نئی نئی کینچلی بدلی ہوئی کالی ناگن کی مانند کولتار کی ہموار سڑک پر بے شمار کاریں آگے پیچھے بھاگتے چلی جارہی تھیں جن میں بے آواز کشتی کی طرح تیرتی ہوئی نئی گاڑیاں بھی تھیں۔ اور دھواں اگلتی کھڑکھڑاتی پرانی گاڑیاں بھی۔ چھوٹی بڑی رنگ برنگ کی کاریں جن کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے لوگ اس شان استغناء سے سڑکے دونوں طرف فٹ پاتھوں پر چلنے والوں کو دیکھتے تھے کہ جیسے یہ لوگ انسان نہیں ہیں یا وہ اس دنیا کے باسی نہیں ہیں گاڑیوں کو ڈرائیو کرنے والوں میں شوفر بھی تھے اور مرد اور عورتیں بھی تھیں اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی۔ بجلی کا خود کا سگنل جس وقت ہرے سے پیلا اور پھر لال ہوتا تو بھاگتی ہوئی کاروں کے پہیے یکلخت چرچرا اٹھتے اور پھر دور تک کاروں کی قطار بن جاتی۔
یہ سڑک بالکل سیدھی بہت سے چوراہوں سے گزرتی پھرتی کاویری برج تک جاتی تھی جہاں پر اس کے باقی ماندہ حصہ کو ایک لوہے کا بڑا سا پل اس سے ملاتا تھا۔ پل سے گزرنے کے بعد آبادی ہلکی ہوتی چلی جاتی تھی۔ ویسے تو یہ سڑک ہل پوائنٹ تک جاتی تھی۔ لیکن پاگل خانہ جانے والے لوگوں کے لیے بھی صرف یہی ایک راستہ تھا۔
۲۰۰۳ء ماڈل کی ہلکے نیلے رنگ کی ’’سارولیٹ‘‘ کو پھاٹک میں داخل ہوتے دیکھ کر اونگھتا ہوا چپراسی ایک دم چونک کر کھڑا ہوگیا۔ غیر ارادی طور پر اس کا سیدھا ہاتھ اس کے ماتھے تک پہنچ گیا۔ لیکن جب ڈرائیونگ سیٹ پر اس نے ایک خاتون کو دیکھا تو بدحواسی میں اس کا بایاں بازو بھی ماتھے کی طرف اٹھ گیا۔
پاگل خانے کی یہ عمارت کافی وسیع تھی جس میں پہلے روش کے دونوں طرف بڑا خوبصورت باغ تھا۔ روش خم کھاتی ہوئی پورٹیکو سے ہوکر دوسرے دروازے سے جاملتی تھی۔ پورٹیکو کے ساتھ ہی سیڑھیاں طے کرنے کے بعد کمرہ انتظار تھا، جس کے ایک طرف پاگل خانے کا آفس تھا اور دوسری طرف ڈاکٹر کا کمرہ اور دو تین مختلف کمرے اور تھے جو ہوسکتا ہے کہ منتظم عملہ کے آفس رہے ہوں، اس مختصر سی عمارت کے پیچھے پھر ایک خاصا بڑا لان تھا۔ اور اس کے بعد پاگلوں کی بیرکیں۔
پورٹیکو میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد اس نے سیڑھیاں طے کیں اور کمرہ انتظار سے ہوتی ہوئی وہ ڈاکٹر کے کمرہ میں داخل ہوگئی۔ نوجوان ڈاکٹر اپنی کرسی پر بیٹھا شاید کسی فائل دیکھنے میں محو تھا۔ لیکن جن کی سرسراہٹ کے ساتھ ہی اس کی نگاہیں سامنے کھڑی پیکر پر جم کر رہ گئیں۔ سفید شلوار، سرخ چائنا شرٹ گلے میں جھولتا ہوا دھانی دوپٹہ ، دل آویز خدوخال، کھلتا ہوا رنگ اور متناسب جسم والی یہ عورت بڑے اضطراری انداز میں اپنے داہنے ہاتھ کی ایک انگلی میں چابیوں کا چھلہ گھما رہی تھی۔
تشریف رکھیے محترمہ! سر سے پاؤں تک جائزہ لینے کے بعد ڈاکٹر نے بھاری آواز میں کہا۔
’’شکریہ ڈاکٹر‘‘ عورت نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
’’میں مسز جھابڑا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ کو کس طرح سمجھاؤں کہ میں آج کل کس قدر پریشان ہوں۔‘‘
’’آپ جس طرح چاہیں اپنی شکایت بیان کیجیے، میں سنوں گا، اس لیے کہ بہر حال ڈاکٹر ہوں اور وہ بھی پاگل خانے کا۔ خیر میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’ڈاکٹر آپ پہلے رازداری کا وعدہ کیجیے۔ کیونکہ یہ ایک خاندان کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کے پاس اس وقت بالکل اکیلی آئی ہوں۔‘‘ مسز چھابڑا کی آواز رندھ گئی۔
محترمہ دل مضبوط رکھئے آپ فرمائیں تو سہی کہ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ رہی راز داری کی بات تو ڈاکٹر سے زیادہ اس روئے زمین پر دوسری کوئی ہستی راز دار نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر نے تشفی آمیز لہجے میں کہا۔
’’بات یہ ہے ڈاکٹر! میرے شوہر مسٹر چھابڑا شاید پاگل ہوگئے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کرلیا کہ وہ پاگل ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔
’’سنئے تو‘‘ خاتون اپنا بایاں ہاتھ اٹھاکر ڈاکٹر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ’’بات اصل میں یہ ہے کہ وہ ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں کسی کسی وقت ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میں ان کی بیوی ہوں ورنہ عموماً وہ مجھ کو کوئی غیر عورت سمجھتے ہیں۔ اکثر خود ہی خود بڑبڑاتے رہتے ہیں کہ میں آصف جیولرز لمیٹیڈ کا مالک ہوں میں کروڑ پتی ہوں۔ یہ ہوں وہ ہوں!‘‘ وہ بولتے بولتے اپنے آنسو خشک کرنے کے لیے رکی۔ اس کے ہونٹ کپکپارہے تھے ’’تو کیا ڈاکٹر یہ سب باتیں پاگل پن کی علامت ہیں۔ وہ آصف جیولرز لمیٹیڈ میں صرف جنرل مینجر ہیںاور کچھ نہیں۔ لیکن ہر وقت مالک ہونے کا خبط سوار رہتا ہے۔‘‘ گلا رندھ جانے کی وجہ سے خاتون خاموشی ہوگئی۔
’’اچھا تو اب آپ ایسا کیجیے میڈم کہ ان کو کسی وقت یہاں لے آئیے، میں دیکھ کر کچھ عرض کرسکوں گا۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’انھیں کب لایا جائے؟‘‘ بیگم چھابڑا کی حالت اب سنبھل چکی تھی۔
’’جب بھی آپ مناسب سمجھیں، کل یا پرسوں۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کیا آج شام آپ ان کو نہیں دیکھ سکتے؟ اس نے التجا آمیز لہجے میں ڈاکٹر سے کہا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آج شام کو آفس سے واپسی پر ان کو سیدھی آپ کے پاس لے آؤں تو ؟‘‘ کہتے کہتے استفہامیہ انداز میں خاتون رک گئیں۔
’’جیسے آپ مناسب خیال کریں‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیتے ہوئے پھر اپنی فائل اٹھالی۔
’’میں آپ کی بہت مشکور ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے۔ کتنے مہربان ہیں آپ۔‘‘
’’بس بس میڈم ، ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔‘‘ میں ڈاکٹر ہوں اور یہ میرا فرض ہے۔‘‘
’’اچھا … اجازت… شکریہ‘‘ وہ کرسی سے اٹھتی ہوئی بولیں۔
اور ڈاکٹر پھر اپنے فائل کے مطالعہ میں مصروف ہوگیا۔
شام ہوتے ہوتے اس بازار کی رونق بڑھنے لگتی ہے۔ شہر کا یہ خوبصورت بازار یہاں کے فیشن اپیل خریداروں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سے وہاں تک سڑک کے دونوں طرف فٹ پاتھ کے ساتھ کاروں کی قطاریں فٹ پاتھ پر چلنے والے بیباک جوانوں کی آمدورفت کچھ عجیب سے منظر پیش کرتی ہیں۔ ان لوگوں میں گھومنے والے زیادہ اور گاہک کم ہی ہوتے ہیں۔ مقصد، دیکھنے اور دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور پھر اس طرح کے لوگوں کی بھیڑ تو اس جگہ خاص طور سے نظر آتی ہے جہاں کوئی ایسا اسٹور ہو جو خصوصاً خواتین سے متعلق مصنوعات کا کاروبار کرتا ہو۔
آصف جیولرز کے سیلزمین نے جب ایک خوبصورت سی خاتون کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو وہ شوکیس کے پیچھے سے ہٹ کر جلدی سے اس کے پاس پہنچا۔ انداز بالکل دکاندارانہ تھا۔ بہر حال وہ اس کا استقبال کررہا تھا۔
’’آداب محترمہ، فرمائیے؟‘‘ سیلز مین نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نئی چیز!‘‘ اس نے بڑی لاپرواہی سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تشریف لائیے، نئی انگوٹھیاں ، نیکلس، اور پاپس جڑاؤ اور ہیروں کے آویزے پیش کروں گا۔ سیلزمین نے قدرے جھک کر کہا۔ خاتون اپنے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں چابیوں کا لچھا گھماتے ہوئے اس کے ساتھ ایک بڑے سے شوکیس تک آئی۔
تھوڑی دیر بعد شوکیس پر مختلف چھوٹے بڑے مخملیں ڈبوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جن میں رکھے ہوئے زیورات کے نگینوں سے روشنی کی کرنیں چٹک رہی تھیں۔
اچھا تو آپ ایسا کریں، خاتون نے سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے سیلز مین کو مخاطب کیا۔ یہ دو نیکلیس ، یہ تین انگوٹھیاں، دونوں ہیروں کے آویزے اور جڑاؤ ٹاپس وغیرہ کے ڈبے باندھ کر آپ ذرا میرے ساتھ بنگلے تک چلئے، میں چاہتی ہوں کہ خریدنے سے پہلے میں یہ سب اپنے شوہر کو بھی دکھالوں۔
’’میں معذرت خواہ ہوں محترمہ، اس کے سلسلے میں پہلے اپنے مالک سے اجازت لے لوں۔‘‘ سیلزمین یہ کہتے ہوئے پیچھے کی طرف مڑا۔ اس بڑے سے ہال نما اسٹور کے اندرونی کونے میں میز کے پیچھے کرسی پر ایک تنومند ادھیڑ عمر کا آدمی بیٹھا تھا جس کی نگاہیں اسٹور کے مختلف گوشوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ یہ شاید اسٹور مالک تھا۔ مسٹر آصف!
’’سر!‘‘ سیلز مین نے اس کو مخاطب کرنے کے انداز میں زور سے پکارا۔ جواباً اس کی نظریں سیلزمین کی طرف اٹھ گئیں جو اب اس کو ہاتھ سے اشارہ کررہا تھا۔
’’یس میڈم‘‘ آصف نے نزدیک پہنچ کر کہا ’’میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی خاص نہیں۔‘‘ خاتون مسکرائی۔ دراصل میرے شوہر علیل ہیں ان کی دلجوئی کے لیے میں چاہتی تھی کہ یہ زیورات خریدنے سے پہلے ان کو دکھالوں۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ چیک پر دستخط بھی تو وہی کریں گے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، کون کون سی چیزیں چاہئیں آپ کو۔‘‘ اور جواباً خاتون نے اپنی پسند کے زیورات کے ڈبوں کی طرف اشارہ کردیا۔
’’انور‘‘ مالک نے سیلزمین کو مخاطب کیا، رمیش سے کہو کہ گاڑی سامنے لے آئے۔‘‘
’’نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس گاڑی ہے۔ میں خود ڈرائیور کرکے آئی ہوں۔‘‘ خاتون نے بات کاٹ کر کہا۔
’’اچھا انور یہ ڈبے عالم سے کہو کہ محترمہ کی گاڑی میں رکھے، اور دیکھو میرے پیچھے دکان کا خیال رکھنا۔ یہ نئے سیلزمین جو آئے ہیں ابھی پوری طرح قابل اعتماد نہیں۔‘‘ آصف سیلز مین انور کو ہدایات دیتا ہوا خاتون کے ساتھ باہر نکل آیا۔
کاویری برج پارکرنے کے بعد بھی جب کار کسی نواحی بستی کی طرف نہیں مڑی تو آگے برابر میں بیٹھے آصف نے ڈرائیور کرنے والی خاتون سے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہاں رہتی ہیں آپ؟‘‘
’’فلک نماں کالونی میں‘‘
’’اوہ ، تنہائی پسند معلوم ہوتی ہیں، محترمہ!‘‘
شہر کے وسط سے آٹھ میل دور مین روڈ کے دونوں طرف ایک پرفضا مقام پر بڑے بڑے خوبصورت بنگلوں کی ایک کالونی تھی۔ جس کو لوگ ’’فلک نما کالونی‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ویسے وہاں کے باسی تو بہرحال ایسے ہی لوگ تھے جن میں اکثر لوگوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کا بینک بیلنس کتنا ہے اور وہ لوگ ماہانہ کتنے لاکھ روپے کا کاروبار کرتے ہیں گیئر بدلتے ہوئے خاتون نے گاڑی بائیں طرف موڑدی۔
’’پاگل خانہ‘‘ آصف جیولرز لمیٹیڈ کا مالک آصف حیرت سے بڑبڑایا۔’’آپ یہاں کیوں رک رہی ہیں۔ اس کے بات کرنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بے چینی محسوس کررہا تھا۔
’’ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘ وہ مسکرائی۔
کارپورٹیکو کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میرے بھائی یہاں کے انچارج ہیں۔ وہ آف ہوگئے ہوں گے ان کو بھی لیتی چلوں وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
’’اوہ ، ٹھیک ہے ، کوئی بات نہیں۔‘‘ آصف نے ایک لمبی سی سانس لے کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا۔
’’آپ یہیں بیٹھیں‘‘ خاتون نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔ میں ذرا ڈاکٹر بھائی کو بلالوں۔
’’ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔‘‘ آصف نے اپنے مخصوص انداز میں سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔
خاتون سیڑھیاں طے کرنے کے بعد کمرہ انتظار سے ہوتی ہوئی ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ ڈاکٹر کے سامنے ایک رجسٹر کھلا ہوا تھا جس میں وہ کچھ لکھنے میں محو تھا۔
’’ڈاکٹر، ڈاکٹر!‘‘ خاتون نے بلند آواز میں پکارا۔
’’اوہ …آپ ‘‘ بیٹھئے، ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے قلم کو ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بڑی مصیبت ہے ڈاکٹر۔‘‘ وہ بڑے رقت آمیز لہجے میں بولی ’’میں ان کو لے تو آئی ہوں۔ لیکن وہ شاید اس وقت پھر کچھ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں۔ کار میں بیٹھے ہیں۔ آپ خود جاکر ان کو کار سے اتارلائیے۔‘‘ ایک خوبصورت عورت کے آنسوؤں میں بھیگی ہوئی التجا اپنا اثر کرہی گئی۔ اور آصف کو کار کی اگلی سیٹ سے زبردستی نیچے کھینچ لیا گیا۔
’’ڈاکٹر خدارا میری بات تو سنو۔‘‘ آصف نے ہاتھ جوڑتے ہوئے ڈاکٹر سے التجا کی۔ ’’میں اس حرافہ کا شوہر نہیں ہوں میں تو آصف، آصف جیولرز لمیٹڈ کا واحد مالک ہوں۔‘‘
’’ان کو کلینک میں لے چلو۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آدمیوں سے کہا۔ اور وہ لوگ آصف کو چاروں ہاتھ پاؤں سے پکڑ کر اندر کھینچ لائے۔
’’تم لوگ ان کو اس طرف لے کر چلو، چھوڑنا مت کبھی مار بیٹھے میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر اپنے آدمیوں کو ہدایت دیتا ہو اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ جہاں عورت موجود تھی۔
’’میڈم‘‘ ڈاکٹر نے آہنگی سے خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا جو اپنی آنکھوں سے رومال لگائے سسک رہی تھیں، آپ اطمینان رکھیے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ ان کی حالت بظاہر اس وقت زیادہ اچھی نہیں ہے میں ان کا معائنہ کرنے کے بعد کچھ بتاسکوں گا۔ اتنے آپ آرام فرمائیں۔
جواباً عورت نے اثبات میں سر ہلایا اور ڈاکٹر کمرہ سے باہر نکل گیا۔
آصف کے حلق سے نکلنے والی آوازیں اور اس کو قبضے میں کرنے والوں کی آوازیں اب دور ہوکر بالکل معدوم ہوچکی تھیں۔
چند لمحوں کے بعد باہر برآمدے میں مکمل سکوت چھا چکا تھا۔ شائد ڈاکٹر بند کلینک میں اس کا معائنہ کررہا تھا۔ خاتون آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور پھر آہٹ لیتی ہوئی ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس نے چوکنا ہوکر چاروں طرف دیکھا۔ اور پھر پورٹیکو میں پہنچ کر کار اسٹارٹ کردی۔ اس نے زیورات کے ڈبوں کو ڈیش بورڈ والی دراز میں بھرا جو کہ آصف کی نشست پر پڑے تھے۔ کار آہستہ آہستہ روش سے ہوتی ہوئی چند لمحوں بعد پاگل خانہ سے باہر آچکی تھی۔ خاتون کا دایاں پیر ٹوپ گیئر میں دوڑتی ہوئی گاڑی کی رفتار میں مزید اضافہ کررہا تھا۔
دوسرے دن صبح کے اخباروں میں کچھ اس طرح کی خبریں تھیں:
مورخہ ۱۴؍فروری بروز منگل صرافہ بازار میں دوہری چوری کی ایک عجیب و غریب واردات ہوئی جس کی پہلی کڑی کرنل سدھیر کی وہ رپورٹ تھی جو انھوں نے تقریباً ساڑھے چھ بجے اپنی نیلے رنگ کی ساورلیٹ کی چوری کے سلسلہ میں درج کرائی تھی۔ وہ اپنی کار کو تقریباً ڈھائی بجے ماؤن ٹین ہوٹل کے نزدیک لاک کرکے گئے تھے۔
دوسری رپورٹ اسی تھانہ میں آصف جیولرز لمیٹڈ کے سینئر سیلزمین مسٹر انور نے درج کرائی ہے۔ رات آٹھ بجے مسٹر انور نے بتایا کہ ان کے مالک مسٹر آصف کو ایک عورت نے زیورات گھر دکھانے کے بہانے بیش بہا زیورات کے ساتھ ان کی دکان سے پانچ بجے شام اغوا کرلیا ہے۔ میسرز آصف جیولرز لمیٹڈ کے ایک دوسرے ملازم عالم نے بتایا کہ خاتون کی کار کا رنگ نیلا تھا۔ بعد کی خبر ہے کہ تقریباً رات کو گیارہ بجے اسی کار کو سٹی اسٹیشن کے قریب سے اور مسٹر آصف کو پاگل خانہ سے برآمد کرلیا گیا ہے۔
پولیس نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔