ایک کہانی کہیں پڑھی تھی کہ ایک لڑکا اپنے والدین کے ساتھ ہر سال چھٹیوں میں اپنے ددھیال جایا کرتا تھا۔ چند ہفتے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ گزارتا اور اپنے دادا دادی سے خوب لاڈ اٹھواتا۔ کئی سالوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ ایک برس کچھ مصروفیت کی وجہ سے اس کے والدین کا گاؤں جانے کا پروگرام نہ بن سکا۔ اس نے اپنے والدین سے ضد کی کہ مجھے اکیلا جانے دیں۔ میں ہر سال جاتا ہوں۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ والدین نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ باپ اسے لے کر ریلوے اسٹیشن آیا۔ رخصت ہوتے وقت اس کی جیب میں ایک خط ڈالا اور کہا کہ یہ اس وقت کھولنا جب خود کو تنہا محسوس کرو۔سفر شروع ہونے پر لڑکا کھڑکی سے نظر آنے والے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا رہا پھر اردگرد کے مسافروں پہ نظر دوڑائی۔ اس کی عمر کے سب بچے اپنے والدین کے ساتھ تھے۔ اسے کچھ بے چینی سی محسوس ہوئی اور اکیلاپن محسوس ہوا۔ اس نے سب کچھ جھٹک کر پھر اپنا دھیان کھڑکی سے باہر خوش رنگ مناظر پر مرکوز کردیا لیکن تنہائی کا احساس اسے لطف اندوز نہیں ہونے دے رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ رخصت کرتے وقت اس کے والد نے ایک خط اس کی جیب میں ڈالا ہے۔ اس نے فوراً جیب ٹٹولی اور خط نکالا۔ خط میں لکھا تھا کہ ’’بیٹا میں پچھلے کمپارٹمنٹ میں ہوں۔‘‘
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ زندگی کے سفر میں چاہے کیسے ہی مقامات آئیں، ہم تنہا رہ جائیں۔ گالیوں اور الزامات کے پتھر ہوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کے کانٹے ہوں، حالات کی سختی اور مشکلات ہو، لیکن یہ یاد رہے کہ رب یہیں کہیں ہے بالکل ہمارے پاس۔ کسی پچھلے کمپارٹمنٹ میں ابو کی طرح ہمیں سہارا دیتا ہوا، ایک غیر محسوس طریقے سے ہمیں تقویت دیتا ہوا۔ کبھی اس کا سہارا مخلص ترین دوستوں کی شکل میں آتا ہے، کبھی جیون ساتھی کے بے پناہ اعتبار کی صورت میں، کبھی والدین کی دعاؤں کی شکل میں، کبھی اولاد ہی زندگی کے ہر غم کا مداوا بن جاتی ہے اور کبھی خود اپنے اندر ہی چٹانوں کا سا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے،تو بس سفر جاری رکھیں اس یقین کے ساتھ کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔پچھلے کمپارٹمنٹ میں ہے نا آپ کا خیال رکھنے والا۔