ان لوگوں کے پاس بہت سے سوالات تھے لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ خود اس کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔ سب ہی چھوٹے بڑے، مردعورت، عزیزواقارب اس کے ارد گرد ہی کھڑے ہوئے تھے، لیکن بالکل الجھے ہوئے سے! کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کب کیا ہونے والا ہے۔ مگر پھر بھی سب ہی لوگ انتظار کررہے تھے۔ پاس سے گزرنے والے دو اشخاص میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا:
’’یہ کون سا پلیٹ فارم ہے؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا
’’چلو، کسی اور سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔‘‘
انھوں نے کئی ایک سے پوچھا لیکن ہر ایک نے یہی جواب دیا’’معلوم نہیں!‘‘ اتنے میں ایک نوجوان نے اس سے پوچھا جس کو سب پہنچانے آئے تھے:
’’ٹرین کس وقت آئے گی؟‘‘
’’معلوم نہیں!‘‘ جواب دہندہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’آخر کوئی تو وقت ہوگا اس کا؟‘‘ نوجوان نے جھنجھلا کر کہا۔
’’معلوم نہیں!‘‘ جواب دہندہ نے ایک بار پھر مسکرا کرکہا۔
اتنے میں ایک چھوٹابچہ کھیلتا ہوا اس کے پاس سے گزرا۔ وہ اسے محبت و اشتیاق سے دیکھنے لگا۔ وہ چہل قدمی کرتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ہنستے مسکراتے دن تھے، سب ہی کچھ کھیل سا لگتا تھا۔ بہت زور سے قہقہے لگانے کو دل چاہتا تھا، کھیل دیکھنے اور کھیلنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ اس بچے کو پیار سے بلائے، پاس ہی پکڑیا کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھ کر کہانی سنائے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی!
اس نے ہاتھ اٹھا کر بچے کو اشارے سے بلانا چاہا، لیکن بچہ وہاں کہاں تھا۔ وہ تو غائب ہوچکا تھا۔ کہاں گیا وہ؟ اسے سخت حیرت ہوئی۔ اس نے مڑکر دیکھا، نوجوان سے دریافت کرنے کے لیے، لیکن وہ بھی نظر نہ آیا۔ سب کچھ ایک لمحے میں ادل بدل گیا تھا۔ وہاں پلیٹ فارم پر ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ مسافر ایک تھا، رخصت کرنے والے کئی ایک! سب اس ٹرین کا انتظار کررہے تھے، جس پر انھیں اپنے مسافر کو رخصت کرنا تھا۔ لیکن وہ سارے کے سارے لوگ اپنی باتوں میں ایسے محو تھے کہ ان کے رویہ سے اس امر کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ وہاں اس پلیٹ فارم پر کیوں آئے ہوئے ہیں۔ ہر مسافر اپنی جگہ پر بے حد اکتایا ہوا تھا، کاش یہ سفر نہ کرنا پڑے۔ اس بددلی کے باوجود وہ سفر تو کرنا ہی تھا۔
دوستم رسیدہ مرد ایک نوجوان عورت کو چارپائی پر لادے ہوئے لے کر آئے اور پلیٹ فارم پر رکھ دیا۔ وہ سر سے پیر تک کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ لانے والے اردگرد جمع ہوجانے والوں کو بتارہے تھے کہ وہ جل کر بھسم ہوچکی ہے۔ اسے جلادیا گیا ہے۔
’’لیکن یہ سفر کیسے کرسکے گی؟‘‘
’’جانا تو اسے ہے ہی!‘‘
لوگوں کے دل بھر آئے اور نازک احساسات والے وہاں سے ٹہل کر دوسری طرف چلے گئے۔ ایک مسافر نے اکتا کر خلا میں سوال کیا: ’’جانے کب آئے گی ٹرین؟ رخصت کرنے والے مفت میں بندھے پڑے تھے۔ البتہ ان سب سے الگ کھڑے ہوئے شخص نے کہا:
’’وہ کسی وقت بھی آسکتی ہے۔‘‘
لوگوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، وہ مڑ کر دوسری طرف چلا گیا۔
جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تھا اس کے باپ نے اسے گود میں بھر کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا تھا۔ باپ ہی کیا، سب ہی گھر والے بے قابو ہوکر رو رہے تھے۔ وہ بے اوسان ہوکر سب کے منھ دیکھ رہا تھا۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ ماں کا انتقال ہوگیا ہے، لیکن یہ لوگ رو کیوں رہے ہیں۔ اس لمحے کے بعد اس نے کبھی ماں کو نہیں دیکھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں کی، لیکن اُس نے یہ بھی نہ جانا کہ ماں کیا ہوتی ہے؟ اس سے کیا ملتا ہے؟ وہ خلاء میں بوجھل دل کے ساتھ دیکھتا رہا۔ شاید کچھ نظر آجائے لیکن کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اگر کوئی مامتا لیے اس کی طرف بڑھتا تو وہ رودیتا:
’’تم مجھے اتنے لمبے عرصے کے لیے چھوڑ کر کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘
دھندلائے ہوئے خلا میں کوئی ہوتا تو جواب دیتا۔
جواب کا وہ خواہشمند ہوتا تو ٹھہرتا۔ وہاں سے اٹھ کر پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔ نل کے پاس ہی ایک دیہاتی میلی سی چادر پر روٹی اچار رکھے کھا رہا تھا۔ اس نے نل سے ایک چلّو پانی لے کر منھ پر چھپکا مارا اور رومال سے منھ ہاتھ پونچھنے لگا۔ اتنے میں ایک اور آدمی پلاسٹک کی پانی کی بوتل لے کر آیا، اسے کندھے سے دھکا دیتے ہوئے جگہ بنائی اور نل سے پانی بھرنے لگا۔ انتہائی ناگواری کے ساتھ اس نے اس شخص کو دیکھا۔ اس کی ضرورت کیا تھی؟ وہاں اس کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ خاموشی کے ساتھ وہ وہاں سے ہٹ گیا اور تھوڑے فاصلے پر بنی ہوئی بینچ پر بیٹھ گیا۔ ہلکی ہلکی کجلائی ہوئی دھوپ ناگوار نہیں گزر رہی تھی۔
ڈلہوزی کے پہاڑوں کے جنوب مغربی سلسلے کی آخری صف پر ایک بینچ پر بیٹھا ہوا وہ دریا کے اُس خط کو ساکت و صامت گھورتا رہا جو دو ملکوں کو تقسیم کررہا تھا۔ کیا اس کا علم دریا کو تھا؟ لیکن ملک بٹ گئے، دریا تقسیم ہوگئے، خون کی ندیاں بہہ گئیں، آبادیاں تبدیل ہوگئیں، لوگ اجنبی ہوگئے۔ کس لیے؟ چند افراد اور خاندانوں کے ہاتھوں میں عنانِ حکومت دینے کے لیے پہلے غیر ملکی لوٹ کر ہماری دولت اپنے ملک بھیج دیا کرتے تھے۔ اب اسی ملک کے رہزن ہمیں لوٹ کر ہماری دولت غیر ملکوں میں چھپا دیتے ہیں۔ کیا بدلا؟ کیا بہتری ہوئی؟
اس کا نوجوان پوتا اُسے ڈھونڈتا ہوا آگیا۔ ’’دادا ابّا چلئے یہاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘
’’ٹرین آنے میں کتنی دیر ہے؟‘‘ اُس نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ معلوم نہیں، کسی کو بھی معلوم نہیں۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔ کسی کو یہی معلوم نہیں کہ ٹرین کب آئے گی۔‘‘ اس نے جھنجھلا کرکہا۔
’’جی ہاں، دادا ابا، ریلوے کے عملے کو بھی معلوم نہیں۔‘‘
’’پھر کسے معلوم ہے؟‘‘ اس نے خفگی سے کہا۔
’’خدا معلوم!‘‘ پوتے نے بے بسی سے جواب دیا۔
وہ خاموشی سے اپنے پوتے کے ساتھ چلنے لگا۔ قافلہ در قافلہ، وہ پہاڑوں، دریاؤں، ریگستانوں، جنگلوں، آبادیوں کو عبور کرتے ہوئے چلتے چلے گئے۔ انھیں بھی پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ انھوں نے تو سوال کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ ان میں سے جب کوئی اور آگے نہ جاسکا تو وہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا جہاں کوئی اس کا اپنا نہ تھا، کوئی اسے پہچانتا نہ تھا۔ بس یہی ان کی پہچان تھی کہ وہ وہاں سوئے ہوئے تھے۔ ان کی بے نیازی نے وہ انسیت پیدا کردی جس نے بہتوں کے دل موہ لیے اور ان گنت لوگ اس کے اپنے بن گئے۔
’’دادا ابّا، کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘ پوتے نے فکر مند ہوکر پوچھا۔
’’میرے اپنے سب کہاں ہیں؟‘‘
’’وہیں ہیں جہاں آپ انھیں چھوڑ آئے تھے۔‘‘ پوتے نے اطمینان دلایا۔
’’وہاں کہاں؟‘‘ اس نے مضطرب ہوکر سوال کیا۔
پوتا یہ نہ بتا سکا کہ وہ جگہ کہاں ہے، جہاں وہ پلیٹ فارم بنا ہوا ہے۔
’’ابّا جی، آپ کہاں چلے گئے تھے؟ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا آپ نے!‘‘ اس کی بڑی بیٹی نے کہا۔ ’’کچھ کھالیجیے، بھوکے ہوںگے آپ!‘‘
بھوک؟ اس نے اندر سے اپنے آپ کو ٹٹولا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسا محسوس کررہا ہے۔ وہاں تو سب کچھ بڑا عجب سا لگ رہا تھا۔ اس نے بڑی بے رغبتی کا اظہار کیا اور ریل کی پٹریوں کی طرف منھ موڑ کر کھڑا ہوگیا۔
’’ٹرین کدھر سے آئے گی۔‘‘ اس نے خلا میں اپنا سوال اچھال دیا۔
’’کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ہر شخص قیاس گدے لگا رہا ہے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔
’’یہ بھی کوئی بات ہوئی!‘‘ اس نے ناگواری کا اظہار کیا۔
’’کیا کیا جائے، خود یہاں کے عملے والے عقلی گدے لگا رہے ہیں۔‘‘ اس کا چھوٹا بھائی بولا۔
’’ہم سب کا حال بھی یہی ہے۔‘‘ اس کے دوست نے جملہ چست کیا۔
لوگ اپنی اپنی ٹرین کا انتظار کررہے تھے۔ عجب بدنظمی کے عالم میں سب ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ وہ اس ابتری کو بڑی توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے سب کو ہی وہ سفر مجبوراً کرنا پڑرہا تھا۔ اتنے میںایک مال گاڑی آئی۔ اُسے اس پلیٹ فارم پر رکنا نہیں تھا۔ آنی جانی چیزیں کبھی ایک ہاتھ میں نہیں ٹھہرتیں۔ مال و زر آتا ہے جاتا ہے۔ اس کے اپنے راستے ہیں، منزلیں ہیں، کوئی اس کا راستہ کاٹ نہیں سکتا۔ جو راستے میں زبردستی آجاتا ہے اُسے وہ اٹھاکر پھینک دیتا ہے۔
مال گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی دھیمی ہوگئی۔ ایک نوجوان طالب علم نے ایک ویگن کے بریکٹ کو پکڑلیا۔ اچانک گاڑی تیز ہوگئی۔ بریکٹ لڑکے کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ دونوں پٹریوں کے بیچ گرگیا۔ گرتے ہی وہ سیدھا سیدھا چٹ لیٹ گیا۔ پروفیسر نظامی نے آنکھیں بند کرلیں۔ پوری گاڑی اس لڑکے کے اوپر سے گزرگئی۔ لڑکا کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہوگیا۔ پروفیسر نظامی کے اعصاب جواب دے گئے، تھر تھر کانپنے لگے۔
وہ اپنی بینچ پر بیٹھا ہوا مسکراتا رہا۔ طالب علم نے غلط ٹرین پر سوار ہونے کی کوشش کی تھی۔ ایسی کوشش کرنے والے راستے ہی میں چھوٹ جایا کرتے ہیں۔ البتہ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہوپائی تھی کہ ٹرین کدھر سے آئے گی۔ طے ہونا بھی نہ تھا کیوں کہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ٹرین کدھر سے آئے گی۔ ننھا پوتا اُس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
’’دادا جان! میں بتاؤں ٹرین کدھر سے آئے گی؟‘‘ ننھے نے شرارتاً کہا۔
’’ہاں، بتاؤ۔‘‘ وہ مسکراتا رہا۔
ننھے نے آنکھیں بند کرلیں،دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں ایک دوسری کی طرف بڑھائیں۔ دونوں انگلیاں نیچے اوپر سے نکل گئیں۔
’’دادا جان، پتہ چل گیا۔ ٹرین کسی طرف سے بھی نہ آئے گی۔‘‘
’’پھرہم یہاں کس کا انتظار کررہے ہیں؟‘‘ اُس نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
ننھا حیرت میں گرفتار ہوگیا۔ اتنے میں ریلوے کے عملے کا ایک وردی پوش ادھر آگیا۔ ننھے نے بے قرار ہوکر اُس سے پوچھا:
’’سر، ٹرین کدھر سے آئے گی؟‘‘
ریلوے ملازم نے اُسے گھور کر دیکھا اور بغیر جواب دیے آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھ کر وہ اپنی نیلی وردی کے ساتھ دھند میں تحلیل ہوگیا۔
بیٹھے بیٹھے اُسے زندگی کی بہت سی افتادیں یاد آنے لگیں۔ نشیب و فراز، سرد و گرم، تلخ وترش! کبھی کوئی ایسا لمحہ اُسے نصیب نہیں ہوا تھا جسے وہ ٹھنڈی چھاؤں سمجھ سکے، جس میں سکون کی سانس لے سکے۔ حادثات کی تیز تمازت میں وہ جھلستا رہا۔ لیکن تم نے جو میرا ساتھ دیا تو تمھیں کون سی راحت مل گئی؟ وہ بے اختیار ہنس پڑی: ہم نے زندگی کو جھیلا ہے، اس سے بڑی راحت اور کیا ملے گی! دور سے وہ اپنے تمام عزیزوں کو دیکھتا رہا۔ سب ہی مصروف تھے۔ کچھ باتوں میں، کچھ کھانے میں، کچھ بس خاموش بیٹھے ان سب کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی سن رہے تھے۔ بچے نچلے نہیں بیٹھ رہے تھے۔
اپنے خاندان سے اتنی دور بیٹھ کر وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا، وہ بڑا حسین نظر آرہا تھا۔ بالکل غیر متعلق، اجنبی سا! اگر ان کی باتیں، وہ آوازیں، اسی کے کانوں تک واضح ہوکر پہنچتیں تو وہ ان میں الجھ کر خاصا فکر مند ہوجاتا۔ اس کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔ یہ سب اسے پہنچانے آئے تھے لیکن اُسی سے بے نیاز ہوگئے تھے۔ کتنی جلدی سب کچھ کھوجایا کرتا ہے اور بے معنی ہوجاتا ہے۔
وہ اٹھ کر پلیٹ فارم کے سنسان سرے کی طرف چل دیا۔ اس کے دونوں بیٹے اس کو بلانے آئے۔ لیکن انھوںنے دیکھا کہ میاں جان آگے ہی آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ انھوں نے آواز دی لیکن میاں جان نے ان کی سنی ان سنی کردی۔ پیچھے سے ننھے نے اپنے ابو کو آواز دی۔ وہ تینوں ٹھہر گئے، مڑکر ننھے کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے دوڑ کر اپنے چچا ابّا کی انگلی پکڑلی۔ چاروں پھر اپنے ابّا جان / دادا جان کی طرف مڑے۔
’’ایں، میاں جان کیا ہوئے؟‘‘
’’ادھر ہی تو جارہے تھے۔‘‘
’’ہاں، ہاں، میں بھی تو دیکھ رہا تھا۔‘‘
چاروں تیز تیز آگے بڑھے۔ دھند گاڑھی ہوتی جارہی تھی۔ آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سب کچھ معدوم سا ہوگیا تھا۔
’’لوٹ چلو، میاں جان ادھر نہیں گئے ہیں۔‘‘
’’مگر پھر وہ گئے کدھر؟‘‘
گھر کے لوگوں کے پاس جب وہ چاروں پہنچے تو سب گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔’’آخر وہ ہوئے تو کیا ہوئے؟‘‘ منجھلی بیٹی بدحواس ہوکر اُس رخ بھاگی جدھر وہ گئے تھے۔
’’کوئی فائدہ نہیں! اب ادھر نہ جاؤ۔ وہ تمہارے جانے کا راستہ نہیں ہے۔‘‘
منجھلی لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ چھوٹی زمین پر مسمسا کر بیٹھ گئی۔ اس کے بالوں کی لٹیں خشک ہوکر بکھر گئی تھیں۔
’’لیکن وہ ایسے کیسے چلے گئے؟‘‘
’’ہم تو انھیں رخصت کرنے آئے تھے۔‘‘
کف افسوس ملنے والوں نے اپنا سارا سامان اٹھایا، اسٹیشن کے باہر چلے گئے اور میاں جان اس سارے عمل سے بے نیاز ہوچکے تھے۔