پچھتاوا

سائرہ عبدالوحید

’’امی جلدی سے کھانا لگادیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ندا نے اسکول سے آتے ہی شور مچانا شروع کردیا اور بیگ رکھتے ہی فوراً ٹیبل کی طرف بڑھی۔ ناظمہ بیگم جو ابھی شاید کسی فنکشن سے لوٹی تھیں فوراً ہی کھانا لگانے لگیں۔ یہ ان کی شروع سے ہی عادت تھی کہ بچوں کو خود کھانا دیتیں اور ان کے چھوٹے موٹے کام کرنے میں فرحت محسوس کرتیں، اگرچہ ان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہوتاتھا۔ باقی گھر کی دیکھ بھال تو بوا ہی کے ذمے تھی، شروع سے ہی۔ اور یہ ان کی کافی پرانی ملازمہ تھی۔ ناظمہ بیگم کا چھوٹا بیٹا احمد، ماموں کے پاس گیا ہوا تھا ، دو دن بعد اسے واپس آنا تھا۔ اور اسی دن اس کی سالگرہ بھی تھی۔ چنانچہ ندا اور ناظمہ بیگم انہی تیاریوں میں مصروف تھیں۔
’’امی! ساری تیاری ہوگئی، بس اب صرف کیک لانا رہ گیا ہے۔ جو کہ پاپا آتے ہوئے لے آئیں گے۔‘‘ ندا نے خوبصورتی سے سجائے ہوئے کمرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بیٹا، چلو اب تم بھی بہت تھک چکی ہو، لیٹ جاؤ‘‘ ناظمہ بیگم نے ٹیلی ویژن آن کرتے ہوئے کہا۔
’’ماما ہم لوگ سالگرہ کیوں مناتے ہیں؟‘‘ ندا نے ٹی وی کی جانب نظریں جمائے ناظمہ بیگم سے سوال کیا۔
’’بس ویسے ہی یہ بھی ایک خوشی ہوتی ہے۔ جس طرح باقی تہوار ہوتے ہیں اسی طرح سال پورا ہونے پر یہ بھی خوشی ہی کا موقع ہے۔‘‘
’’لیکن ماما ہماری ٹیچر تو بتا رہی تھیں کہ یہ یوں ہی ہے، بس ہمیں عادت پڑگئی ہے مغرب کی نقالی کی، اور اسلام میں بھی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘… ناظمہ بیگم کو دھچکا سا لگا ’’یہ اتنی بڑی بڑی باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں، کیا اسکول…‘‘
’’نہیں ماما، پرسوں ٹیوشن والی ٹیچر بتارہی تھیں۔‘‘ ندا نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا تم کل سے گھر پر ہی پڑھنا۔‘‘ اور ناظمہ بیگم گہری سوچوں میں کھوگئیں۔
’’عاشی بیٹا ذرا پانی پلادینا۔‘‘ ناظمہ بیگم نے کھانستے ہوئے نواسی کو آواز دی لیکن پھر ہمیشہ کی طرح انہیں خود ہی لڑکھڑاتے قدموں او رکانپتے ہاتھوںکے ساتھ کولر کے پاس جاکر پانی پینا پڑا۔ ندا بھی تو بچپن میں ایسی ہی تھی، بس ہر وقت خود کو بنانے سنوارنے کا ہی خیال رہتا تھا۔ ناظمہ بیگم نے واپسی پر کمرے میں جھانکتے ہوئے سوچا جہاں عائشہ موبائل پر کسی سے بات کرتے ہوئے نظر آئی۔ نہ جانے کیوں ناظمہ بیگم اس سے آگے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھیں اور مزید آنے والے خیالات کو جھٹک دیتیں۔ شاید کہ مزید سوچیں انہیں زخمی کردیتی تھیں اور ان کا ضمیر مزید بوجھل ہونے لگتا۔
’’بیٹا تمہاری امی کب تک پہنچیں گی؟‘‘ رات کے دو بجے ناظمہ بیگم نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’مام تو آج لیٹ ہی آئیں گی کیونکہ پریس کلب میں حقوق نسواں پر سمینار ہے، اس کی تیاری اور انتظامات وغیرہ کریں گی۔‘‘ عاشی نے کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے ہوئے جواب دیا۔
اور پھر ناظمہ بیگم کا تو منہ ہی کڑوا ہوگیا، حقوقِ نسواں کا سن کر ایک دکھ کی لکیر ان کے چہرے پر آنے لگی، انھوں نے تو اس تحریک کو اسی وقت خیرباد کہہ دیا تھا جب ایک ایکسیڈنٹ میں احمد کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد انہیں شدید دھچکا لگا، ان کی آنکھوں سے تمام پردے ہٹتے چلے گئے۔ اگر آج میرے مزید بیٹے ہوتے تو میں اس طرح تنہائی کے گرداب میں نہ ہوتی۔ وہ تصور میں اپنے پوتے پوتیوں کو لوری دیتیں، ان کی جانب لپکتیں، لیکن پھر اچانک ہی ہوش آجاتا اور وہ رونا شروع کردیتیں۔ یہ حقوقِ نسواں کے نعروں نے ہی تو مجھے برباد کیا، کتنی خوشی میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کے نعرے لگاتی تھی۔ ہائے میری بے عقلی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ماتھا پیٹ لیتیں۔ لیکن یہ کیفیت ان پر کم طاری ہوتی تھی، اس لیے کہ وہ ماضی کے بارے میں سوچتی نہیں تھیں بلکہ درحقیقت سوچنا چاہتی ہی نہیں تھیں۔ وہ ایسی سوچوں کو جھٹک دیتیں تھیں، شاید کہ ان کے دل میں کوئی خلش تھی، کوئی زخم تھا، جسے وہ سوچ کر مزید کھرچنا نہیں چاہتی تھیں۔
آج تقریباً دو ہفتے ہونے کو تھے جب ناظمہ بیگم اسپتال سے گھر شفٹ ہوئیں۔ انتہائی کمزور اور لاغر ہوگئی تھیں، بمشکل بوا کی مدد سے باتھ روم تک جاسکتی تھیں۔ جبکہ بخار کی شدت مزید بڑھتی ہی جارہی تھی۔
’’نہ جانے آج کیا ہورہا ہے، میرے کان تو گانوں کی آواز سے پھٹے جارہے ہیں۔‘‘ ناظمہ بیگم نے بوا کی مدد سے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’بڑی بیگم! آج دراصل چھوٹے جونی کی سالگرہ ہے ناں، اسی لیے بیگم صاحبہ نے یہ پروگرام رکھا ہے۔ آپ کو بہت تکلیف ہورہی ہے تو میں جاکر یہ کہہ آتی ہوں کہ آواز کم کردیں۔‘‘
ناظمہ بیگم کا بے اختیار جی چاہا کہ وہ اسے بھیج دیں کہنے کے لیے ، لیکن!! پھر نہ جانے کیوں انھوں نے منع کردیا، اور انتہائی اذیت ناک پھانس ان کے دل میں چبھی،وہ سوچنا نہیں چاہتی تھیں لیکن یہ سوچیں نہ جانے کیوں ان کاپیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔’’مما ہماری مس کہہ رہی تھیں کہ یہ تو مغرب کی نقالی ہے، وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور …‘‘ نہ جانے کیا کہے جارہی تھی اور میں نے ٹوک دیا، منع کردیا کہ آئندہ نہ جائے، یہ بڑی بڑی باتیں سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں دقیانوسی قسم کی۔ آج ناظمہ بیگم کے ذہن میں اپنا کہا ہوا ایک ایک فقرہ آرہا تھا، باوجود اس کے کہ وہ ماضی میں نہیں جانا چاہتی تھیں، وہ نہیں سوچنا چاہتی تھیں، لیکن آج ہار مان چکی تھیں کیونکہ وہ اپنے لگائے ہوئے پھل کو بارآور دیکھ رہی تھیں جس کی شاخیں بہت مضبوط ہوچکی تھیں، جو درخت بہت تناور ہوچکا تھا جانے وہ مزید کتنے درختوں کو جنم دے۔ ہاں، لگایا ہوا تو میرا ہی بیج ہے۔ انھوں نے آنکھیں موند لیں اور دل کی خلش مزید بڑھتی گئی۔ جانے رات کو کون سے پہر ان کی آنکھ لگ گئی ہمیشہ کے لیے، شاید اس ایک پھانس نے انہیں مسلسل کچوکے لگا لگا کر ختم کردیا تھا۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں