اس روز میرے سر میں شدید درد تھا اور میرے دونوں بیٹوں عدنان اور کامران نے گھر میں اودھم مچا رکھا تھا۔ میں انھیں سمجھا سمجھا کر عاجز آچکی تھی لیکن کسی طور خاموش بیٹھنا تو انھیں آتا ہی نہیں تھا۔ میں بھی کتنا کچھ کہہ سکتی تھی، آخر بچے ہی تھے، پانچ اور چھ سال کی عمر کے، اودھم مچانا، کھیل کود اور آپس کے لڑائی جھگڑے بچوں کا ایک فطری عمل ہے۔ میرا الجھنا فضول تھا مگر پھر بھی اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو ہونا چاہیے تھا۔ دراصل گھر کے تمام کام میں اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھی۔ جب تھک کر لیٹتی تو دل چاہتا کہ کچھ دیر سکون مل جائے مگر ایسا نہ ہوتا۔ بہر حال قدرت نے میرا مسئلہ حل کردیا۔ مجھے ایک ملازم مل گیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن عدنان اور کامران کو ڈانٹ ڈپٹ رہی تھی کہ گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا وہاں ایک صاف ستھری عورت ایک لڑکے کو ساتھ لیے کھڑی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بیگم صاحب جی، آپ کو ملازم کی ضرورت تو نہیں؟ یہ لڑکا بہت نیک اور محنتی ہے۔ آپ کے سب کام کرے گا۔‘‘
’’ملازم کی ضرورت تو ہے مگر میں جان پہچان کے بغیر اسے گھر میں کیسے رکھ لوں؟‘‘
’’یہ میرا بیٹا ہے، میں سامنے رہتی ہوں، ریل کی پٹری کے ساتھ جو کچے گھر ہیں ان میں! آپ چل کر دیکھ لیں۔ یہ سامنے سبزی والا میرا بھائی ہے۔ آپ اپنا اطمینان کرلیں بیگم صاحب!‘‘
’’اچھلا کملا سبزی فروش تمہارا بھائی ہے۔‘‘
’’جی بیگم صاحب، آپ اطمینان رکھیں۔‘‘
کملا سبزی فروش ایماندار اور نیک آدمی تھا۔ میں کافی دنوں سے اس سے سبزی خرید رہی تھی۔ مجھے کچھ اطمینان سا ہوگیا۔ اب میں نے لڑکے کی جانب دیکھا۔ اس کی عمر کوئی آٹھ سال کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ صورت سے معصوم نظر آتا تھا۔ کپڑے پھٹے پرانے تھے اور آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں۔
’’کیانام ہے تمہارا؟‘‘
’’خادم‘‘
’’کچھ پڑھے لکھے ہو؟‘‘
’’جی نہیں‘‘
’’دل چاہتا ہے تمہارا پڑھنے کو؟‘‘ میں نے یوں ہی پوچھ لیا۔
میرے اس سوال کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں بھی خاموش ہوگئی اور اس عورت سے کہا: ’’تم کل خادم کو لے کر آجانا۔ میں اپنے شوہر سے بات کرکے تمہیں بتاؤں گی۔‘‘
کملا کا نام سن کر میرے شوہر بھی مطمئن ہوگئے۔ دوسرے دن خادم کی ماں اسے لے کر آگئی۔ جب میں نے انھیں ملازمت دینے کی خوش خبری سنائی تو دیکھا کہ خادم کی بجھی بجھی سی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ خوش خوش نظر آنے لگا۔
خادم کا لباس گندا اور نامناسب تھا۔ ظاہر ہے مجھے اسے صاف کپڑے پہنانے تھے۔ میری بہن کا گھر زیادہ دور نہ تھا۔ ان کا بیٹا شہر یار، خادم کا ہم عمر تھا، جس کے بہت سے پرانے کپڑے ان کے ہاں ضرور ہوں گے۔ یہی سوچ کر میں نے ان کو فون کیا۔ انھوں نے کہا:
’’ہاں بھئی شہر یار کے بہت سے کپڑے فالتو پڑے ہیں، تم تو جانتی ہو، شہریار ایک لباس زیادہ دیر پہنتا ہی نہیں۔ نخرے کرتا ہے، پھر اوپر سے اس کے ابو کی شہ، میں تو بہت منع کرتی ہوں مگر وہ نت نئے جوڑے خرید لاتے ہیں۔ میں ابھی ملازم کے ہاتھ کپڑے بھیج رہی ہوں۔‘‘
آپی کی عادت تھی کہ لمبی بات کرتی تھیں۔ غالباً اس وقت انھیں کام ہوگا اس لیے جلدی فون رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ان کا ملازم بہت سے کپڑے لے آیا جو اچھی خاصی حالت میں تھے۔
خادم نے ان کپڑوں کو بڑی مسرت سے دیکھا اور پھر میری ہدایت پر نہادھوکر کپڑے تبدیل کیے۔ صاف ستھرا ہونے پر وہ خاصا اچھا لگنے لگا۔ عدنان اور کامران بہت خوش تھے اور میں بھی مطمئن۔ پورا دن میں نے سکون سے گزارا کیوں کہ دونوں بچے خادم کے ساتھ کھیلتے رہے۔ اس روز خادم ہوٹل سے چپاتیاں خرید لایا تھا، اس لیے میں روٹی پکانے سے بھی بچ گئی۔ شام کو میرے شوہر دفتر سے آئے تو وہ بھی خادم کو دیکھ کر مطمئن ہوگئے۔ میرا خیال تھا کہ وہ رات کو اپنے گھر چلا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔
’’بیگم صاحب جی، میں ادھر ہی رہوں گا۔‘‘ نہ جانے اس کے لہجے میں کیا تھا کہ میں اس کی خواہش رد نہ کرسکی۔
کچھ دیر سوچ کر میں نے کہا: ’’میرے گھر میں جگہ نہیں لیکن خیر تم صحن میں سوجانا۔‘‘ اور وہ خوش ہوگیا۔
دن اچھی طرح گزرنے لگے۔ خادم گھر کے کام بھاگ بھاگ کر کرتا پورے گھر کی صفائی اس نے اپنے ذمے لے لی۔ عدنان اور کامران سے بھی اس کی خوب دوستی ہوگئی۔ ہمارے ہاں صرف دو خواب گاہیں تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کمرہ تھا جس میں گھر کا فالتو سامان بھرا تھا۔ کچھ سوچ کر میں نے خادم کا پلنگ اس کمرے میں ڈلوادیا۔ یوں اس کا ایک مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ وہ خوش رہنے لگا۔ میں بھی خوش اور مطمئن تھی۔ وہ میرے بہت سارے کام کردیتا مگر مجھے اس کا نام پسند نہ تھا۔ میں نے اس سے کہا ’’تم اپنا نام بدل لو، خادم اچھا نام نہیں۔‘‘
’’میں خدمت کرتا ہوں، میرا نام خادم ہی ہونا چاہیے۔‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا۔ میں اس کے لہجے پر چونک پڑی، اس کے اندر ایک بڑا فلسفی چھپا ہوا تھا۔ اس روز سے میں نے اسے پڑھانا شروع کردیا۔ الف بے والی کتاب اسے اچھی طرح آتی تھی لیکن بقول اس کے اسے حرف جوڑنا نہیں آتا تھا۔ سو میں نے اسے حرف سے حرف جوڑنا سکھایا۔ نہ جانے اس کے دماغ میں ذہانت کے کون سے خزانے دفن تھے کہ وہ پڑھائی کے میدان میں تیز تیز بھاگنے لگا۔ دوماہ کے مختصر عرصے میں وہ اردو پڑھنے لگا اور اب لکھنا سیکھ رہا تھا۔
میرے شوہر کہتے: ’’تم ثواب کما رہی ہو۔ غریب کا بچہ پڑھ لکھ جائے تو اس کی زندگی بن جائے گی۔‘‘ مگر میں زیادہ عرصے ثواب نہ کما سکی کیونکہ میرا جی اکتا گیا۔ لیکن خادم کو پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا۔ نہ وقت دیکھتا، نہ گھڑی، کتاب لے کر آدھمکتا۔ میں ڈانٹ دیتی، تو اس کا چہرہ مرجھا جاتا۔ وہ پھر پنسل کاغذ لے کر لکھائی کی مشق کرتا رہتا۔ عجیب لڑکا تھا۔ چوبیس گھنٹے ہمارے ہی گھر میں رہتا۔ میں بہت کہتی کہ چھٹی کے دن ماں کے پاس چلے جاؤ مگر وہ ٹال جاتا۔ بہت ہی ڈھیٹ تھا۔ اس کی ماں بھی کچھ کم بے نیاز نہ تھی۔ تین ماہ سے زیادہ ہوگئے تھے وہ پلٹ کر نہ آئی۔
پہلی بار جب میں نے خادم کو تنخواہ کے سو روپئے دیے تو میں نے کہا: ’’جاؤ اپنی ماں کو دے آؤ، ادھر ادھر نہ اڑا دینا۔‘‘
میرے کہنے پر وہ باہر چلا گیا پھر گھنٹہ بھر بعد واپس آیا۔ اس کے بعد مہینے بھر تک نہیں گیا۔ رفتہ رفتہ اب خادم کچھ کاہل ہوگیا۔ اس سے کوئی کام کہو، تو وہ ٹال جاتا یا پھر بھول جاتا۔ غالباً ضروری کاموں سے فراغت کے بعد اس کا دھیان کتاب اور کاپی ہی میں لگا رہتا تھا۔ مجھے کوفت ہونے لگی۔ ایک روز میں نے اس سے کہا : ’’میں تمہاری شکایت تمہاری ماں سے کروں گی۔ تم بہت کام چور ہوتے جارہے ہو۔ ہر وقت کتاب اور پنسل! میں نے تمہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ کل کامران روتا رہا اور تم کتاب پکڑے خیالوں میں گم رہے۔ میں سب دیکھ رہی تھی۔‘‘
’’نہیں بیگم صاحب، میں نے کامی میاں کو فوراً بہلالیا تھا۔‘‘
’’خاموش رہو، زبان چلاتے ہو، تمہاری ماں نے تمہیں کچھ نہیں سکھایا۔‘‘
وہ میری طرف دیکھ کر رہ گیا۔ اب میں بات بات پر اسے ڈانٹنے لگی۔ خواہ مخواہ ہی مجھے اس سے الجھن ہونے لگی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ میلے چیکٹ کپڑے پہنے ہوئے کامی سے کھیل رہا ہے۔ میرا کامی اتنا صاف ستھرا بالکل شہزادہ سا تھا۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ خادم کی گود میں میلا نہ ہوجائے۔ اچانک مجھے غصہ آگیا: ’’خادم! ادھر آؤ۔‘‘
’’جی بیگم صاحب!‘‘ وہ سہم کر نزدیک آگیا۔
’’اپنے کپڑے دیکھو کس قدر میلے ہورہے ہیں۔ اتنی گندگی، توبہ! حالاںکہ تمہارے پاس ایک درجن جوڑے ہیں۔شیری کے ایک سے ایک عمدہ قیمتی کپڑے! (میں نے بے خیالی میں شیری کے پرانے کپڑوں کا طعنہ دے دیا) وہ میری بات پر کچھ نہ بولا۔ میں پھر بولی: ’’تمہاری ماں نے صاف رہنا شاید سکھایا ہی نہیں۔ تم لوگوں کو سدھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کی جائے، رہوگے وہی نالی کے کیڑے۔‘‘
’’بیگم صاحب! آپ میری ماں کو کچھ نہ کہیں، ماں تو ماں ہوتی ہے جی! وہ اپنے بچوں کو اچھی بات ہی سکھاتی ہے۔‘‘
’’میرے سامنے فلسفہ مت بگھارو۔ جاؤ اپنی ماں کو بلا کر لاؤ۔ میں اس سے تمہاری شکایت کروں گی اور ہاں جاؤ نہاکر فوراً کپڑے بدلو، نہائے بغیر کامی کو ہاتھ نہ لگانا۔‘‘
عدنان ساری باتیں سن رہا تھا، اس نے کہا: ’’امی ! خادم نے کل کپڑے بدلے تھے۔ آج سڑک پر گرگیا تھا اس لیے مٹی لگ گئی۔‘‘
’’چپ رہو خادم کے حمایتی!‘‘ میں نے عدنان کو ڈانٹ دیا۔
خادم چپ چاپ غسل خانے میں چلا گیا۔ نہا دھوکر کپڑے پہنے اور خاموشی سے میرے بتائے ہوئے کام کرنے لگا۔
اب خادم کو ہمارے ہاں کام کرتے چھ مہینے ہوگئے تھے۔ اس دوران عدنان پہلی جماعت میں داخل ہوگیا۔ گھر پر میرے علاوہ صرف کامی ہوتا۔ کافی اور خادم کی پکی دوستی تھی۔ خادم ہر وقت اردو لکھتا پڑھتا رہتا تھا۔ خادم کی ماں تو کبھی آئی نہیں، خادم ہی پہلی تاریخ کو تنخواہ لے کر اس کے پاس جاتا اور گھنٹے دو گھنٹے بعد واپس آجاتا۔ میں نے ایک دن کملا سبزی فروش سے بات کی’’تمہارا خادم اب بہت کاہل اور نکما ہوگیا ہے، اپنی من مانی کرتا ہے۔ اس کی ماں سے کہنا کہ کسی روز میرے پاس آئے، میں اس سے بات کروںگی۔‘‘
کملا بولا: ’’رہنے دیں بیگم صاحب! آپ کیوں شکایت کریں گی۔ آپ خود ہی اسے سمجھا دیں، بچہ ہے سمجھ جائے گا۔‘‘
میں نے جی میں کہا کہ یہ بچہ نہیں پورا فلسفی ہے اور سبزی لے کر چلی آئی۔
کچھ ہی دن گزرے کہ مجھے ایک اچھی ماسی مل گئی۔ وہ اتفاق سے بہت صاف ستھری اور سلیقے مند تھی۔ اس نے رفتہ رفتہ پورے گھر کا کام کاج سنبھال لیا۔ ماسی کی وجہ سے مجھے بہت آرام ہوگیا۔ ایسے میں خادم کا وجود مجھے بے کار لگنے لگا۔ اس کی تنخواہ مجھے اپنے بجٹ پر ایک بوجھ محسوس ہونے لگی۔ میں پہلے ہی اس سے ناخوش تھی، لہٰذا اب بات بات پر اسے سخت سست کہنے لگی۔ پھر ایک دن اسے نکال باہر کرنے کا معقول بہانہ میرے ہاتھ آگیا۔ ہوا یوں کہ میں نے کامی کے لیے گلاس میں دودھ نکال کر رکھا اور اس سے کہا کہ اسے پی کر سوجانا۔ یہ کہہ کر میں سونے چلی گئی۔
مجھے نیند نہیں آئی، تو میں یہ دیکھنے کے لیے دوسرے کمرے میں گئی کہ کامی نے دودھ پیا یا نہیں! کیا دیکھتی ہوں کہ کامی بے خبر سورہا ہے اور خادم کرسی پر بیٹھا دودھ پی رہا ہے۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’بے ایمان، بے حیا، یہ حرکتیں ہیں تیری، کامی کا دودھ آرام سے بیٹھا پی رہا ہے۔ تیری ماں نے یہی سکھایا ہے تجھے، بول؟‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس چھین لیا۔
’’نکل جا اسی وقت، جا اپنی ماں کے پاس اور بتادے ہمیں تیرے جیسے چور، بے ایمان اور گندے لڑکی کی ضرورت نہیں۔ پہلی کو آکر تنخواہ لے جانا۔‘‘
اس نے میری بات کے جواب میں ایک حرف بھی نہ کہا۔ بس خاموشی سے اٹھا اور چلا گیا۔
کامی سو کر اٹھا تو اس نے فوراً خادم کے بارے میں پوچھا۔
’’میں نے اسے نکال دیا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں امی؟‘‘
’’وہ چور تھا، نکما اور کام چور، مزے سے تمہارا دودھ کا گلاس پی رہا تھا۔ میں نے اتفاق سے اسے دیکھ لیا۔‘‘
’’امی، وہ چور نہیں ہے۔ میں نے خادم سے کہا تھا کہ میرے پیٹ میں درد ہے، تم دودھ پی لو۔‘‘ یہ کہہ کر کامی رونے لگا۔ ’’امی خادم کو بلائیے، میں اس کے ساتھ کھیلوں گا۔ آج میرا اس کے ساتھ ہاکی کا میچ تھا۔‘‘
کامی کی بات سن کر میں کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی: ’’اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ماسی سب کام کرلیتی ہے۔‘‘
عدنان کو بھی خادم کے جانے کا ملال تھا۔ شام کو میرے شوہر آئے تو میں نے انھیں خادم کے خلاف نمک مرچ لگا کر بہت سی باتیں سنائیں اور اسے نکال دینے کی خبر سنائی۔ میرے شوہر نے کہا: ’’تم نے بے کار نکال دیا، کافی کام کر دیتا تھا۔ بچے بھی بہلے رہتے تھے۔‘‘
’’آپ کی تو عادت ہے خرچہ بڑھانے کی، میں نے اسے نکال کر ٹھیک کیا، بہت سر چڑھ گیا تھا۔ جواب بھی برابر سے دیتا تھا۔‘‘
میرے شوہر کیا کہتے، خاموش ہوگئے۔ خادم کے چلے جانے سے مجھے عجب طرح کے سناٹے کا احساس ہوا۔ بچے بھی اداس اداس رہنے لگے۔ میں خادم کے کمرے میں گئی تو اس کا سارا سامان جوں کا توں رکھا تھا۔ شیری کے دئے ہوئے کپڑے اور اس کی کتابیں بھی! ان ہی چیزوں میں اس کا چھوٹا سا پرس بھی رکھا تھا۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا، اس میں چھ سو روپئے تھے۔ گویا چھے مہینے کی تنخواہ، جوں کی توں دھری تھی۔ میں بہت حیران ہوئی اور سوچا ’’آخر اس نے یہ رقم ماں کو کیو ںنہ دی؟‘‘
پہلی تاریخ گزرگئی، وہ تنخواہ لینے نہ آیا تو میں نے کملے سبزی فروش سے پوچھا۔ اس نے نظریں جھکا کر کہا: ’’بیگم صاحب جی! وہ ہمارا کچھ نہیں لگتا تھا۔ ہمیں معاف کردیں، ہم نے اسے اپنا بچہ کہا لیکن وہ بہت نیک لڑکا تھا۔ اس کا کچھ پتا نہیں کس کا بیٹا تھا۔ اس کے پیدا ہوتے ہی ماں مرگئی تھی۔ ہمارے محلے کے مولوی صاحب اسے اپنے گھر لے گئے۔ ان کی بیوی نے اچھی طرح رکھا مگر پھر وہ مرگئی اور دوسری بیوی نے اسے نکال دیا۔ بے چارہ دربدر پھرتا تھا۔ میری بہن اس سے ہمدردی کرتی تھی۔ کئی گھروں میں لے کر گئی لیکن کسی نے ملازم نہ رکھا کہ نہ جانے کس کی اولاد ہے۔ آخر مجبور ہوکر آپ سے اپنا بیٹا بول کر اسے ملازم رکھوادیا۔ بیگم صاحب! ادھر وہ بہت خوش تھا، کہتا تھا کہ میں بہت پڑھوں گا اور اپنے باپ کو ڈھونڈوںگا۔ اللہ جانے اب وہ کہاں ہوگا غریب!‘‘ یہ کہہ کر کملے نے ٹھنڈی سانس بھری۔
میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا، مردہ قدموں سے واپس آگئی۔ گھر آکر میں نے خادم کی کاپی کھول کر دیکھی، اس میں لکھا تھا:
’’میں اپنی سب تنخواہ جمع کرکے، اپنے ابا کو ڈھونڈوں گا۔ وہ میرا کوئی اچھا سا نام رکھیں گے جیسے شہریار، عدنان یا کامران، پھر میں پڑھ لکھ کر آدمی بنوں گا۔‘‘
کئی مہینے بیت چکے ہیں، خادم کی تحریر، اس کی رقم، اس کا سامان جوں کا توں رکھا ہے لیکن وہ لوٹ کر نہیں آیا۔ ندامت اور پچھتاوے کا بوجھ لیے، میں آج بھی اس کی منتظر ہوں کہ اگر وہ لوٹ آئے تو اس کا کوئی اچھا سا نام رکھ سکوں، اسے پڑھاؤں اور لکھاؤں۔ نہ جانے ندامت اور پچھتاوے کا یہ بوجھ میرے ذہن سے کبھی اتر بھی سکے گا یا نہیں!