پڑوسی اور ٹینشن

ڈاکٹر کاشف فراز احمد

آج صبح جب میں دفتر گیا تھا تو تم بالکل ٹھیک تھیں اب کیا ہوا کہ تمہارا موڈ خراب ہوگیا ہے؟ کاشف نے اپنی بیوی عائشہ سے پوچھا۔
’’کیا نہیں ہوا، پڑوسیوں نے نیا ٹی وی سیٹ خریدا ہے، کیا تمھیں ان کی چھت پر انٹینا نظر نہیں آرہا ہے۔ میں نے تم سے کئی بار کہا ہے کہ تم بھی ٹی وی لے آؤ مگر تم نے میری نہیں مانی اور لوگوں میں میری عزت خاک میں ملادی ہے۔‘‘ عائشہ نے جواب دیا۔
کاشف نے کہا: ’’ٹی وی کبھی بھی ہمارے لیے اہم چیز نہیں رہی، ہم بچوں کی تعلیم پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں اچھا کھاتے ہیں اور اچھی زندگی گزارتے ہیں، ہمیں خدا سے اور کیا چاہیے۔ اس کی نعمتوں کے لیے خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘
عائشہ نے جواب دیا: ’’ہمارے پڑوسی کی تنخواہ تمہاری تنخواہ کے برابر ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ٹی وی خرید سکتے ہیں مگر ہم نہیں۔ کیا اس کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ ہے، اگر ایسا ہے تمھیں چاہیے کہ اس کی پول کھول دو۔‘‘
’’وہ کسی ناجائز ذریعے سے پیسے نہیں کماتا بلکہ وہ بتا رہا تھا کہ ٹی وی کے لیے کچھ رقم اس کے والدین نے دی ہے، جب کہ وہ خود بھی ایک سال سے پیسے بچارہا تھا۔ اس کا باپ اس قدر بوڑھا ہے کہ وہ چل پھر نہیں سکتا، ٹی وی دراصل اس کی تفریح کے لیے ہی خریدا ہے اور ہاں جب میں گھر آرہا تھا تو اس نے مجھے دعوت دی تھی کہ ہم سب اس کے گھر ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لیے آئیں۔‘‘
عائشہ پھر بھی مطمئن نہ ہوئی اس نے کہا کہ اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ میں تو نہیں جاؤں گی، ہمیں گھر بلا کر وہ لوگ دراصل ہماری بے عزتی کرنا چاہتے ہیں، وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہم سے برتر ہیں کاشف اور عائشہ اپنے پڑوسی کے گھر نہ گئے تاہم ان کے بچے ٹی وی دیکھنے پڑوسی کے گھر گئے اور خوب لطف اندوز ہوئے۔
حسد
ہوسکتا ہے کہ انسان کے پاس سب کچھ ہو۔ خوبصورت بیوی ہو، اچھا سا گھر ہو، محبت کرنے والے بچے ہوں، پھر بھی اسے یہ سب کچھ غیر اہم نظر آئے کیونکہ اس کے ہمسائے کے پاس یہ سب کچھ زیادہ تعداد میں ہے۔
اگر دو افراد قریب قریب رہ رہے ہوں تو ان میں مقابلے کا احساس پیدا ہونا فطری امر ہے، مگر اس احساس کوحسد میں بدل کر انسان صرف خود کو نقصان پہنچاتا ہے۔ حسد بالکل دیر اثر زہر کی طرح عمل کرتا ہے اور انسان کو اندر ہی اندر کھا تا رہتا ہے۔ ہمسائے ایک دوسرے کو جانتے تو ہیں لیکن ایک دوسرے کو سمجھتے نہیں، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا ہمسایہ جو کررہا ہے وہ اس کی اپنی ضروریات حالات اور خیالات کے مطابق اس کے لیے موزوں ترین ہے، ہر کوئی دوسرے کو احمق یا کمینہ سمجھتا ہے۔ آپ کے ہمسائے کیسے رہتے ہیں یا وہ کیا کرتے ہیں؟ یہ ان کااپنا مسئلہ ہے آپ کو کیسے رہنا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر آپ وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کریں گے جو آپ کا ہمسایہ کررہا ہے تو آپ وہ بھی نہیں کرپائیں گے جو آپ کے اپنے لیے موزوں ترین ہے۔ اس طرح آپ ہمیشہ دوسرے سے پیچھے رہیں گے، تلخی کا شکار رہیں گے، دوسروں کو کوستے رہیں گے اور اس کا نقصان صرف آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو پہنچے گا۔
ہمسایوں سے حسد کا احساس شوہروں کی نسبت بیویوں میں زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ اکثر ایک دوسرے سے ملتی رہتی ہیں اور اس لیے ایک دوسرے سے حسد کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ وہ بظاہر ایک دوسرے کی دوست بھی نظر آئیں تو یہ دراصل ایک پردہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے انداز واطوار اور گفتگو سے اگر اور کچھ نہیں تو دوسروں پر اپنے شوہروں کے خیالات، اپنے بچوں کی ذہانت، کھانا پکانے کی ترکیبوں اور اپنے لباس پر کی گئی کڑھائی کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عورتیں اس معاملے میں سیاست دانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتی ہیں۔ ہمسایوں کے درمیان ٹینشن کی ایک اور وجہ عام ضروریات کی اشیاء کا لینا دینا ہے۔ ہمسائے ایک دوسرے سے ہر قسم کی چیز مانگ لیتے ہیں۔ اگر ایسا یک طرفہ طور پر ہو یعنی صرف ایک فریق ہی چیزیں ادھار لیتا رہے اور دینے سے گریز کرے تو اس سے دلوں میں کدورت پیدا ہوتی ہے، مگر ان احساسات کو نہ تو چھپایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ ہمسایوں میں جو فریق دوسرے فریق سے چیزیں حاصل کرتا رہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی چالاکی کا نتیجہ ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، لوگ چیزیں ادھار لیتے ہیں اور پھر انھیں لوٹانا بھول جاتے ہیں یا اگر لوٹاتے ہیں تو توڑ کر۔ انھیں یہ خیال بالکل نہیں ہوتا کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتو ان کے احساسات کیا ہوں گے۔
دوسروں کی مدد اور خوشی
ہمسائے ٹینشن اور حسد کی بجائے خوشی اور مسرت کا ذریعہ ہوسکتے ہیں اور دوسرے ہمسائے کی مدد کرسکتے ہیں۔ میرے ایک دوست کا والد کسی دوسرے شہر میں کھوگیا ایسا عین اس وقت ہوا جب اس کے بچے سالانہ امتحانات دے رہے تھے۔ جب ان کے ہمسائے کو اس کے مسئلے کا پتہ چلا تو وہ میرے دوست کے گھر گیا اور میرے دوست کی بیوی سے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے کپڑے وغیرہ نکال دے اور انھیں ان کے گھر بھیج دیں، وہ ان کی دیکھ بھال کریں گے۔ ایسا ہی کیا گیا میرے دوست کو ایک ہفتہ تک شہر سے باہر رہنا پڑا۔ اس دوران ان کے بچے بڑے سکون سے ہمسایوں کے گھر رہے اور انھوں نے بغیرکسی رکاوٹ کے امتحانات دیے۔ انسان کے ایک ہی شہر میں رہنے والے رشتہ دار بھی اس کے لیے اس قدر فائدہ مند نہیں ہوتے، جس قدر اس کے ہمسائے ہوسکتے ہیں۔ صرف اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات یک طرفہ نہیں ہوتے۔ یہ کچھ لو کچھ دو کے اصول پر استقرار پاتے ہیں۔
مثبت رویہ
مثبت روئیے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہمسایوں کے بارے میں سن گن نہ لیں اور یہ جاننے کے لیے ان کے گھروں میں نہ جھانکیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اگر مستقلاً اپنے ہمسایوں پر نظر رکھیں گے تو اس کے نتیجے میں آپ ان کے بارے میں زیادہ جاننے لگیں گے پھر آپ نے جو دیکھا ہوگا اس سے نتائج اخذ کریں گے جو کہ یقینا غلط ہوں گے۔ پھر آپ اپنے اخذ کردہ نتائج کے مطابق اپنے ہمسایوں کو مشورے دیں گے جنھیں وہ اپنے ذاتی معاملات میں غیر ضروری مداخلت تصور کریں گے۔ گھریلو معاملات میں مداخلت ملکی معاملات میں مداخلت کی طرح سب کو ناپسند ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے ہمسایوں کی بلاوجہ اور وقت بے وقت آمد کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ بار بار ملنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اور آپ کے ہمسایوں میں زیادہ تبادلہ خیال ہوگا اور آپ ایک دوسرے کو زیادہ جاننے لگیں گے۔
ہمسائے یا کوئی بھی دو فریق ایک دوسرے کی اچھائیوں کی بجائے برائیاں زیادہ تیزی سے نوٹ کرتے ہیں اگر آپ کسی آدمی کو زیادہ قریب سے جاننے لگتے ہیں تو وہ آپ کے لیے کشش کھودیتا ہے، چاہے اس کی عادتیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں، اگر آپ گلاب کے پھول کو بھی خوردبین کے نیچے رکھ کر دیکھیں گے تو وہ آپ کو قطعی خوبصورت نظر نہیں آئے گا، اس لیے ضروری ہے کہ ہمسایوں کی نجی زندگی اور ان کی خلوت کا احترام کریں۔ دو گھروں کے درمیان باڑیں اچھی ہوتی ہیں، ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے یہ معیار بنائیں۔ اگر مجھ سے ایسا سلوک کیا جائے تو میں کیا محسوس کروں گا۔ ہمسایوں کے درمیان تعلقات برابری اور احترام پر استوار ہونے چاہئیں۔ دنیا میں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے۔ دولت کا مقصد بھی عزت ہی ہوتا ہے لہٰذا گر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا ہمسایہ آپ کی عزت کرے تو آپ اس کی عزت کریں۔ ایسا اس وقت اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جب آپ کا ہمسایہ آپ کی نسبت کم حیثیت کا مالک ہو، کیونکہ وہ اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتا ہے، ہمسائے کے بارے میں کسی تیسرے فریق کی لگائی بجھائی میں نہ آئیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس تیسرے فریق کے اپنے مقاصد ہوں ۔ دوسروں کی باتوں میں آنے کی بجائے خود فیصلہ کریں، ہمسایوں کے درمیان چھوٹی موٹی تلخی ناگزیر ہوتی ہے۔ یہ بڑی عام بات ہے۔ جب دو انسان قریب قریب رہ رہے ہوں تو کوشش کے باوجود شخصیات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ بچوں کے سامنے ان اختلافات اور جھگڑوں کا ذکر نہ کریں۔ بچوں کی وجہ سے اپنے پڑوسیوں سے جھگڑا نہ کریں، کیونکہ بچے والدین کو لڑا کر پھر ایک ہوجاتے ہیں۔ جب کسی ہمسائے کے ساتھ کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کا تذکرہ کسی تیسرے ہمسائے سے نہ کریں۔ اس سے صورتِ حال مزید بگڑ جاتی ہے۔ اور تیسرا فریق لڑائی کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا ہمسایہ بھی آپ سے تعلقات استوار کرنے اور انھیں قائم رکھنے میں اتنا ہی بے تاب ہے جتنا کہ آپ اپنے ہمسائے کو اس کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں اور غلط فہمی ختم کرنے میں ہمیشہ پہل کرنے کی کوشش کریں ۔ آپ اپنے عزیز و اقرباء کے بغیر تو گزارا کرسکتے ہیں مگر اپنے ہمسائے کے بغیر نہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں