وہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی بڑے بوڑھوں کی طرح سوچتا، بڑے بوڑھوں جیسے کام کرتا اور جب مجھے گھیر پاتا، بڑے بوڑھوں ہی کی طرح نصیحتیں کرتا۔ میں سنیما کا شوقین، وہ بڑے بوڑھوں کی طرح بالکل سیدھے اور سادے انداز سے سینما دیکھنے کے نقصانات سمجھاتا۔ کہتا:
’’دیکھو انیس! سنیما دیکھنے سے انسان کا دل لذت پسند ہوجاتا ہے، لذت پسند انسان کی نظر آوارہ ہوجاتی ہے اور نظر کی آوارگی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ پھر پیسے کی بربادی الگ، وقت کا زیاں الگ اور نیند کا نقصان الگ۔ حکیم اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ رات کو اول وقت کی نیند انسان کے لیے اس قدر ضروری ہے جیسے ہوا اور پانی۔ اگر کسی نے اسے کھودیا تو پھر دن میں اس کی تلافی ممکن نہیں۔ رات کو اول وقت سونا اور صبح کو منہ اندھیرے اٹھنا صحت کا زریں اصول ہے۔‘‘
اگر کہیں میں درمیان میں ٹوک دیتا کہ ’’سینما سے جو تفریح حاصل ہوتی ہے وہ کہیں اور کہاں؟‘‘ تو وہ میرے اس ’’کہیں اور کہاں؟‘‘ کو زیر لب دہراتا اور پھر تفریح کا فلسفہ لے کر بیٹھ جاتا:
’’انیس! شاید تم تفریح کے معنی ہی نہیں سمجھتے۔ تفریح کا مطلب تو یہ ہے کہ انسان کسی ایسی کھلی اور ہوا دار جگہ، کسی ایسے کھیل میں لگ جائے جس سے کچھ دیر کے لیے دنیا کے غم غلط ہو جائیں اور کھیلنے والا طبی اصولوں کے تحت اتنی آکسیجن حاصل کرلے کہ وہ اسے اگلے چوبیس گھنٹوں کے لیے کام پر ابھار سکے پھر جب اس جگہ اور کھیل سے مستفید ہوکر واپس ہو تو وہ اپنے اندر ایک نشاط محسوس کرے۔ کیا سنیما ہال جیسی بند اور اندھیری جگہ میں، جس کے اندر سیکڑوں آدمی بھرے سانس لے رہے ہوں نشاط حاصل ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! اور تازہ ہوا کا تو وہاں سوال ہی نہیں۔ رہا غم غلط ہونا تو میں کہتا ہوں کہ غم غلط ہونے کے بدلے سینما کا شوقین وہاں سے الٹے ایک غم اور مول لے کر آتا ہے۔نہ اسے غم ِدنیارہتا ہے اور نہ غمِ عقبیٰ۔ اگر کسی کوکہیں سے یہ دو غم حاصل ہوجائیں تو سمجھووہ عبادت کرکے آیا ہے۔ مگرسنیما ہال سے تم جیسے نوجوان وہ غم لے کر آتے ہیں جسے سفلہ پن اور آوارگی کے سوا دوسرا نام نہیں دے سکتے۔
کتنا فرق تھا میرے اور اس کے مزاج میں۔ میں یار باش اور خراچ، وہ تنہائی پسند اور کفایت شعار، میں مہینے میں ڈیڑھ سو کماتا اور سب خرچ کرکے بھی صبر نہ آتا تو مقروض ہوجاتا، وہ نوّے کماتا اور کم سے کم پچاس ضرور بچالیتا۔ میری حالت یہ کہ : کبھی اس پر نظر کبھی اس پر،اس کی کیفیت یہ کہ: پہلی نظر معاف ہے بار دگر حرام۔
شعوری یا غیر شعوری طور پر میری نظریں متحرک حسن کی طرف اٹھ جاتیں تو وہ بیچ میں آجاتا اور کہتا: ’’انیس کیا تمہاری کوئی بہن نہیں؟‘‘
نہ جانے کیا بات تھی، اختلاف مزاج کے باوجود مجھے اس سے بے حد محبت تھی، ہم دونوں ایک ہی کارخانے میں کام کرتے اور ایک ہی مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ میںاکثر سوچا کرتا کہ بھری جوانی میںجب کہ انسان بغیر پیے بھی جھومتا جائے، وہ اتنا سنجیدہ کیوں ہے؟ اس کو نہ اچھا کھانے سے رغبت، نہ اچھا پہننے سے دلچسپی، نہ سیر و تفریح سے مطلب اور نہ یاروں سے کام بس دھن ہے تو یہ کہ پیسہ زیادہ سے زیادہ جمع کرلے۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ’’تم ابھی سے یوں جوڑ جوڑ کر کیوں رکھتے ہو؟ کیا کہیں شادی طے ہوگئی ہے۔‘‘
اس نے کسی تمہید کے بغیر بتانا شروع کردیا: ’’بھائی! بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہے، بڑی بہن مجھ سے پانچ برس بڑی۔ لگ بھگ ستائیس سال کی۔ ماں کے سوا ہمارا کوئی سرپرست نہیں۔ اللہ کے نام کے سوا ہمارے گھر میں کچھ نہیں۔ میری ستائیس سالہ بہن صورت و کردار، عادات و اطوار اور گن ڈھنگ کے اعتبار سے پوری عورت ہے لیکن اس کی شادی ہنوز نہیں ہوسکی۔ محض اس لیے کہ ہمارے پاس جہیز دینے کو کچھ نہیں۔ جہیز تو الگ رہا۔ ہم تو منگنی کا بوجھ بھی نہیں اٹھاسکتے۔ میں جب گھر جاتا ہوں تو ماں یہی دکھڑا لے بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بات اور کہتی ہیں: لڑکی کی ذات، خدانخواستہ کہیں اس کا قدم …… تم سمجھ گئے ہوگے۔ انیس! خدا نے جہیز کی صورت میں لڑکیوں کو ان کا حق دیا تھا، سماج نے دنیا کے لالچ میں پڑ کر اسے اپنے گلے کا پھندہ بنالیا۔ تو پھر میں اس کے سوا اور کیا کروں کہ محنت مزدوری کرکے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرلوں اور اس کی مدد سے اس پھندے کو کھول پھینکوں۔ افسوس! ہمارا سماج کچھ ایسا بگڑ گیا ہے کہ ہر شخص ہر معاملے کو اقتصادی نقطہ نظر سے ہی سوچتا ہے۔ وہ خاموش ہوگیا۔ میں اس کی تقریر سے ایک حد تک متاثر بھی ہوا۔ اس کے بعد …؟
اس کے بعد صبح ہوتی گئی، شام ہوتی گئی اور دن گزرتے گئے۔ وہ محض اس لیے گھر نہ جاتا کہ جو پیسے ریل کی نذر ہوں وہ بچالیے جائیں۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا: ’’ایک ہزار تو میں نے جمع کرلیے ہیں اتنے ہی اور ہوجائیں تو کچھ آس بندھے۔‘‘ میں نے اس کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سامنے والے مکان کی کھڑکی پر نیا نیا پردہ پڑے دیکھ کر ادھر متوجہ ہوگیا۔ میں سوچنے لگا ’’شاید کوئی نیا کرایہ دار آکر رہا ہے اور اس کے ساتھ فیملی بھی ہے۔‘‘
دوسرے دن اس کے گھر سے ایک لفافہ آیا۔ لفافے کا خط پڑھ کر اس نے چاہا کہ گھر جائے مگر کچھ سوچ کر رک گیا میں نے حال پوچھا۔ اس نے کچھ نہ بتایا۔ اس کے تیسرے دن اتوار تھا ہماری چھٹی تھی۔ ہم دونوں کمرے میں بیٹھے تھے۔ اچانک سامنے والے مکان سے، اس پردے والی کھڑکی کی راہ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ آواز سنتے ہی وہ چونکا اور ادھر دیکھنے لگا۔ بڑی پیاری اور دلکش آواز تھی۔ میں مسکرایا، دل میں کہا: ’’آخر وہ بھی تو انسان ہی ہے اور جوان بھی۔ پھر عورت کی آواز ، جوان عورت کی آواز میں ایک کشش بھی تو ہوتی ہے۔ اس کا دھیان ادھر گیا تو کیا بات ہے۔ یہ تو فطرت کے عین مطابق ہے۔ میں مسکراتا رہا۔ اس نے پوچھا : ’’کیا ہنس رہے ہو؟‘‘ میں نے منہ بناکر یہ شعر پڑھ دیا:
میں کیا بتاؤں عہدِ جوانی کی لغزشیں
اس میں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے
اس نے کھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’یعنی یہ کہ میں تمہاری طرح کسی کی تاک جھانک میں لگ گیا۔ تم اس کے سوا اور کیا سوچ سکتے ہو!‘‘
وہ دن بھر اس کھڑکی کی طرف منہ کیے بیٹھا رہا۔ اس نے نظریں پردے پر جمادی تھیں۔ نہ جانے وہ اس پردے کے پیچھے کسے دیکھنا چاہتا تھا ایک بار مجھ سے پوچھا بھی ’’اس مکان میں کون آکر رہا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کوئی نیا کرایہ دار ہے شاید‘‘ ساتھ ہی میں نے پوچھا: ’’آخر تمہیں کس کی تلاش ہے؟‘‘
اس نے جواب نہیں دیا۔ عصر کا وقت ہوچکا تھا، عصر کے وقت ایسا محسوس ہوا کہ سامنے والے مکان کی اسی کھڑکی والے کمرے میں کوئی مرد آیا اور اس نے کسی سے کہا: ’’پردہ سرکا دو ذرا‘‘ یہ آواز سن کر ہم دونو ںکھڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ پردا ذرا سا سرکا تھا کہ ایک نہایت خوبصورت نسوانی چہرہ ہمارے سامنے آگیا۔ پردہ سرکانے والی شاید پردے کی بے حد پابند تھی، اسے دیکھ کر مجھ پر کیا اثر ہوا؟ کیا ضروری ہے کہ میں اپنا ہر تاثر ظاہر ہی کردوں ہاں اس کی زبان سے بے ساختہ ’’فرحت باجی‘‘ نکلا اور وہ بیہوش ہوگیا۔
میں اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر ڈاکٹر کو بلا لایا۔ ڈاکٹر نے آکر اس کو دیکھا۔ بولا: ’’اس میں تو کچھ بھی نہیں۔ بے چارے کا ہارٹ فیل ہوگیا۔‘‘ ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا۔ میں سوچنے لگا، کیا کروں؟ میری سمجھ میں آیا اس کے گھر تار ضرور جانا چاہیے تار دینے کے لیے پتہ معلوم ہونا چاہیے۔ اس کے گھر سے آیا ہوا کوئی خط تلاش کرنے لگا۔ اس سلسلے میں مجھے وہ لفافہ مل گیاجس کے آنے کے بعد وہ کئی دن سے مغموم اور رنجیدہ ہورہا تھا۔ میں نے لفافے سے خط نکالا۔ پتہ معلوم کرنے کے لیے پڑھا۔ اس کی ماں نے لکھا تھا کہ فرحت کسی کے ساتھ نکل گئی۔
میں نے ڈاک خانے جاکر اس کے گھر تار دیا۔ پوری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ ڈاکخانہ سے واپسی پر خیال آیا۔ اب جو ہونا تھا ہوگیا۔ اس کی فرحت باجی سامنے والے گھر میں ہے ہی، کیوں نہ اسے خبر کردوں، آخری بار اپنے بھائی، مردہ بھائی کا دیدار کرلے۔ میں سیدھا سامنے والے گھر کی طرف چلا۔ پاس پہنچا تو دیکھا کہ مالک مکان اس میں تالا ڈال رہا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی۔ اس نے بتایا ’’کرایہ دار نے مکان چھوڑ دیا اور ابھی ابھی اپنی بیوی کو لے کر کہیں چلا گیا۔‘‘