حسن کی کیڈیکل اسی ہائی وے پر ستر میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی تھی، ان کے برابر کی نشست پر بیٹھی ہوئی عاتکہ بار بار اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتیں پھر کار کے شیشے سے اسکائی اسکریپرز اور سیدھی چوکور عمارتوں کو دھند میں آنکھ مچولی کرتے دیکھنے لگتیں۔
’’ٹول ٹیکس کے لیے ڈالر تو ہوگا آپ کے پاس؟‘‘ حسن نے عاتکہ کی بے چینی کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تو وہ اپنے چھوٹے سے ہینڈ بیگ میں ریزگاری ڈھونڈنے لگیں۔ حسن ووڈلینڈ کی ایک مشہور دکان میں ایریا سیلز منیجر تھے۔ ان کے دیر سے گھر پہنچنے پر عاتکہ برہم تھیں۔ ڈالر کے مل جانے پر اسے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کہنے لگیں۔
’’آج پھر ہم پارٹی میں دیر سے پہنچ رہے ہیں۔‘‘
حسن نے عاتکہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ٹول بکس کے قریب پہنچتے پہنچتے اس کی رفتار دھیمی پڑی۔ پھر وہ رک گئی۔ عاتکہ نے کار کی کھڑکی کا شیشہ اتارا اور ہاتھ باہر نکال کر بکس میں ڈالر کو اچھال دیا۔ راستہ کھٹاک سے کھل گیا۔
عاتکہ اور جونی بچپن کے دوست تھے۔ جونی کے گھر تقریب میں شریک ہونے وہ دونوں ہیوسٹن جارہے تھے۔ جوں جوں پارٹی کا وقت تنگ ہورہا تھا، عاتکہ کی بے چینی کا گراف بڑھتا جارہا تھا۔
’’قومی شاہراہ پر کار چلاتے ہوئے مجھے ڈر لگتا ہے۔ ورنہ میں آپ کا انتظار نہ کرتی۔‘‘حسن نے ایک اچٹتی نگاہ عاتکہ کے چہرے پر ڈالی پھر ونڈ اسکرین پر نظریں جمادیں۔ وہ تھکے ہارے گھر آئے تھے۔ نومبر کا تیسرا ہفتہ تھا۔دوکان میں کرسمس کی تیاریاں زور و شور سے ہورہی تھیں۔
چھٹی کے دن بھی دوکان کو جانا آپ کے لیے ضروری ہوتا ہے، وہ زچ کرنے پر تلی ہوئی تھیں، حسن خاموش نہ رہ سکے۔ ’’میرا کام آپ کی ان پارٹیوں سے زیادہ اہم ہے۔‘‘ انھوں نے سخت لہجے میں دو ٹوک جواب دیا۔ عاتکہ کا چہرہ بے رنگ ہوگیا ’’اور میرے احساسات میری خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟‘‘ انھوں نے غصہ پیتے ہوئے سوچا اور منزل کو پہنچنے تک خاموش بیٹھی رہیں۔
جونی کے دو منزلہ بنگلے کے سامنے حسن نے اپنی کیڈی کو کئی رنگ برنگی کاروں کے بیچ جگہ دیکھ کر پارک کردیا۔ وہاں پڑوس کے مکانات پر ایسا سکوت چھایا ہوا تھا جیسے کوئی ذی روح رہا ہی نہ ہو۔ بنگلے میں داخل ہوتے ہی انھیں میزبان کی آواز سنائی دی۔
’’ہم سورہ رحمن سے دعوت کا افتتاح کررہے ہیں۔‘‘
’’ہم وقت پر پہنچ گئے۔‘‘ عاتکہ نے اپنے آپ سے کہا اور مسکرا کر حسن کی جانب دیکھا، ہال انواع و اقسام کے پرفیومس سے مہک رہا تھا۔ دیوار سے دیوار تک بچھی قالین پر مختلف ڈیزائن کی رنگین چادریں پھیلادی گئی تھیں۔ قیمتی صوفہ سیٹ دیوار کے ساتھ لگا کر رکھ دیے گئے تھے۔ وہاں مرد ایک طرف ادب سے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ دوسری جانب خواتین تھیں ان کے سروں پر حجاب تھا، جنھوں نے حجاب کا استعمال نہیں کیا تھا، انھوں نے دوپٹوںکے پلو سے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
سورہ رحمن کی تلاوت ختم ہوتے ہی سبھوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گھیرا باندھا اور مل کر خدا کا شکر ادا کیا۔ یہ جونی کا تھینکس گیونگ پارٹی منانے کا اپنا انداز تھا، جو سب کو پسند تھا۔
آج جونی کا سنگھار دیکھنے کے لائق تھا، جدید ڈیزائن کا شرٹ شلوار، سوٹ کے گلابی رنگ سے میل کھاتا، بیل بوٹے کا دوپٹہ، سر پر پیشانی تک لال رنگ کا اسکارف، جسے وہ گاہے گاہے کھول کر باندھ لیتیں تو کانوں کے لٹکن اور گلے میں پہنچا ہوا الماس اور موتی کا بندی لچھا چمک اٹھتا تھا، تب عاتکہ دل ہی دل میں کہتیں: ’’زیور سے گوندنی کی طرح لدے رہنا جونی کی بچپن کی عادت ہے۔‘‘ دوسری خواتین بھی حسن و زیبائش کا نمونہ بنی ہوئی تھیں۔ شائد انھیں اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک دولت مند گھرانے میں مدعو ہیں۔ کچھ دیر تک قہقہے چہچہے کی باتیں ہوتی رہیں پھر کھانے کا اعلان ہوا۔
کھانے کی میزپر بیچوں بیچ پارٹی کے مخصوص انداز میںہمہ اقسام کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کئی اور لوازمات تھے جن سے میز بھری ہوئی تھی۔
جونی بڑی خوش اخلاقی سے قطار میں لگے ہوئے مہمانوں کو ایک ایک نیپکن پکڑا رہی تھیں اور ان کی اکلوتی بیٹی انھیں کولا اور سیون اپ پیش کررہی تھی۔
میز لگانے میں جونی کی مدد کرنے کے بعد عاتکہ نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو دیکھا مہمان چھوٹے چھوٹے گروپس میں بٹ گئے ہیں، بڑی اسکرین کی رنگین ٹی وی کے قریب کبیر بھائی کی نازک اندام بیوی چند خواتین کے ساتھ کھانے میں مصروف ہیں، عاتکہ اپنی پلیٹ میں کھانا لے کر وہاں پہنچیں، ایک بزرگ خاتون کہہ رہی تھیں۔
’’یہ جو سورہ رحمن میں ذکر آیا ہے کہ دو دو باغ ہوں گے اور دونوں باغوں میں سب میوے دو دو قسم کے ہوں گے، میں نے اس کی تفسیر پڑھی ہے،اس سے مراد مختلف رنگ و بو اور مزے کے خشک وتازہ میوے ہیں، انسان جدت پسند ہے اس کا لحاظ بہشت میں بھی رکھا گیا ہے تاکہ بندہ ایک ہی چیز بار بار کھانے سے اکتا نہ جائے۔‘‘
سب زیر لب مسکرانے لگے، کرنجی آنکھوں والی خاتون نے ان کی بات کو قبول کرتے ہوئے کہا۔
’’تغیر زندگی کا اٹل قانون ہے، انسان جدت پسند ہی واقع ہوا ہے۔ خوف اور توہمات کی بناء پر منایا جانے والا یہ قدیم تہوار اب صرف بچوں کی حد تک شریر کھیل بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
ان کی نظریں آرائش کے طور پرسجائی گئی چیزوں پر جمی ہوئی تھیں جو شاید ہالوین تہوار کے موقع پر خریدے گئے تھے۔ گول گول کدوؤں کی چمکدار سطح پر چہرے کی شکل میں آنکھ ناک اور منہ تراش دیے گئے تھے۔ اندر کا گودا صاف کردیا گیا تھا وہاں اب شمعیں جل رہی تھیں۔
کبیر بھائی کی بیوی نے پوچھا تو کرنجی آنکھوں والی خاتون پھر بول اٹھیں، ’’ہاں بھتیجے ہیں، غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے دوسروں کی مدد کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ سچ پوچھو تو ہم نے بھی ان امریکیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ خوش اخلاقی، ایمانداری، وقت کی قدر کرنا، محنت کو عیب نہ سمجھنا، منافقت تو وہ جانتے ہی نہیں۔‘‘
’’لیکن یہ قدریں تو ہماری اپنی بھی تھیں۔‘‘ کبیر بھائی کی بیوی نے کسی قدر خفگی سے کہا۔ ’’ہم نے کب اپنی قدروں کو محفوظ رکھا ہے۔‘‘ کرنجی آنکھوں والی خاتون کی روشن جبیں پر کئی بل پڑگئے۔ خواتین جانتی تھیں کہ وہ ایک دوسرے کو بہت کم پسند کرتی ہیں، جس کا اظہار ردّوکد سے کیا کرتی ہیں۔ موضوع کو بدلنے کی خاطر عاتکہ نے کرنجی آنکھوں والی خاتون سے پوچھا۔
’’پارٹی کی تاریخی اہمیت کے بارے میں آپ کیا جانتی ہیں۔‘‘
انھوں نے بھی اپنا موڈ بدلتے ہوئے جواب دیا: ’’بس یہی کہ کولمبس جب راہ بھٹک کر امریکہ پہنچا تو یہاں کے ریڈانڈینز نے اس کی دعوت کی تھی اور مل کر خدا کا شکر ادا کیا تھا۔ اس طرح پارٹی کی ابتدا ہوئی جو بعد میں ہر سال بطورِ رسم منائی جانے لگی۔
’’لیکن میں نے سنا ہے کہ ریڈ انڈینز کے داخلے پر یہاں کے قبائلی باشندوں نے ان کی دعوت کی تھی، اس طرح یہ پارٹی شروع ہوئی۔‘‘ دوسری حسین خاتون نے اپنی معلومات کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔
’’بات ایک ہی ہوئی نا۔‘‘ کبیر بھائی نے قریب آتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ فاصلے پر کھڑے خواتین کی باتوں میں دلچسپی لے رہ تھے۔ ان کے ہاتھ میں کولا سے بھرا ہوا گلاس تھا۔ وہ کھانا کھاچکے تھے۔ ’’اب یہ کیا کم ہے کہ اسی تھینکس گیونگ پارٹی کے بہانے ہم یہاں اکٹھا ہوئے ہیں اور خوب کھارہے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی بیوی کی پلیٹ پر شریر نظر ڈالی، اس پر زور کا قہقہہ بلند ہوا۔
سفید سوٹ اور سنہرے فریم کی عینک میں کبیر بھائی کی شخصیت ابھر آئی تھی۔ بائیں کان کے نیچے چھوٹا سا مسّا تھا، جو ہنستے وقت زیادہ نمایاں ہوجاتا تھا۔ عاتکہ نے ان کی گفتگو پر کان لگایا اور اہمیت سے ان کے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بات کرنے کے انداز کو محسوس کیا۔
’’یہ تم ہمیں گھور گھور کر کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ کبیر بھائی نے عاتکہ سے پوچھا تو سب کی نگاہیں ان کی جانب اٹھ گئیں۔
’’وہ اصل میں … میں کہیں اور کھوگئی تھی کبیر بھائی۔‘‘ عاتکہ نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے جلدی سے کہا۔ ’’آج ٹی وی پر پروگرام دیکھا تھا اس کا عنوان تجربہ تھا۔ بس وہی مجھے خلل کررہا ہے۔‘‘
کچھ خواتین اٹھ گئیں ان کے اٹھ جانے سے بہت ساری جگہ خالی ہوگئی وہاں میزبان اور حسن آکر بیٹھ گئے۔
’’سنا تم نے حسن؟ یہ تمہاری بیگم کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ کبیر بھائی نے عاتکہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو حسن بھی عاتکہ کو چاہت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔
’’یہ کہہ رہی ہیں کہ آج کا پروگرام انھیں ڈسٹرب کررہا ہے۔ انھیں سمجھاؤ بھائی کہ اس میں حصہ لینے والے ماں باپ اور بچے سب کرائے کے ٹٹو ہوتے ہیں۔‘‘ کبیر بھائی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن کبیر بھائی۔‘‘ حسن نے احتجاج کیا ’’آپ اس حقیقت سے کیسے انکار کرسکتے ہیں کہ پروگرام سماج کے ایک سنگین مسئلے کو پیش کررہا ہے وہ یہ بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ گورے اور رنگ دار بچے جو اپنے باپ کی موجودگی میں یتیمی کا درد سہہ رہے ہیں وہ اپنے باپ سے ملنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اداس رہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کچھ دیر رک کر کبیر بھائی کو دیکھا پھر ایک ہی سانس میں کہنے لگے۔
’’سماج کے اس گھناؤنے پہلو کو عیاں کررہا ہے کبیر بھائی جس کی کوکھ سے بے رحمی اور ناانصافی کے جذبے جنم لیتے ہیں اور رشتوں کے ٹوٹنے کا سبب بنتے ہیں۔ آپ دیکھئے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک باشعور انسان اپنے بچے کو اپنی پہچان نہیں دے پاتا۔ بچوں کی روح میں اترجانے والا یہ احساس کہ باپ کا دستِ شفقت ان کے مقدر میں نہیں ہے، انھیں دوسرے راستے پر ڈال دیتا ہے، کئی بچے اپنا رشتہ جرائم سے جوڑ لیتے ہیں۔‘‘
’’حالانکہ انھیں ان کی ماؤں کا پیار برابر مل رہا ہے۔‘‘ عاتکہ نے کہا۔
’’خاک مل رہا ہے۔‘‘ میزبان بھی حجت کرنے لگے ’’ان ماؤں کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ سرکاری طور پر بچے کا اور باپ کا ٹسٹ کروائیں اور باپ کا خون ثابت ہونے پر بچے کی کفالت کا بار اس کے سر پر ڈال دیں، بچے کی محبت سوتیلے باپ کو گھر نہیں لے آتی۔‘‘
’’اف… وہ سوتیلے باپ۔‘‘ کبیر بھائی کی بیوی نے جھرجھری لی۔
’’یہ آپ لوگ کس بحث میں پھنس گئے؟‘‘ جونی ان کے درمیان میٹھے کی کٹوریاں لے کر پہنچ گئی تھیں۔’’ میٹھا کھائیے اور میٹھا بولیے۔‘‘ انھوں نے کہا ویسے وہ خوب جانتی تھی کہ ایسی محفلوں میں لوگ چپ نہیں رہتے اور پارٹی کی کامیابی کے لیے ہنسی ٹھٹھا بحث و مباحثے کا ہلکا سا شور ضروری ہوتا ہے۔ ’’اور آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘ اب وہ اپنے شوہر سے مخاطب تھیں ’’اٹھئے، میری مدد کیجیے۔‘‘ جونی نے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر انھیں وہاں سے اٹھالیا۔
بحث کو بھول کر سب میٹھا کھانے میں مصروف ہوگئے لیکن کبیر بھائی میٹھا نہیں کھا رہے تھے ان کے پاس کولا کا خالی گلاس رکھا تھا۔
’’آپ کیا سوچ رہے ہیں کبیر بھائی؟‘‘ عاتکہ نے انھیں خاموش دیکھ کر پوچھا: ’’اچھا بتائیے، کچھ دیر پہلے یہاں جدت پسندی کی بات ہورہی تھی، کیا جدت کے معنی ماضی سے بے پروائی اور غفلت کے ہیں؟‘‘
کبیر بھائی کچھ دیر سوچ میں ڈوبے رہے پھر انگوٹھے سے اپنا ماتھا کھرچنے لگے۔ سنہری فریم کی عینک کو اپنی ناک پر درست کرتے ہوئے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اپنے آپ کو روک لیا۔ دوسری آوازیں بھی یکایک بند ہوگئیں۔ میزبان بلند آواز میں کہہ رہے تھے۔
’’سنیے۔ اب ہم جھیل کی طرف جارہے ہیں وہاں کافی کا انتظام کیا گیا ہے۔‘‘ ’’باقی آئندہ‘‘ کہتے ہوئے کبیر بھائی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ جونی کے بنگلے کے عقب کا دروازہ لکڑیوں کے جنگلے سے گھرے ایک چھوٹے سے احاطے میں کھلتا تھا۔ احاطہ بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ نشیب میں چاندی جیسی جھیل تھی۔ جھیل کے دونوں جانب دلکش مکانات تھے۔ جن کے مکیں میٹھی نیند سورہے تھے۔ کہرا فضا میں گم ہورہا تھا۔ ماحول میں نشہ تھا جیسے کوئی نغمہ جھیل سے نکل کر سرد ہواؤں کے ساتھ گنگنا رہا ہو اور سب کو مسحور کررہا ہو۔ آہستہ آہستہ محویت کا طلسم ٹوٹا۔ منجمد جسموں میں حرکت ہوئی لوگ بولنے لگے۔ لیکن یہاں باتوں کی دھار دھیمی لے لیے ہوئی تھی کیونکہ وہ امریکن تہذیب کے پابند تھے۔ کہ دن ہو یا رات پڑوسیوں کے آرام میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے۔ کبیر بھائی ہنوز جنگلے پر جھکے رہے۔ عاتکہ کا جی چاہا کہ ایک بار پھر انھیں چھیڑیں۔ ’’کبیر بھائی کیا آپ نے تہہ کو پالیا ہے؟‘‘ لیکن جونی کے آواز دینے پر وہ ان خواتین کی طرف چلی گئیں جو کافی کی چسکیوں کے ساتھ، جونی کو اپنے گھیرے میں لیے معلومات حاصل کررہی تھیں جو ان کے میزبان نے اپنے شوق کی تسکین کے لیے جمع کررکھی تھیں۔
ادھر حسن اور ان کے دوست زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے امریکہ کے سائنسدانوں کی بات کرنے لگے جو تارکینِ وطن تھے اور امریکہ میں آکر بس گئے تھے جنھوں نے امریکہ کو نوبل انعام دلایا تھا۔ اس ذکر نے انھیں ’’اگنی‘‘ اور ’’پرتھوی‘‘ ، ’’غوری‘‘ اور ’’شاہین‘‘ مزائلز کی یاد دلائی۔ پھر وہ کوسوو پر سربیا کی جانب سے متواتر ظلم و تشدد اور ناٹو کی فوجی مداخلت کا تذکرہ کرنے لگے۔ بات کی گہرائی میں اترے بغیر وہ کسی اور بحث میں الجھنے ہی والے تھے کہ حسن نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روک دیا۔
’’ایک منٹ ٹھہریے۔‘‘ آواز اتنی تیز تھی کہ دور بیٹھے لوگ حیرانی سے انھیں دیکھنے لگے۔ کبیر بھائی یکایک جنگلے سے پلٹے۔’’دیکھئے ہم پھر وہی غلطی کررہے ہیں، اہم اور سنگین مسئلے کے بارے میں غوروفکر کرنے سے گریز کرنے کی۔ کیا کسی بھی ملک کے دل دہلانے والے واقعات، لاکھوں انسانوں کا قتل اور معصوم جانوں کا اتلاف ہمارے اندر سناٹا نہیں پھیلاتا؟ درد کا احساس نہیں جگاتا؟ کہ اس ذکر کو چھیڑ کر ہم ایسے گزرگئے جیسے یہ کوئی عام سی بات ہو۔‘‘
حسن لمحہ بھر کے لیے رک گئے۔ دیکھا ان لوگوں کی آنکھوں میں کوئی رحم، کوئی فکر کے آثار نہیں ہیں۔ حسن پر جھنجھلاہٹ سوار ہوگئی۔ وہ اپنی عادت سے مجبور ہوگئے اور وہاں انسانوں کی انسانیت جھنجھوڑنے کی کوشش میں الفاظ کو چبا چبا کر کہنے لگے:
’’دنیا میں یہودیوں کے علاوہ سب سے زیادہ ظلم کوسووو میں رہنے والے البینیا کے باشندوں پر ہوا ہے۔ ان بیچاروں کی پیشانی پر تقدیر نے خوف و دہشت اور عدمِ تحفظ کی آگ میں جلنا لکھا ہے، لیکن ہمارے دلوں میں یہ کیسا روگ پیدا ہوگیا ہے کہ برفیلی ہواؤں کے بیچ کھلے میدان میں لاکھوں مرد عورتوں اور بچوں کی بے سروسامانی متاثر نہیں کرتی۔ کیا ذہنی طور پر ہم اتنے قلاش نہیں ہوگئے ہیںکہ کھل کردردمندی کا اظہار بھی نہیں کرپاتے۔‘‘
حسن کی گھنی بھوئیں سمٹ گئیں’’کل اگر یہ بے تحاشہ میزائل کی بارش جنگ عظیم میں تبدیل ہوجائے اور سارے جہاں کی مٹی بارود کی بو سے بھر جائے تو جانتے ہیں آپ کا کیا ہوگا؟‘‘ زمین میں اتنا زہر بھر جائے کہ پھر کوئی مہاتما، کوئی سائنسداں اور کوئی دانشور پیدا نہیں ہوگا۔ ہماری باقی رہنے والی نسلیں ہیروشیما اور ناگاساکی والوں کی طرح صرف معذور بچوں کی مظلومیت کو جھیلتی رہیں گی۔‘‘
حسن نے بھڑکتے شعلوں کا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے سجادیا تھا۔ بات لوگوں کے اندرون تک پہنچ گئی تھی، وہ سہم کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
محفل کا رنگ بگڑتا دیکھ کر میزبان گڑبڑاگئے، متانت سے کام لیتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر کافی کا دور شروع کیا تاکہ ماحول پر چھائی ہوئی سنجیدگی دور ہوجائے۔ لیکن اب کوئی بات مزہ نہیں دے رہی تھی۔ مہمانوں کے لیے رسماً بات کرنا تکلیف دہ ہونے لگا تھا، عاجز آکر وہ روایتی انداز سے میزبان کا شکریہ ادا کرکے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
اب حسن کے سامنے واپسی کی وہی طویل مسافت تھی۔ انھوں نے راستے کے کئی موڑ کاٹے، اور دیر تک اداس سے ڈرائیونگ کرتے رہے۔ شاید وہ خود کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرارہے تھے کہ انھوں نے بے تکی بحث سے جونی کی محفل درہم برہم کردی۔ عاتکہ کو دیکھا، وہ کار کے شیشے کی طرف اپنا چہرہ کیے بیٹھی تھیں، حسن کی نظر اتر کر ہیرے کی انگوٹھی پر ٹھہر گئی جو عاتکہ نے پہن رکھی تھی۔ انھوںنے عاتکہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ عاتکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی، خاموش بیٹھی رہی۔
آسمان پر سماں بدل رہاتھا۔ بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ حسن نے کار کے وائپرس آن کردیے اور ونڈ اسکرین کو صاف کرنے لگے۔
’’میرا ارادہ یہ نہیں تھا کہ آپ کے دوست کی محفل بدمزہ ہوجائے۔‘‘ ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے دور دیکھتے ہوئے حسن نے کہا ’’لیکن لوگ جب بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں… خیر چھوڑیے اس بحث کو … یہ بتائیے سیلی کا پروگرام آپ کو خلل کیوں کررہا تھا؟‘‘
عاتکہ کچھ دیر تک خاموش بیٹھی اپنی خفگی کا اظہار کرتی رہیں پھر دھیرے دھیرے کھلنے لگیں۔
’’اس وقت مجھے ایک ایسی لڑکی کا خیال ستارہا تھا جس کی زندگی میں ہونے والے حادثوں کے ڈانڈے سیلی کے پروگرام سے ملتے ہیں، اس کا نام اینٹ ہے، انڈیا میں رہتی ہے، میری بھتیجی صدف کی سہیلی ہے۔‘‘ پھر حسن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کہیں تو اس لڑکی کی کہانی سناؤں، جو اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
ذہنی اور جسمانی طور پر تھکے ہوئے حسن عاتکہ کو خوش کرنے کی خاطر سننے کے لیے تیار ہوگئے۔ اینٹ چرچ میں کورل گایا کرتی تھی، اس کے ساتھ اور لڑکے لڑکیاں بھی ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے کا نام ہنری تھا، جوان اور وجیہہ ہنری نے جب سانولے سلونے حسن کی مالک اینٹ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اس نے قبول کرلیا۔ ہنری کے والدین برہمن کیتھولک تھے، یعنی مقامی مشنری کے ہاتھوں عیسائی بنائے گئے برہمنوں کی اولاد، نسل کی پاکیزگی کی فکر، بھوت بن کر ان سے چمٹی رہتی، ہنری کی ماں بھی اس پھٹکار سے بچی نہیں تھی۔
اس دن چرچ میں سرمن ختم ہوچکا تھا، اس کے احاطے میں لوگ چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے کھڑے باتیں کررہے تھے۔ ہنری ان میں موجود نہیں تھا۔ ہنری کی ماں ایک سوچے سمجھے ارادے کے تحت اینٹ کی ماں سے ملی، باتوں باتوں میں کہنے لگی ’’لادا تمہیںیاد ہے تم نے اینٹ کو گود لینے کا خیال ایک بار دل سے نکال دیا تھا، کیونکہ اس کا شعوری ارتقاء صرف ۷۰ فیصد تھا اور تمہارے ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق اینٹ بڑی ہوکر ذہنی مریضہ ہوسکتی تھی۔‘‘
لادا نے گھبرا کر پہلے اینٹ کو دیکھا جس کا منہ سفید پڑ رہا تھا پھر ہنری کی ماں کو جس کے چہرے کی لکیریں نفاق کے جذبے کو چھپا نہ سکی تھیں۔
للہ خاموش رہیں۔ لادا نے عاجزی سے کہا لیکن ہنری کی ماں حیوانی پستی کی طرف لڑھکتی جارہی تھی، عیسائی مذہب کی روشن خیالی بھی اس کے اندر کے اندھیرے کو دور نہ کرسکتی تھی۔
’’کیوں؟ تم نے اینٹ کے ماضی کے بارے میں اس کو نہیں بتایا؟‘‘ اور اس کی ماں… لادا نے اسے آگے کہنے سے روک دیا اور چیخ کر کہا، ہمیں تنہا رہنے دیں۔ اینٹ بدحواس ہوگئی اور گھوم کر اطراف میں دیکھا، اس نے محسوس کیا کہ لادا کی درد بھری چیخ، چرچ کے احاطے میں گشت لگا رہی ہے اور ساری برادری کو اس کے راز سے واقف کرارہی ہے۔ بس وہ ایک لمحہ تھا زمانے کی بے مہری اور اینٹ کی بے بسی کا۔ دل شکستگی اور بے التفاتی کے احساس کی زندگی کے پہلے صدمے کو اپنے نوخیز دل میں چھپائے وہ ہنری کا انتظار کرتی رہی کہ وہ آئے اور اس کے گھاؤ پر عشق کے التفات کا مرہم لگائے۔ لیکن گھر والوں کا ڈانٹا ہوا ہنری آیا تو اینٹ کو یہ سمجھانے کے لیے ’’ہم ماں کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں گے۔‘‘
ہنری کے اس تذبذب نے اینٹ کے لہو میں گھلے ہوئے درد کو اور بڑھادیا اس نے غصے سے لاچاری میں پھنسے ہنری کو دیکھا اور دل کی گہرائیوں سے چلا اٹھی ’’چلے جاؤ۔‘‘
ہنری چلا گیا، اینٹ کے سپنے تہس نہس ہوگئے۔ وہ روتی رہی، سسکتی رہی، اپنے آپ کو کوستی رہی، ان حالات نے لادا کو مجبور کردیا کہ وہ اینٹ کے ماضی کی کتاب کھول کر اس کے روبرو رکھ دے۔
گھر میں اینٹ کا نام انجو تھا، اس کی ماں خوبصورت کرسچن تھی، باپ امیر تھا اور مسلم۔ ذہنی ہم آہنگی انھیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔ سارے رشتے داروں کے مشوروں کو ٹھکرا کر ان دونوں نے ایک دوسرے کو اپنایا تھا، لیکن انجو کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماں چل بسی، انجو کے باپ نے اسے ’’ہوم‘‘ میں چھوڑ دیا، لادا اپنی سونی گود بھرنے کے لیے ’’ہوم‘‘ سے لے آئی اور گود لینے کی کارروائی پورا کرنے کے بعد اس کا نام اینٹ رکھا۔
’’سن رہے ہو نا؟‘‘ عاتکہ نے پوچھا تو حسن نے اثبات میں سرہلایا۔
’’آج کل اینٹ فردوس گمشدہ کی تلاش میں ہے اور مقدس مریم کی منت کررہی ہے کہ مقدس ماں میرے دل پر صبر کی گرہ لگادے اور میرے بچھڑے ہوئے باپ سے ملادے۔‘‘
قصے کے اس موڑ پر وہ ماڈل ہاؤس پہنچ گئے تھے جو ان کی گلی کے نکڑ پر تھا۔ جہاں پہنچتے ہی حسن کیڈی میں کسی بٹن کو چھودیتے اور ان کے گیرج کا شٹر خود بہ خود کھلنے لگتا۔
کرسمس اور پھر نئے سال کی آمد نے حسن کو مصروف رکھا، وہ رات دیر گئے گھر آتے اور صبح چلنے کی جلدی میں رہتے، ان دنوں وہ اس بات سے بے خبر رہے کہ ان کی غیر موجودگی میں عاتکہ کیا کرتی رہتی ہیں۔ جب انھیں سانس لینے کا موقع ملا تو وہ جنوری کی ایک ایسی صبح تھی جو ملگجے اجالے والے دھند سے بھری تھی، تمام رات بارش ہوتے رہنے سے درجہ حرارت گھٹ کر صفر سے نیچے بیس ڈگری ہوگیا تھا، ٹی وی پر وقفے وقفے سے موسم کا حال بتایا جارہا تھا۔ راستوں پر برف جم جانے سے گاڑیوں کا چلنا دشوار ہورہا تھا، سڑک پر میونسپلٹی کی گاڑیاں نمک چھڑکتے پھر رہی تھیں۔ تاکہ جمی ہوئی برف پگھل جائے، لوگوں کو باہر نہ نکلنے کی ہدایت دی جارہی تھی۔
حسن اور عاتکہ گرم کپڑے پہنے ہال کی بڑی کھڑکی کے قریب بیٹھے اس کے بند شیشے سے باہر کا الف لیلوی منظر دیکھ رہے تھے، آسمان پر گہرے رومان انگیز دھندلکے پھیلے ہوئے تھے۔ مکانوں کی ڈھلوان سرخ کھپریل پر گیرجوں کی چھتوں پر چاندنی اتر آئی تھی، ان کے کنارے برف کی سفید جھالر سے سج گئے تھے، گھر کے سامنے لگے ڈاک صندوقچہ کی کورسے بھی برف کی گوٹ لٹک رہی تھی۔ احاطے کے سبزے پر سفید فرش بچھ گیا تھا، سرو کے درخت فطرت کا بوجھ سنبھالے اوندھے پڑے تھے۔
جب قدرت کی جلوہ آرائی نے انھیں خوب چھکا دیا تو موسم کا خیال کرتے ہوئے ان دونوں نے گھر ناشتہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ بجلی کے چلے جانے سے گھر میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ برتن منجائن اور دھلائی کی مشین بند پڑے تھے، لیکن ان کا کوکنگ رینج گیس کا تھا جس پر عاتکہ نے پین کیک تیار کیے۔ کچن کی چھوٹی سی میز پر ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے وہ ناشتہ کررہے تھے۔
’’کئی دنوں سے میرا ذہن ایک کشمکش کا شکار ہورہا تھا۔ صدف کو خط لکھ کر میں نے اس ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پالیا۔‘‘ عاتکہ نے کہا تو ان کے منہ سے گرم سانس کا دھواں نکلنے لگا، کوئی اور موقع ہوتا تو وہ بچوں کی طرح ہنسنے لگتیں۔
’’کیسی کشمکش؟‘‘ حسن نے مشروب ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’صدف نے اینٹ کے باپ کا نام ایم کے دین بتایا تھا اور یہ بھی کہ وہ امریکہ کے کسی شہر میں بسنے کے لیے کشتیاں جلاچکے ہیں۔ میں نے صدف کو لکھا ہے کہ ایم کے دین یہاں ہیوسٹن میں رہتے ہیں۔‘‘
حسن عاتکہ کو دیکھنے لگے۔
’’میں نے وہ خط اس بھروسے لکھا تھا کہ میں نے اینٹ کے رویے میں ایم کے دین کی شخصیت کا عکس دیکھا تھا۔ وہ دل میں اتر جانے والا لہجہ ’’جب تناؤ میں ہوتی ہے تو اپنا ماتھا کچلنے لگتی ہے۔ اس کی مورنی جیسی گردن پر ایک چھوٹا سا مسّا ہے، ٹھوڑی کے گول ابھار کے اندر دائرہ۔‘‘
’’آپ کااشارہ کبیر بھائی کی طرف تو نہیں ہے؟‘‘ حسن نے انھیں بیچ میں روک کر پوچھا۔’’ہاں ان کا پورا نام محمد کبیرالدین ہے نا؟‘‘
’’لیکن صدف کو خط لکھنے سے پہلے آپ کو چاہیے تھا کہ کبیر بھائی سے اس معاملے میں گفتگو کرلیتیں یا پھر مجھ سے اس کا ذکر کرتیں۔‘‘
’’میں آپ دونوں کو حیرت زدہ کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ کبیر بھائی ہی اینٹ کے باپ ہیں… یاد ہے؟… اس دن جونی کی دعوت میں وہ دیر تک جنگلے پر جھکے کسی سوچ میں گم تھے۔ معلوم ہے کیوں؟ کیونکہ انجانے میں آپ نے ان کی روح کے بنددریچے پر دستک دے دی تھی، سیلی کے پروگرام پر بحث کرتے ہوئے بات کا رخ ان کی طرف موڑدیا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک باشعور انسان اپنے بچے کو اپنی پہچان نہیں دے پاتا۔‘‘
’’پھر بھی اگر کبیر بھائی نے اس رشتے کو ماننے سے انکار کردیا تو؟‘‘
’’کل شام کو صدف کا فون آیا تھا۔‘‘ حسن کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے عاتکہ نے کہا۔
’’دیکھا آپ نے … اینٹ، کبیر بھائی سے ملنے کے لیے باولی ہورہی ہے ڈیئر۔‘‘ حسن کی آواز تاسف سے بھری تھی۔
’’نہیں… ‘‘عاتکہ نے اونچی آواز میں کہا۔’’اینٹ کا وہ جنون باقی نہیں رہا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ حسن کا چہرہ حیرانی اور تعجب سے بھر گیا۔
’’اب اس کے دل میں ایم کے دین کی یادوں کی چنگاری نہیں بھڑکتی۔‘‘
’’اور وہ مقدس مریم کی منت؟‘‘
’’اینٹ کا کہنا ہے کہ مقدس ماں ہی نے اسے زندگی کی عظمتوں سے واقف کرایا ہے۔ جن لوگوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے اسے پروان چڑھایاہے، جن کی پرورش میں اسے مقدس باپ کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہی اس کے اصلی ماں باپ ہیں اور وہ شخص جو ایم کے دین ہے، جس نے اسے مبلغ عیسائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا اس کی یادوں کے مزار پر اینٹ نے فاتحہ پڑھ دیا ہے۔‘‘
——