگئی ہے؟ میں کہاں جاؤں کیا کروں، میں کون ہوں، کیا ہوں؟؟؟‘‘

’’یہ سماج ہمیشہ میری طرف اجنبی نظریں ڈالتا رہے گا۔‘‘

سیتا اپنی دھن میں اپنے آپ میں کھوئی کھوئی، گنگا جمنا کے سنگم والے پل پر آگئی تھی۔ کتنا خوبصورت سنگم تھا دونوں بہنوں کا۔ کیسے والہانہ انداز میں گلے ملی تھیں یہاں وہ ۔ پاٹ بہت چوڑا ہوگیا تھا۔ برسات میں ویسے بھی دریاؤں میں پانی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اور یہاں تو دو دریا مل رہے تھے۔ پل سے پانی کی سطح ملتی ہوئی لگی۔ پر شور لہریں بری طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں گڈ مڈ ہوئی جارہی تھیں۔گھاٹ کی طرف لہریں بڑھتیں تو پاٹ اور چوڑا ہوجاتا۔ کبھی لہریں واپس آجاتیں، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی دیوی اپنی چندری سکھا رہی ہو جسے کبھی وہ اوپر کی طرف ہلا کر پھیلاتی اور کبھی ساری ہوا کے دباؤ سے سمٹ سمٹ کر نیچے آجاتی۔ سیتا پل پر کھڑی ہوگئی۔ شام گہری نہ ہوئی تھی۔ وہ بڑے انہماک سے سنگم دیکھنے لگی۔

’’گنگا! تیرا پانی تو پوتر ہے نا۔ سب کے لیے ہے۔ مسلمان تیرے پانی سے وضو کرتے ہیں۔ ہندو تیرے پانی سے اشنان کرتے ہیں۔ تو تو سب کے لیے بہتی ہے نا۔‘‘ سیتا پل پر جھکی گنگا کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے گنگا کی لہریں بول رہی ہوں: ’’ہاں دیکھ میرا سینہ کتنا چوڑا ہے۔‘‘

اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی معصوم روتے ہوئے بچے کو اپنی آغوش میں بھرنے کے لیے ماں اپنے بازو پھیلادے۔ اس طرح گنگا کی گود بھی اسے پھیلتی معلوم ہوئی۔

سیتا نے زیر لب کچھ کہا اور پھر گنگا میں چھلانگ لگا دی۔ گھاٹ پر کھڑے ملاح تاسف سے دیکھتے رہ گئے۔ کون اسے بچا سکتا تھا؟ پل پر تماشائی جمع ہوگئے تھے اور لہروں نے سیتا کو تہوں میں پہنچا دیا تھا۔ اپنی ماں کی آغوش میں وہ پرسکون ہوگئی تھی۔ گھاٹ کے کنارے مندر میں کوئی پجاری دکھ بھری آواز میں منجیرہ بجا بجا کر گا رہا تھا:

جئے کرشن ہرے جئے کرشن ہرے

دکھیوں کے دکھ دور کرے

گھاٹ کے دوسرے کنارے پر مندر میں سندھیا پرارتھنا کررہی تھی۔ ’’ ہے پرماتما! سیتا کو کشٹ اٹھانے کی شکتی دے۔ اس کا جیون سپھل کردے۔ اس کی آتما کو شانتی دے۔‘‘اسے کیا پتہ تھا کہ سیتا کی آتما کو اتنی جلدی شانتی مل جائے گی!!!

(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، اردو ڈائجسٹ لاہور سے ماخوذ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146