اسلامی معاشرہ میں حقوق کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام باہمی اخوت و محبت پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتا ہے۔ حقوق کی ادائیگی اسی صورت میں ممکن ہے جب اہلِ ایمان ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں حساس ہوں۔ اولاد کا حق والدین پر، والدین کا حق اولاد پر اسی طرح تعلق داروں کی درجہ بندی کی گئی۔ جو جتنا قریبی ہے،اس کے حقوق و فرائض بھی اسی قدر بڑھے ہوئے ہیں۔ ان حقوق میں ایک اہم حق پڑوسی کا ہے۔ صحابہ ؓ کی محفل میں ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا، صحابہؓ کرام نے دریافت کیا کون ہے وہ بدبخت تو آپؐ نے فرمایا جو اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچائے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جبریلِ امین مجھے بار بار پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کرتے تھے، یہاں تک کہ میں نے خیال کہ وہ ایک پڑوسی کو دوسرے کا وارث قرار دے دیں گے۔
مومن ہونے کی حیثیت سے ہم پر پڑوسی کا حق ہے کہ وہ جب بھی ملے اسے مسکرا کر سلام کیا جائے۔ اس کی خیروعافیت معلوم کی جائے اور اگر خدانخواستہ کسی مصیبت میں ہو تو اس کی مدد کی جائے۔ بیمار ہو تو عیادت کی جائے۔ قرض طلب کرے تو مہیا کیا جائے۔ معاشی تنگی ہو تو اعانت کی جائے۔ اگر مصیبت یا غم میں مبتلا ہو تو تسلی و ہمدردی ظاہر کی جائے۔ اور اگر وہ کوئی نعمت پائے تو خوش ہوکر مبارکباد دی جائے۔
پڑوسی چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی ہر حال میں اس سے اچھا سلوک اہلِ ایمان پر لازم ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ غیر مسلم بھی ہو تب بھی ہمارے حسنِ سلوک کا حق دار ہے۔ پیارے نبی ﷺ کا یہی طریقہ تھا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آپ کے رویہ اور حسنِ سلوک سے غیر مسلموں میں اسلام کو کتنا فروغ حاصل ہوا۔ ایک مرتبہ حضرتِ عائشہ نے پیارے نبی سے دریافت کیا، پڑوسیوں میں سب سے پہلے حسنِ سلوک کا حقدار کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ پڑوسی اگر رشتہ دار بھی ہو تو اس کا حق ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ ہمیں دوہرا اجر عطا فرماتے ہیں۔ اس لیے ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے اور اس کے ساتھ مل جل کر محبت کے ساتھ رہے۔ محبت بڑھانے کا بہترین طریقہ تحفہ یا ہدیہ دینا ہے۔ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے چاہے وہ بکری کا ایک کھُر ہی کیوں نہ ہو ۔ اور ہمیں بھی چاہیے کہ کسی کے دیے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے تحفے کو بھی خوش دلی سے قبول کریں اور اسے حقیر نہ سمجھیں۔ یاد رکھیں تحفہ کی حیثیت اس کی قیمت سے نہیں خلوص سے ہوتی ہے۔ تحفہ دلوں کے کینہ اور غصہ کو صاف کردیتا ہے۔
پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک ہمارے لیے جنت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مردِ مومن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک دردمند دل کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ اپنے پڑوس کی بھوک اور تکلیف نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے ہمہ وقت ہمیں پڑوسی کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو بھر پیٹ کھائیں اور ہمارا پڑوسی بھوکا مرے۔ ہمیں اپنے خوشبودار کھانوں کی مہک سے بھی اسے بے چین کرنے کا حق نہیں ہے۔ جو بھی نعمت ورزق اللہ تعالیٰ نے ہمیں عنایت کیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس میں سے تھوڑا حصہ ضرور پڑوسی کا نکالیں۔ ہم اپنا شوربہ تھوڑا پانی ڈال کر بڑھالیں اور پڑوسی کو دیں۔اس طرح ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں اور آخرت کی جوابدہی سے بچ سکتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے پڑوسی کے گھر کی ہوا اور روشنی روکنے سے بھی ہمیں منع فرمایا ہے۔ وقتِ ضرورت اپنی دیواریں پڑوسی کو استعمال کرنے اور اس میں کیلیں وغیرہ ٹھونکنے کی بھی سہولت دینی چاہیے کہ یہ ہمارے نبی کا فرمان ہے۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کے مقرب اور خاص بندے بننے کے لیے ہمیں اپنے نبیؐ کی تعلیمات کو اپنی کاوشوں کا مرکز بنانا چاہیے۔ اسلام میں خدا کی فرمانبرداری کا حق صرف چند نمازوں اور روزوں سے ادا نہیں ہوجاتا۔ بلکہ ایک مومن کی عبادت و اطاعت صحیح معنی میں اسی وقت کامل ہوسکتی ہے جبکہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا لحاظ رکھے۔ اس عورت کی طرح نہ ہوجائے جو نماز روزہ اور صدقہ خیرات تو کثرت سے کرتی تھی لیکن پڑوسی کو ہر معاملے میں زک پہنچاتی اور برا سلوک کرتی تھی۔ اس کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے دوزخ کی وعید سنائی۔ اس کے برعکس وہ عورت جو فرض نماز روزہ اور زکوٰۃ تو کرتی لیکن نفل صدقہ خیرات زیادہ نہ کرتی لیکن پڑوسیوں کے ساتھ اس کا سلوک بہترین ہوتا تھا۔ اس کے لیے آپ ﷺ نے جنت کی بشارت فرمائی۔
اسلامی تاریخ میں ایک عالم دین کا واقعہ ملتا ہے جو کسی قرض کے بوجھ میں دب گئے۔ انھوں نے اپنا مکان فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا اور اعلان کردیا کہ وہ اسے بیچ رہے ہیں۔ ایک خریدار آیا اور قیمت معلوم کرنے لگا۔ مکان مالک نے اس کی قیمت تین ہزار دینار بتائی جس پر وہ کہنے لگا کہ یہ قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت ایک ہزار دینار ہونی چاہیے۔
مکان مالک نے کہا کہ اس کی قیمت تو واقعی ایک ہزار دینار ہی ہے لیکن کیونکہ اس گھر کا پڑوسی نہایت شریف انسان ہے اس لیے اس کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ میں تو صرف اس پڑوس کی قیمت دو ہزار دینار ہی لے رہا ہوں۔ جب یہ بات ان کے پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے کسی طرح انتظام کرکے ان کا قرض ادا کردیا اور گھر کو بکنے سے بچالیا۔ کیونکہ وہ بھی اپنے شریف اور نیک پڑوسی کو اپنے پڑوس سے جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ ہے وہ اخلاق و کردار جس کو اپنانے کی اسلام اہلِ ایمان کو تلقین کرتا ہے۔
——