’’پڑھنا لکھنا تو دولتمندوں کا کام ہے‘‘

منجو

س: کیا نام ہے؟

ج: منجو

س: کتنی عمر ہے؟

ج: ۱۲ سال کی ہوں۔

س: کہاں سے تعلق ہے؟

ج: راجستھان کے جے پور سے۔

س: اب کہاں رہتی ہو؟

ج: کچھ دنوں سے دلی میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہوں۔

س: کھانے پینے کا انتظام کیسے کرتی ہو؟

ج: چوراہوں اور کراسنگ پر کھلونے، اخبار، پنکھے، بیچ کر کام چلاتی ہوں۔

س: اتنا کھانے کے لیے کافی ہوتا ہے؟

ج: بھگوان کا شکر ہے کہ ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔

س: یوم پیدائش کب مناتی ہو؟

ج: مجھے نہیں معلوم میں کب پیدا ہوئی۔

س: خالی وقت میں کیا کرتی ہو؟

ج: سڑکوں پر رہنے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلتی ہوں۔

س: جب بیمار پڑتی ہو تو کون دیکھ بھال کرتا ہے؟

ج: میرے گاؤں کا ایک آدمی ہے میں اسے ماماں کہتی ہوں، وہی دیکھ بھال کرتا ہے۔

س: پڑھ لکھ سکتی ہو؟

ج: بالکل نہیں۔

س: پڑھنا چاہتی ہو؟

ج: نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے، کام کرنا پڑتا ہے۔ پڑھنا لکھناتو دولت مند لوگوں کا کام ہے۔

س: بڑی ہوکر کیا کرو گی؟

ج: مجھے امید ہے کہ میں کوئی نہ کوئی کام پالوں گی، کوئی بھی کام ہو، کروں گی۔

س: کیسے دن گذرتا ہے؟

ج: صبح سویرے اٹھتی ہوں، ماماں چائے کی دکان سے سموسا کچوڑی لاتے ہیں۔ وہ ہمیں پچھلے دن کا بچا ہوا سموسا کچوڑی سستی قیمت میں دے دیتا ہے۔ اسے کھا کر کام پر نکلنے کی تیاری کرتے ہیں۔ پھر ماما کچھ بیچنے والا مال خریدتا ہے۔ میں اسے لے کر چوراہوں یا اپنی سڑک پر آجاتی ہوں۔ ہر کار کی کھڑکی پر دستک دیتی ہوں۔ ان سے سامان خریدنے کی درخواست کرتی ہوں۔ جب تھک جاتی ہوں تو کنارے گذرگاہ پر بیٹھ جاتی ہوں۔ کبھی کبھی لوگ اپنی مرضی سے کچھ پیسے دے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی کھانا، کیلا، روٹی وغیرہ دے دیتا ہے۔ ایک دن تو مجھے ایک رحم دل آدمی نے ایک شرٹ دی تھی۔ میں یہ ساری چیزیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں لیکن ماماں یہ سب مجھ سے لے لیتا ہے میرا پیسہ بھی۔ کیوں کہ وہ ہمیں کھانا دیتا ہے۔ شام کو ہم لوگ واپس آتے ہیں، کسی قریبی تندور والے کے یہاں کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ پھر سوجاتے ہیں۔ دن بھر سخت تھکن سے ہم بے دم ہوجاتے ہیں۔

س: سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟

ج: میں ایک بار اپنا گاؤں گھومنا چاہتی ہوں خاص طور پر تیوہار کے موقعے پر میں اپنے گھر والوں کی کمی محسوس کرتی ہوں۔

س: موجودہ زندگی تمہیں پسند ہے، یا تم کچھ تبدیلی کی امید کرتی ہو؟

ج: جو ہے وہ اچھا ہے۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ آج اور اسی بڑے شہر میں کھانے اور ٹھہرنے کا بندوبست ہوجاتا ہے، بڑی بات ہے۔ کس کو معلوم ہے کہ کب مواقع آئیں گے اور میری زندگی ہمیشہ کے لیے کب تبدیل ہوگی۔

س: کیا خدا پر یقین رکھتی ہو؟

ج: بالکل۔ سب کچھ خدا ہی کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا ہی ہماری نگرانی کرتا ہے۔ لیکن میں خدا سے کبھی نہیں ملی۔

س: سڑکوں پر زندگی میں سب سے ناپسندیدہ بات کیا لگتی ہے؟

ج: جب چوراہے پر بہت زیادہ کاریں ہوتی ہیں تو شور بہت ہوتا ہے میں ڈر جاتی ہوں۔ بھاگ بھاگ کر ہر کار کے پاس اپنا سامان لے جاتی ہوں۔ کچھ لوگ بہت بدمزاج ہوتے ہیں۔ تب مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے گاؤں واپس چلی جاؤں۔ لیکن گاؤں میں تو غریبی بہت ہے۔

س: کیا یہ دنیا اچھی جگہ ہے؟

ج: بالکل، یہ اچھی جگہ ہے۔

س: کھیل اور تفریح کیسے کرتی ہو؟

ج: ساتھیوں کے ساتھ کھیل کر۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں